تحقیق وتخریج:مفتی محمد ہاشم سندھی
تبصرہ :۔ محمداحمد ترازی
" />

"مناقب و فضائل اہل بیت اطہار"

"مناقب و فضائل اہل بیت اطہار"
تحقیق وتخریج:مفتی محمد ہاشم سندھی
تبصرہ :۔ محمداحمد ترازی

"مناقب و فضائل اہل بیت اطہار"

"مناقب و فضائل اہل بیت اطہار"
تحقیق وتخریج:مفتی محمد ہاشم سندھی
تبصرہ :۔ محمداحمد ترازی
۔۔۔۔۔۔۔۔
مفتی محمد ہاشم حفظہ اللہ'' موسوعۃ الامام المھدی علیہ السلام '' پچاس جلدوں پر مشتمل ایک عظیم علمی منصوبہ کے سرخیل ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین مبارکہ میں جس تسلسل کے ساتھ امام مہدی علیہ السلام کا تذکرہ ملتا ہے، اسے دیکھ کر اہل سنت والجماعت نے افراط و تفریط سے پاک ایک نظریہ قائم کیا جس کے کچھ مندرجات درج ذیل ہیں۔
۱:۔ اہل سنت والجماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ آخر زمانے میں امام مہدی کا ظہور برحق اور صدق ہے، اور اس قدر روایات سے ثابت ہے جن پر تواتر معنوی کا دعویٰ کیا جا سکتا ہے۔
۲:۔اہلسنت والجماعت امام مہدی کو نہ تو مامور من اللہ سمجھتے ہیں اور نہ ہی ان کا درجہ انبیاء کرام علیہم السلام کے برابر مانتے ہیں، اور وہ انہیں جب ’’امام‘‘ کہتے ہیں تو اس سے کسی خاص گروہ کا اصطلاحی امام مراد نہیں ہوتا، بلکہ وہ اسے پیشوا اور رہنما کے معنی میں لیتے ہیں اور انہیں ’’رضی اللہ عنہ‘‘ کہنا حضرت عیسی ؑ کی صحابیت کیوجہ سے صحیح قرار دیتے ہیں۔
۳:۔امام مہدی سینکڑوں سال پہلے پیدا نہیں ہوئے اور نہ ہی وہ کسی غار میں روپوش ہوئے ہیں، اللہ تعالیٰ کے طے کردہ نظام کے مطابق وہ اپنے وقتِ مقررہ پر پیدا ہوں گے، وہ حضرت فاطمۃ الزہرا کی نسل سے ہوں گے، نجیب الطرفین سید ہوں گے، ان کا نام نامی محمد اور والد کا نام عبداللہ ہو گا، جس طرح صورت و سیرت میں بیٹا باپ کے مشابہہ ہوتا ہے ، اسی طرح وہ شکل و شباہت میں اور اخلاق و شمائل میں آنحضرتؐ کے مشابہہ ہوں گے، وہ نبی نہیں ہوں گے نہ ان پر وحی نازل ہو گی، نہ وہ نبوت کا دعویٰ کریں گے لہٰذا ان کی نبوت پر ایمان لانے کا سوال بھی پیدا نہیں ہوتا۔
۴:۔امام مہدی سے متعلق روایات کم از کم ۷۳ صحابہ کرامؓ سے مروی ہیں، یہ تعداد ایسی ہے کہ اس پر تواتر کی تعریف صادق آسکتی ہے ۔
۵:۔ امام مہدی کی پیدائش مدینہ منورہ میں ہو گی اور وہ وہیں پلے بڑھیں گے۔
۶:۔ امام مہدی کے ظاہر ہونے پر ہمارے عقائد میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، نیز ظہور مہدی اور خود امام مہدی ہمارے عقائد میں سے کسی عقیدے میں تبدیلی کا تقاضا نہیں کریں گے، البتہ وہ احیاء سنت اور اماتتِ بدعت کی جانب خوب متوجہ ہوں گے۔
۷:۔ ظہور امام مہدی کے موقع پر امام مہدی کی بیعت و معاونت کرنا قرآن و سنت کی پیروی کے مخالف نہیں ہو گا بلکہ اس کے عین مطابق ہو گا۔
