پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران
خان نے حسب معمول ایک بار پھر یو ٹرن لیتے ہوئے امریکی سازش کے بیانیہ سے
اچانک پلٹا کھا لیا ہے قبل ازیں وہ اپنی حکومت کو گرانے کی سازش کا الزام
امریکی حکومت اور پا کستان کی عسکری قیادت پر لگاتے رہے۔اب گزشتہ 24 گھنٹوں
میں نہ صرف امریکی سفارتکاروں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں بلکہ چاہتے ہیں کہ
موجودہ عسکری قیادت نئی حکومت کے منتخب ہونے تک کام جاری رکھے۔ ایک نجی ٹی
وی کو انٹرویو میں عمران خان نے امریکہ مخالف بیانیہ اور اسٹیبلشمنٹ مخالف
بیانیہ دونوں سے یو ٹرن لے کر سب کو حیران کردیا ہے۔ وہ اب تک اپنی حکومت
کو گرانے کا الزام ایک جانب اسٹیبلشمنٹ پر لگاتے رہے ہیں اور د وسری جانب
امریکہ پر۔ اسی بنیاد پر انہوں نے امپورٹڈ حکومت کا نعرہ لگا یاتھا۔کچھ
عرصہ سے انہوں نے اپنے جلسوں میں امریکہ پر تنقید بند کردی تھی۔اب یوٹرن کے
ماسٹر سابق وزیر اعظم عمران خان نے ڈنکے کی چوٹ پر اپنے حامیوں کو امپورٹڈ
حکومت نا منظور پر نعرے لگوانے والوں کے سامنے نیا یوٹرن لیکر انہیں بھی
ششدر کر دیا ہے اور کہا کہ میرا امریکا سے کوئی مسئلہ نہیں۔ واشنگٹن کے
ساتھ تعلقات اچھے ہونے چاہئیں۔ امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتا ہوں وغیرہ
وغیرہ ۔ دوسری جانب شہبازشریف پر تنقید کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ
85 سیٹوں والا مفرور کیسے آرمی چیف سلیکٹ کر سکتا ہے؟ یہ لوگ بیرونی سازش
کے تحت آئے، اگر یہ ووٹ کے ذریعے مینڈیٹ لیکر آئیں تو سلیکٹ کر سکتے ہیں،
نئی حکومت کے منتخب ہونے تک آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کوعہدے پر توسیع دی
جائے۔یعنی اب نیوٹرلز ‘ میر جعفر ‘ میر صادق اور ہینڈلرز آج دوست بن گئے
ہیں انہی کی توسیع کی بات کی جارہی ہے ۔ اس سے قبل ڈی جی آئی ایس پی آر کہ
چکے ہیں کہ مو جودہ آرمی چیف توسیع نہیں لیں گے اسلئے اس معاملہ کو سیا سی
رنگ نہ دیا جا ئے۔ آرمی چیف جنرل قمر جا وید با جوہ 29نومبر 2022ء کو
ریٹائر ہوں گے۔ جبکہ ملک و قوم اور ادارے کا مفاد اسی میں ہے کہ آرمی چیف
کی تقرری کا عمل اپنے وقت پر اور قانون و آئین کے مطابق انجام پائے اور اس
کو متنازعہ نہ بنایا جائے ۔جو نہ تو فوج کے ادارے کے لئے اچھی بات ہے نہ ہی
ملک کے مفاد میں ہے۔عمران خان نے ایک اور یو ٹرن یہ لیا ہے کہ میں الیکشن
پر بات کرنے کیلئے تیار ہوں۔ اس سے قبل وہ کہتے تھے کہ ان چوروں اور ڈاکوؤں
کے ساتھ کیسے بیٹھوں۔عمران خان کی منطق کہ موجودہ حکومت نیا آرمی چیف
تعینات نہیں کر سکتی، سمجھ سے بالاتر ہے۔ حالانکہ یہ تعیناتی وزیراعظم کا
اختیار ہے اور موجودہ حکومت اگر قائم رہتی ہے تو شہباز شریف نیا آرمی چیف
تعینات کریں گے اور یہی قانونی اور آئینی پوزیشن ہے۔یہ ممکن نہیں کہ انہیں
کو یہ اختیار دے دیا جائے یا اْن کے دوبارہ وزیراعظم بننے تک نئے آرمی چیف
کی تعیناتی کو موخر کردیا جائے۔7 مارچ 2022ء تک بقول سابق وزیر اعظم عمران
خان وہ اور آرمی ایک پیج پر تھے ۔بعدازاں حکومت کے خاتمہ کے بعد انہوں نے
