وارانسی ڈسٹرکٹ کورٹ نے گیانواپی مسجد معاملے میں
مسلم فریق کی درخواست کو مسترد کر کے احاطے میں پوجا کا حق مانگنے والی
پانچ ہندو خواتین کی طرف سے دائر مقدمہ کو برقراررکھا تو اسے ہندو فریق
نےاپنی کامیابی سے تعبیر کردیا حالانکہ ضلعی عدالت سے اس کے سوا کوئی اور
توقع ہی نہیں تھی۔ اب اس کیس کی اگلی سماعت 22 ستمبر کو ہو گی اور ممکن ہے
اس وقت بھی اسی قسم کا فیصلہ سامنے آئے کیونکہ اس طرح کے معاملات میں جب
عدالت عظمیٰ کے ہاتھ باندھ دئیے جاتے ہیں تو نچلی عدالت کی کیا بساط؟ بھارت
جوڑو یاترا سے پریشان بی جے پی کوبھارت توڑنے کے لیے اس طرح کے تنازع کی
جتنی ضرورت اب ہے پہلے کبھی نہیں تھی۔ انجمن انتظامیہ مسجد کمیٹی کو چونکہ
یہی توقع تھی اس لیےاس نے فیصلے کےسنائے جانے کے وقت عدالت میں موجود رہنا
بھی ضروری نہیں سمجھا۔اس فیصلے کا مطلب یہ ہے کہ ہندو فریق کے طرف سے داخل
مقدمہ کی سماعت کی جائے گی اور شواہد کا جائزہ لیا جائے گا۔ گیان واپی مسجد
کے سروے کی تکمیل پر مئی کے مہینے میں ہندو فریق نے نچلی عدالت میں دعویٰ
کیا تھا کہ وضو خانے میں 'شیو لنگ' مل گیا۔مسلم فریق نے اس کو خارج کردیا
مگر مقامی عدالت نے اس مقام کو سیل کرنے کا حکم دےدیا۔ مسلم پرسنل لا بورڈ
نے وضو خانہ بند کرنے کے حکم کو 'غیر قانونی' قرار دیا تھا۔ وارانسی کی
مقامی عدالت اب ہندو فریق کے دعوے پر سماعت کرکے اپنا فیصلہ سنائے گی۔
گیانواپی مسجد کے اس فیصلے کو کچھ دانشور ہندوتوا کے حوالے سے پیدا ہونے
والی زبردست بیداری قرار دے کر مودی سرکارکی تعریف و توصیف کر رہے ہیں۔
ایسے لوگوں کو چاہیے ایودھیا جاکر ہندو راشٹر کا اصلی چہرا دیکھیں۔ ایودھیا
میں وزیر اعظم نے مندر کا سنگ بنیا درکھااور اس کے بعد سے رام مندر کی
تعمیر کا کام شروع ہوگیا۔ اس کے ساتھ شہر کو خوبصورت بنانے کی خاطر تجاوزات
ہٹانے کی تیاریاں بھی چل پڑیں۔ اس مقصد کے لیے ایودھیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے
غیر قانونی کالونائزر کی فہرست جاری کی تواس میں بی جے پی رکن اسمبلی اور
میئر کے نام شامل تھا۔ ایودھیا شہر میں غیر قانونی پلاٹنگ کرنے والوں میں
میئر رشی کیش اپادھیائے( بی جے پی)، رکن اسمبلی وید پرکاش گپتا اور سابق بی
جے پی رکن اسمبلی گورکھ ناتھ بابا کا نام گواہ ہے کہ رام مندر آستھا کا
نہیں بلکہ رام نام کی لوٹ کا معاملہ تھا۔ عوام کی توجہ اس بدعنوانی سے
ہٹانے کے لیے بھی وارانسی مسجد کا تنازع ضروری ہے۔
ایودھیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے حال میں سریو کچھار کے ڈوب علاقے میں غیر
قانونی پلاٹنگ اور کالونیوں کے لیے بنائی گئی دیوار کو منہدم کردیا۔ اس سے
قبل ایودھیا شہر سے ملحق باغ بجیسی میں غیر قانونی پلاٹنگ کو منہدم کیا گیا
تھا۔ اس لوٹ مار پر اگر کوئی سماجوادی یا کانگریسی اعتراض کرتا تو اسے بابر
کی اولاد اور رام کا دشمن قرار دیا جاتا لیکن یہ کام تو مقامی بی جے پی رکن
پارلیمان للو سنگھ نے کردیا۔ انہوں نے وزیر اعلیٰ کو لکھے خط میں اس بڑے
کھیل کی ایس آئی ٹی جانچ کرانے کا مطالبہ کرکے ہلچل مچا دی۔ اس کا نتیجہ
