عمران خان الیکشن کرانے کی پوزیشن میں

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان2018 میں ایک آئینی طریقہ کار سے وزیراعظم بنے تھے اور تقریباً پونے چار سال بعد آئینی طریقے ہی سے حکومت سے بے دخل کیے گئے۔پہلی بار ایساہوا کہ ایک وزیراعظم کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے گھربھیجاگیا لیکن دیگرسیاست دانوں کی طرح عمران خان بھی اپنی حکومت کے خاتمے کو سازش قرار دیتے ہیں۔ پہلے لوگ اندرونی سازش کاواویلاکرتے تھے لیکن خان صاحب نے اس میں امریکی سازش کا ٹچ دے کر امریکامخالف عوام کو اپنی جانب متوجہ کردیا۔ سیاست دانوں کو سیاست کے لیے کوئی نہ کوئی بیانیہ تو بناناپڑتاہے،عمران خان کابھی حق ہےکہ وہ کوئی بھی بیانیہ تشکیل دیں اورپھراس کی بنیاد پر عوام کو اپنی جانب متوجہ کریں اورالیکشن جیت کردوبارہ اقتدار حاصل کریں۔پہلے انھوں نے کرپشن کے خلاف نعرہ لگایا اور عوام نے بھرپور ساتھ دیا،لیکن کرپشن کم نہ ہوسکی بلکہ بڑھ گئی ۔ بعدازاں خان صاحب نے انکشاف کیا کہ انھیں ان کے بقول کرپٹ سیاست دانوں کے خلاف ایکشن لینےسے روکا گیاتھا،خیریہ ہمارا مسئلہ نہیں۔جوں جوں نومبر کامہینہ قریب آرہاہے۔ خان صاحب کی لہجے میں تلخی بڑھ رہی ہے لیکن کیا کریں، آرمی چیف کی تعیناتی توبہرصورت وزیراعظم کاہی اختیار ہے،تاہم خان صاحب چاہتے ہیں کہ وہ ایسا نہ کریں ۔ان کے پاس اپنے مطالبے کے حق میں کوئی آئینی یاقانونی دلیل تونہیں البتہ ان کے بقول یہ حکم ران چور اورکرپٹ ہیں،اس لیے وہ نیاآرمی چیف نہ لگائیں ۔ حالانکہ خان صاحب نے انہی چوروں اورکرپٹ رہنمائوں کی حمایت سے موجودہ آرمی چیف کو توسیع دی تھی۔کرسی سے اتارے جانے کے بعدآرمی چیف سے مستعفی ہونے کامطالبہ کیا اوراب کہہ رہے ہیں کہ نہیں آرمی چیف مستعفی نہ ہوں بلکہ چھوٹی موٹی توسیع لے لیں۔اس کے ساتھ ہی انھوں نے عام انتخابات فوری کرانے کامطالبہ بھی دہرایا۔ آرمی چیف کی تعیناتی اگلی حکومت تک موخر رکھنے کی تجویز کے حق میں دلیل دی کہ چونکہ وفاقی حکومت میں شامل لوگ چور اور کرپٹ ہیں،اس لیے ان کو اہم تعیناتی نہیں کرنی چاہئے۔وہ حکومت سے فوری الیکشن کامطالبہ کررہے ہیں۔ساتھ ہی وہ اسلام آباد گھیرائو کی دھمکی بھی دے رہے ہیںحالانکہ 126دنوں کے دھرنے کاسبق یہ ہے کہ وطن عزیز میں احتجاج سے حکومت ختم نہیں ہوتی۔خان صاحب اگرچاہے توفوی الیکشن کرانے کے لیے قانونی نہیں تواخلاقی جوازحاصل کرسکتے ہیں۔بس تھوڑی سے ہمت کریں ۔قومی اسمبلی میں ڈیڑھ سو سے زائد ارکان کاتعلق پی ٹی آئی اوراس کی اتحادی جماعتوں سے ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب اور خیبرپختون میں ان کی حکومتیں ہیں ۔ بلوچستان میں اتحادی حکومت کے اہم شراکت دار ہیں۔اس کے علاوہ آزادکشمیراور گلگت بلتستان میں تحریک انصاف برسراقتدار ہے۔

خان صاحب بسم اللہ کریں۔ کل اپنے ارکان کے ہمراہ قومی اسمبلی پہنچیں ۔ مستعفی ہونے کانہ صرف اعلان کریں بلکہ سپیکر قومی اسمبلی کے پاس خود جائیں اور اپنا استعفیٰ منظور کرائیں۔پھر اپنے ارکان کو قانونی طریقے سے مستعفی کرائیں،اس کے بعد اتحادیوں کو اسمبلی سے باہر کرائیں۔ سپیکر کوئی سستی کامظاہرہ کریں تو عدالت چلے جائیں،عدالت سے انھیں فوری انصاف تو مل ہی جائے گا۔قومی اسمبلی سے فراغت کے بعد پنجاب اسمبلی اور خیبرپختون خوا اسمبلی تحلیل کرائیں ۔بلوچستان میں اتحادی حکومت پراسمبلی توڑنے کے لیے دبائو ڈالیںاور وہاں کابھی قصہ تمام کرلیں۔ لیکن اتوار ہی کی خبر ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان نے جے یوآئی کو حکومت میں شمولیت کی دعوت دی ہے ،اگرایسا ہوجائے توکم از کم عمران خان تواپنی پارٹی اور ہم خیال ارکان کو مستعفی کرادیں۔الیکشن کاماحول پیدا کرنے کے لیے آزادکشمیر اور گلگت بلتستان اسمبلیوں بھی تحلیل کرائیں ۔پھردیکھیں الیکشن کیسے نہیں ہوتے ۔

خان صاحب! شہباز سپیڈ اپنی کابینہ کو مہنگائی کے تناسب بڑھارہے ہیں۔ پورا پاکستان سیلاب میں ڈوبا ہے۔سیلاب متاثرین بے گھر ہیں۔ عوام روٹی کو ترس رہے ہیں۔آگے بڑھیں ۔مستعفی ہوجائیں اورپھردوسروں کو مستعفی ہونے کامشورہ دیں۔آپ توریاست مدینہ کی طرز پر وطن عزیز کو بنانے کے دعوے دار ہیں ۔ریاست مدینہ بنانے والے نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کریں۔ پہلے خود کوئی کام کریں اورپھردوسروں کو اس کی دعوت دیں۔
 

ABDULLAH MISHWANI
About the Author: ABDULLAH MISHWANI Read More Articles by ABDULLAH MISHWANI: 6 Articles with 4111 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.