۸:۔ جس سال امام مہدی کا ظہور ہونا ہو گا، اس سال حج امیر کے بغیر ہو گا، منی میں کسی بات پر لوگوں کے درمیان جھگڑا ہو گا جس کا انجام قتل و غارت گری پر ہو گا، حجاج کرام کو لوٹا جائے گا اور جمرۂ عقبہ کے پاس خوب خونریزی ہو گی، اسی دوران پوری دنیا سے سات بڑے بڑے علماء بغیر کسی سابقہ تیاری کے مکہ مکرمہ آ پہنچیں گے اور امام مہدی کو تلاش کریں گے، تا کہ ان کے ہاتھ پر بیعت کریں اورفتنوں کاخاتمہ ہو ، جب یہ علماء امام مہد ی کو تلاشنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور علامات و اوصاف سے یہ کچھ زیادہ مشکل نہ ہو گا، تو ان سے اپنی بیعت کی درخواست کریں گے ، امام مہدی پہلے تو تردد کا اظہار کریں گے اور اس ذمہ داری سے بچنے کی کوشش کریں گے لیکن جب ان علماء کااصرار بڑھ جائے گا تو امام مہدی حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان ان سے بیعت لیں گے، پھر اسی دن عشاء کی نماز کے بعد عمومی بیعت ہو گی اور امام مہدی خطبہ ارشاد فرمائیں گے۔
۹:۔ حضرت امام مہدی کے ظہور کے بعد کفار و مشرکین اور یہودونصاریٰ سے ان کی خونریز جنگیں ہوں گی،حتی کہ جنگ ِخلیج (جنگ ِ قسطنطنیہ) سے فارغ ہونے کے بعد دجال کا خروج ہو جائے گا ، جسے قتل کرنے کیلئے حضرت عیسی ؑ آسمان سے نازل ہوں گے، نزول عیسی ؑ کے بعد حضرت امام مہدی علیہ الرضوان کا کام چونکہ پورا ہو چکا ہو گا، اس لیے وہ حکومت و سلطنت اور دیگر تمام امور حضرت عیسی ؑ کے سپرد کرکے ان کے تابع ہو جائیں گے۔
10:۔آپ کی خلافت کی میعاد سات یاآٹھ یا نوسال ہو گی، بیعت خلافت کے وقت ان کی عمر چالیس سال ہو گی، ان کی خلافت کے سات سال دشمن سے جنگوں اور ملکی انتظامات میں گذریں گے، آٹھواں سال دجال کے ساتھ جنگ و جدال میں اور نواں سال حضرت عیسی ؑ کی معیت میں گذرے گا، اس حساب سے آپ کی عمر انچاس سال ہو گی، بعدازاں امام مہدی کی وفات ہو جائے گی، حضرت عیسی ؑ نماز جنازہ پڑھائیں گے اور ان کی تدفین عمل میں آئے گی، ان کی وفات طبعی ہو گی اور انہیں بیت المقدس میں سپرد خاک کیا جائے گا۔
یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ کچھ لوگوں نے یہ رائے قائم کر لی کہ امام مہدی نام کی کسی شخصیت نے نہیں آنا،احادیث و آثار میں جو ان کا تذکرہ ملتا ہے تو وہ روایات حد درجہ ضعیف اور ناقابل اعتبار ہیں، ان پر کسی عقیدے اور نظریے کی بنیاد رکھ کر کسی شخصیت کے انتظار میں بیٹھ رہنا عقلمندی نہیں ہے، اس دوسری قسم کے لوگوں نے یہ رائے پہلی قسم کے لوگوں کو دیکھ کر قائم کی، جب انہوں نے دیکھا کہ کچھ لوگ خود عمل کرنے سے کتراتے ہیں اور مخصوص رسومات پوری کر کے اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآہو جاتے ہیں اور امام مہدی ہی کا انتظار کرتے رہتے ہیں تو انہوں نے سوچا کہ ہر خرابی کی جڑ یہ انتظارہی ہے، اب ان میں سے کچھ لوگوں نے تو یہ رائے قائم کر لی کہ امام مہدی ایک تصوراتی شخصیت ہیں، حقائق کی دنیا سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے، گویا انہوں نے انتظار کا حل یہ نکالا کہ امام مہدی کے وجود اور ظہور ہی کا انکار کر دیا۔