ایک اور یوٹرن لیا اور ملکی و قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف دشنام طرازی
کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اب ایک اور یو ٹرن لیتے ہوئے کہا کہ جب تک نئے
انتخابات نہیں ہوجاتے، موجودہ آرمی چیف ہی اپنے عہدے پرموجود رہیں۔ اب تو
عمران خان سازش کرنے والے امریکہ سے بھی دوستی کی پینگیں بڑھا رہے ہیں اور
اہم امریکیوں سے چپکے چپکے ملاقاتیں بھی کر رہے ہیں،یہ کیسی سیاست ہے؟ ۔رابن
رافیل سے ملاقات کے بعدامریکہ کی مداح سرائی میں زمین و آسمان کے قلابے بھی
ملائے، مزید’’ ٹرمپ نے جو عزت مجھے دی ،کسی پاکستانی کے نصیب میں نہ
آئی‘‘۔ماضی میں لیاقت علی خان سے بھٹو، ایوب خان، جنرل ضیاء ، مشرف ،بے
نظیر ، نواز شریف درجنوں مثالیں ایسی جہاں امریکہ نے پاکستانی سربراہان
کوپذیرائی دی۔صرف خطے میں اپنے مقاصد کے حصول تک امریکی دوستی برقرار ر ہتی
ہے ۔ عمران خان آپ تو ٹرمپ و امریکی محبت میں کشمیر کا بھی سودا کر آئے ۔
پوری قوم جانتی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا بنی گالہ ملاقات امریکہ،اسٹیبلشمنٹ
اور عمران خان مک مکاؤہے۔ بلا شبہ رابن رافیل ایک مخصوص ایجنڈا لے کر
پاکستان آئی تھیں۔ آرمی چیف کی ایکسٹینشن ،امریکہ کے حوالے سے گرگٹ کی طرح
رنگ بدلنا ،الیکشن کیلئے مخلوط حکومت کو گرانا، سیاسی ابتری ، لانگ مارچ
کال یقیناً، اس کے پیچھے بھی امریکہ کا ہی ہاتھ ہے۔ پی ٹی آئی چیئرمین پر
فوری انتخابات کا ایسا جنون سوار ہے کہ وہ کچھ اور سننے کو تیار ہی نہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سابق وزیر اعظم نے پاکستان میں واضح طور پر
سیاست میں یو ٹرن کو متعارف کروایا اور اس کو ایک کامیاب رہنما کے لیے
ضروری قرار دیا۔عمران خان کے مطابق یوٹرن نہ لینے والا کبھی کامیاب لیڈر
نہیں ہوتا — ان کے مطابق ہٹلر اور نپولین یو ٹرن نہیں لیا تھا اسی لئے
نقصان اٹھایا۔عمران خان اپنے تین سالہ دور اقتدار میں ایک سے بڑھ کر ایک
اصطلاح ایجاد کر تے رہیں، شوشا چھوڑتے رہیں جن کا سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔،
آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل نے اپنے ادارے کے نیوٹرل ہونے کا اعلان کیا
تھا۔ عمران خان یہ قافیہ لے اڑے یہ نہیں جاانتے کہ کسی ریاستی محکمے کا
سیاسی معاملات میں نیوٹرل بلکہ لاتعلق ہونا کسی کا صوابدیدی فیصلہ نہیں
بلکہ دستور کا واضح حکم ہے۔ بے شک عمران خان کا ’’absolutly not‘‘ امریکی
سازش ، امپورٹڈ حکومت،میر جعفرمیر صادق اوریکے بعد دیگرے یوٹرن پر یوٹرن کو
ان کے ووٹرز میں پذیرائی ملی تو پھر ملکی سالمیت کو بھی داؤ پر لگانے سے
باز نہیں آئے ۔ یہ کیسی وطن سے محبت ہے اور یہ قوم کی کیسی رہنمائی ہے کہ
ملک کے نوجوانوں کے ایک بڑے طبقے کو اپنے سیاسی مفادات کی خاطر اپنی ہی
آرمی کے خلاف اکسایا جا رہا ہے ۔ جلسوں میں قومی وحد ت و پاکستانیت مخالف
ذہن سازی کی جا رہی ہے ۔جہاں اپنے مفادات ہوں فوری یو ٹرن لے لیا جائے ۔
معاف کیجئے گا !یہ بڑے قومی لیڈروں کا طرہ امتیاز نہیں ہے ۔
|