ہے کہ ایودھیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے سکریٹری وشال سنگھ نے ۴۰غیر قانونی
کالونیوں کو منہدم کرنے کے لیے نشان زد کردیانیز مزید خرید و فروخت کی جانچ
شروع کردی اور ایسے لوگوں کے خلاف بھی سخت سے سخت کارروائی کا اعلان کردیا۔
للوسنگھ کے مطابق سریو ندی کے کنارے زمینوں کو سرکاری افسران کی ملی بھگت
سے بڑے پیمانے پر پراپرٹی ڈیلروں نے اصول و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر
فروخت کردیا ۔ کانگریس کے ریاستی ترجمان اشوک سنگھ کو شکایت ہےکہ رام جنم
بھومی کی توسیع کے لیے اراضی کے سودے میں عقیدت مندوں سے اکٹھے کیے گئے
کروڑوں کے عطیہ میں بد عنوانی ہوئی مگروزیراعلیٰ کی جانب سے مافیا پر
بلڈوزر کارروائی کا کوئی اعلان کیوں نہیں کیا گیا؟ ریاستی حکومت نے ایک پر
اسرار خاموشی اختیار کر رکھی ہے کیونکہ اس ڈکیتی میں کوئی مسلم شامل نہیں
ہے۔ کیا یہی رام راجیہ کا راج دھرم ہے؟
ملک بھر میں بدعنوانی کی بو سونگھتی پھرنے والی شاہ جی کی ای ڈی یاسی بی
آئی کو بھی ایودھیا نظر نہیں آتا کیونکہ وہاں ان کے بھائی بند لوٹ مچائے
ہوئے ہیں ۔ اس خرد برد میں چونکہ رام بھگتوں کے علاوہ کوئی اور شریک نہیں
ہے اس لیے سماج وادی پارٹی کےرہنما اکھلیش یادو نے بی جے پی پر طنز کرتے
ہوئے کہاکہ بھرشٹا چاریوں(بدعنوان لوگوں ) کو کم از کم ایودھیا کو تو بخش
دیناچاہئے تھا۔ حزب مخالف کے دباو میں آکر جب ایودھیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے
بلا اجازت تعمیر کیے جانے والے تقریباً 500 ا ؍گھروں کی انہدامی کارروائی
کا ارادہ کیا تو سماجوادی پارٹی نے پینترا بدل کر یوپی حکومت سے ایودھیا کے
ان باشندوں کی حالت زار پر غور کرنے کی گزارش کی جن کے گھروں پر بلڈوزر
چلایا جانا ہے۔ سماجوادی پارٹی کے سینئر لیڈر آشیش پانڈے دیپو نے ایودھیا
کے ڈویژنل کمشنر کو عرضداشت پیش کر کے علاقے کو ریگولرائز کرنے کا مطالبہ
کردیا۔ انھوں نے کہا کہ مکانوں کو منہدم کرنے کی مہم اے ڈی اے کے محکمہ
ریونیو اور میونسپل کارپوریشن کے درمیان رسہ کشی کا نتیجہ ہے، جس سے عام
آدمی پریشان ہے۔
سماجوادی پارٹی کےپانڈے نے دعویٰ کیا کہ مبینہ سیلاب کے میدان جہاں انہدامی
مہم شروع کی جا رہی ہے، وہاں کئی سرکاری تعمیراتی منصوبے پہلے سے ہی چل رہے
ہیں۔ ان کے مطابق اس علاقے میں پردھان منتری آواس، کاشی رام کالونیاں، بین
الاقوامی ایودھیا بس اسٹیشن، بین الاقوامی رام لیلا سنٹر اور جلسہ گاہ کے
ساتھ رام کتھا پارک اور کوریائی پارک بھی شامل ہیں۔ اب اگر وہاں کے باشندوں
کو ہٹایا گیا تو یہ سرکاری پروجیکٹ بھی بند کرنے پڑیں گے ۔ فی الحال
ایودھیا کے اندر یوگی سرکار چہار جانب سے گھر چکی ہے۔ ایک طرف بدعنوانی
مخالف شبیہ بنانے کے لیے انہدامی کارروائی ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ سرکاری
تعمیرات کو بچانا بھی اہم ہے۔ ایسے میں اگر کارروائی کی گئی تو رائے
دہندگان بی جے پی سے ناراض ہوجائیں گے اور اگر انہیں بخش دیا جائے تو
بلڈوزر رکوانے والی سماجوادی پارٹی کے احسانمند ہوں گے ۔ ایودھیا کی مصیبت
سے نکلنے کی خاطر بھی وارانسی اور متھرا کی جامع مسجد کے معاملے میں عوام