''موسوعۃ الامام المھدی '' دراصل پچاس (50) جلدوں میں اسی سلسلے کا ایک عظیم منصوبہ ہے جسے کے بانی نوجوان محقق مفتی محمد ہاشم صاحب ہیں۔مفتی صاحب 1983 ء میں نواب شاہ میں پیدا ہوئے ۔حیدرآباد کی معروف درسگاہ رکن الاسلام سے دینی تعلیم حاصل کی ،بعد ازاں کراچی کی عظیم درسگاہ جامعہ نعیمیہ میں مفتی محمد اطہر نعیمی ،علامہ غلام رسول سعیدی ، علامہ جمیل احمد نعیمی ، مفتی منیب الرحمن ،مفتی ابوبکر شازلی، اور مفتی احمد علی سعیدی سے بھی اکستاب فیض کیا۔دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید عصری علوم میں ایم اے عربی اور اسلامیات کی اسناد بھی حاصل کیں۔ کچھ عرصہ درس وتدریس سے بھی وابستہ رہے ۔ قومی اخبارات میں مضامین لکھے۔ کئی کتابوں کے مصنف اور متعدد مشہور و معروف کتب کا ترجمہ و تحقیق و تضریج کا فریضہ بھی سرانجام دے چکے ہیں ۔اس وقت اپنا تحقیقی ادارہ جو ''دی اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن ''کے نام سے قائم ہے کے ڈائریکٹر ہیں اور امام مہدی علیہ السلام سے متعلق شعور و آگہی کی پچاس جلدوں میں عظیم شاہکار '' موسوعۃ الامام المھدی '' کی تکمیل میں مصروف ہیں ۔
گزشتہ روز کراچی تشریف لائے تو غریب خانے پر قدم رنجہ فرمایا اور اپنی نئی تحقیقی تالیف "مناقب و فضائل اھل بیت اطہار" ہمیں تحفتاً پیش کی جس کی تفصیل آپ کی نذر ہیں۔
"مناقب وفضائل اھل بیت اطہار "
مندرجہ ذیل کی خصوصیات سے مزین ہے۔
اس کتاب میں محبان اہل بیت کےلیے فضائل ومناقب اہل بیت اطہار پر ایک جامع ومستند تحقیقی دستاویز ہونے کے ساتھ نصابی کتاب، آئمہ مساجد وخطباء کے لیے بہترین علمی خزانہ ہے ۔اس کتاب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل بیت اطہار کی کی محبت واجب ہے۔کتاب میں ناصرف سیرتِ رسول کریم ﷺ اور سیرت سے متعلق اعتراضات کے جوابات دئیے گئے ہیں بلکہ تذکرہ والدین مصطفیٰ کریم ﷺاور ایمان ابوین کریمین پر اکابرین اھل سنت کے مختلف مؤقفات کا بھی تفصیلی ذکر گیا ہے۔اورتذکرہ سیدنا ابوطالب بن عبد المطلب اور فہرست کتب بعنوان سیدنا ابوطالب اورفضائل امیر المومنین علی پر مشتمل کتب اہل سنت سے (40) احادیث کریمہ مع تخریج پیش کی گئیں ہیں۔ساتھ ہی فضائل سیدہ کائنات پر مشتمل کتب اہل سنت سے (40) احادیث کریمہ مع تخریج کے ساتھ فضائل امامین شہیدین حسنین کریمین پر مشتمل کتب اہل سنت سے (40) احادیث کریمہ مع تخریج،تذکرہ فاطمہ ثانی سیدہ زینب کبریٰ اور خطبہ دربار یزید پلید وافعال بد کا تدارک ،تذکرہ امام حسن مجتبیٰ تا آل حسن مجتبیٰ سیدنا عبدالله شاہ الاشتر غازی،تذکرہ سید الشہداء امام حسین تا آل حسین سیدنا امام مہدی ،عصر حاضر کی پھلتی پھولتی ہوئی ناصبیت وخارجیت کے اسباب اور تدارک،موجودہ حالات میں ناصبی وخارجی اذہان کے پھیلائے گئے اعتراضات کے جوابات،ہندوسندھ میں مشائخ سادات کرام کی آمد کے تذکرے،محبت اہل بیت ،شیعت ،رافضیت اور شعراء اکابرین اہل سنت کا اظہار عقیدت،مسئلہ کفر یذید اور اکابرین اہل سنت کے دلائل کا تحقیقی جائزہ،عقائد اہل سنت کا متفقہ اعلامیہ (ناصبی،رافضی،خارجی لوگوں کے شکوک وشبہات کا ازالہ) کا تفصیلی ذکر موجود ہے۔
یہ کتاب کراچی میں :ادارہ تحقیقات اردو بازار کراچی" سے خلیل ملک 03122846175/03032353839سے حاصل کی جاسکتی ہے۔



M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 319 Articles with 359351 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More