کو الجھانا بے حد ضروری ہوگیا ہے۔
اتر پردیش میں بلند بانگ دعووں کے بعد مودی یوگی نے انتخاب تو جیت لیا مگر
اب صوبے کی حالت خراب ہے ۔ یوپی کی حالت ِ زار سے متعلق دو دل دہلانے والی
ویڈیوزنے مودی اور یوگی کا خوب نام روشن کیا۔ ان میں سے ایک میں2 سالہ
بھائی کی لاش کے ساتھ ایک لڑکا بھٹکتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس کی تفصیل یوں ہے
کہ باغپت میں ایک ناراض ماں نے اپنے بیٹے کو سڑک پر پھینک دیا اور وہ گاڑی
کے نیچے آکر جاں بحق ہوگیا۔ پوسٹ مارٹم کے بعدلاش والد کے حوالے کر دی گئی
مگر ایمبولینس فراہم کرنے سے انکار کردیا گیا ۔ پروین اپنے بیٹے کی موت کی
خبر سن کر راجستھان سے آیا تھا لیکن اس کے پاس پیسے نہیں تھے کہ پرائیویٹ
گاڑی کے لیے 1000 روپے دے سکے ۔ اس لیے لاش کو پیدل لے کر جانے پر مجبور
ہوگیا ۔ بے بس باپ بچے کی لاش کو گود میں لے کر چلتے چلتے تھک گیا تو اس
نےاسے اپنے بڑے بیٹے کے حوالے کر دی۔ دوسرا ویڈیو دیوریا ضلع اسپتال کا ہے۔
اس میں ایک بیٹا اپنی بوڑھی ماں کو کندھے پر اٹھائے چل رہا ہے۔ ویڈیو میں
وہ چیختے ہوئے کہہ رہاہے ”ایک ایمرجنسی کیس ہےلیکن اسٹریچر نہیں دیا جا
رہا، دوا سٹریچر خالی ہیں لیکن اسٹریچر نہیں دیا جا رہا ہے۔ ماں مرنے والی
ہے، لیکن اسٹریچر نہیں ہے۔‘‘اسی دوران بزرگ خاتون کی موت ہوجاتی ہے۔
اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ اپنے صوبے میں نظم و نسق کی بڑی تعریف کرتے پھرتے
ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے جرائم پیشہ لوگوں کو ریاست سے باہر بھاگ جانا چاہیے
ورنہ انکاونٹر کرکے پرلوک روانہ کردیا جائے گا اور گھر بار پر بلڈوزر چلا
دیا جائے گا لیکن یہ سب ذرائع ابلاغ میں دکھانے دانت ہیں۔ اتر پردیش میں
خاکی وردی والوں کی غنڈہ گردی عروج پر ہے کیونکہ انہیں یقین ہے کہ وہ جو
چاہے کریں بابا کا آشیرواد بچا لے گا ۔ ابھی حال کے اندر قنوج میں چوکی
انچارج نے اپنی بیٹی کے لیے انصاف مانگنے والی خاتون کو اپنی سرکاری رہائش
گاہ پر بلاکر اپنی ہوس کا نشانہ بنایا ۔پولیس والے ہی جب درندہ بن جائیں تو
انسان انصاف کی خاطر کہاں جائے؟ ایس پی نے چوکی انچارج کو جیل بھیج دیا
۔اتر پردیش میں انتخاب سے قبل یوگی اور مودی کے بلند باگ دعووں سے
متاثرہوکر کورونا کے دوران ان کی تمام تر ناکامیوں اور گنگا میں تیرتی
لاشوں کو بھول کر عوام نے پھر سے بی جے پی کو اقتدار سے نوازہ مگر الیکشن
جیت کر وہ ان وعدوں کو بھول گئے اور اپنی کوتاہیوں کی پردہ پوشی کے لیے
کبھی گیان واپی مسجد تو کبھی متھرا کی عید گاہ کا مسئلہ اٹھاکرہے اور ہندو
مسلم منافرت کا کھیل کھیلنے لگتے ہیں ۔ انتخابی سیاست کی یہ بدترین یہ کھیل
ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ ہندوستان کے لوگ جب تک زعفرانیوں اس فریبی
جال سے نہیں کلتے ان کی فلاح وبہبود ناممکن ہے۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق
ہے اپنی مساجد اور مدارس کا تحفظ ان کی دینی ذمہ داری ہے اور وہ اسے ہر طرح
سے ادا کرتے رہیں گے ۔ اللہ مددو و نصرت ان کے شاملِ حال ہوگی اور اس میں
کامیاب و کامران ہوں گے ان شاء اللہ۔
|