ایک دفعہ کا ذکر، کیا دن، مہنگائی اور ڈانس کرنیوالی قوم
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
ایک دفعہ کاذکر ہے..عزیز خان کاکا ہمارے گاؤں میں واقع محلے کا بڑا دکاندار تھا اس وقت ہم گاؤں میں رہائش پذیر تھے.اس کی آٹے کی بڑی دکان تھی اس وقت کھلا آٹا زیادہ ملتا تھا اور بہت کم لوگ آٹا بوری کے حساب سے لیا کرتے تھے. میرے داجی گل ٹرانسپورٹر تھے اور زیادہ تر باہر شہر میں ہوتے اس لئے پانچویں کلاس کے بعد یہ میری ڈیوٹی انہوں نے لگا دی تھی کہ نزدیکی دکاندار سے آٹا، گھی لایا کروں، چینی کا استعمال ان دنوں میں بہت کم ہوا کرتا تھا زیادہ تر گڑ ہی چائے میں استعمال ہوتی.گھر کے سامنے مارکیٹ سے میں چودہ روپے فی کلو گھی لیا کرتا تھا اللہ بخشے جس دکاندار سے میں گھی لیا کرتا تھا اس کی ایک آنکھ خراب تھی، بزرگ شخص تھا وہ سودا لیتے وقت کبھی کبھار ہمیں چونگا دیا کرتا تھا اور چونگے میں اس وقت ککوڑی ہوتی. یہ ککوڑی اس وقت دو بسکٹ ہوتے تھے جسے آج کل کے دور میں, میری بسکٹ "کہتے، وہ ککوڑی ہوتی، ساتھ میں وہ سامنے آٹے والے عزیز خان کاکا کو تنگ کرنے کیلئے مجھے کہتا کہ اسے کہنا کہ "دا دو خزو خاوندہ سنگہ ئے" یعنی دو بیویوں کے شوہر کیسے ہو، میں بھی بڑے تیزی سے جا کر اسے کہتا کہ دو بیویوں والے شوہر کیسے ہو، وہ جواب میں مجھے دیکھ کر کہتا کہ یہ ضرور تمھیں اس "ملک چقوڑ"نے بتائی ہے.جواب میں عزیز خان کاکا کہتا کہ اسے کہہ دو کہ "ایک آنکھ والے سے بہتر ہے" اور میں جا کرجنرل سٹور والے کو یہ کہہ دیتا. بس یہی ہماری مستی تھی.مجھے یاد ہے کہ اس وقت جنرل ضیاء الحق کا دور تھا اور آٹا بیس سیر سترہ سے بیس روپے میں ملتا ان دنوں میں جو روٹی آج کل بیس روپے میں ملتی تھی اس سے دگنی روٹی ایک روپے کے دو ملتی تھی.گاؤں میں بازار سے روٹیاں لاکر کھانا سب سے برا سمجھا جاتا اسی وجہ سے ہر دس دن بعد میں ہی بیس سیر آٹا سترہ سے بیس روپے میں لاتا، گھی چودہ روپے کلو ہوا کرتی تھی.ڈیڑھ سو روپے میں بہترین گڑ پانچ کلو ملا کرتا تھا کبھی کبھار ایک سو بیس روپے پر ملتا، لیکن جب یہ گڑ خراب ہوتا تو اس وقت عنایت نامی دکاندار کو ہم واپس کرتے تو وہ بخوشی واپس کرتا.کچھ عجیب سے دن تھے..
مجھے یاد نہیں کہ اس وقت مہنگائی تھی یا نہیں لیکن سکول جانے کیلئے مجھے اس وقت دو روپے ملتے تھے، ایک روپے کرایہ میں آنے جانے کیلئے اور ایک روپے کھانے کیلئے ملتا تھا، سولہ روپے سیر گوشت ملتا، داجی گل بیس روپے دیکر سبزیاں لینے بھیجتے تھے اتنی سبزی ملتی کہ لانا دشوار ہوتا، ان دنوں شاپنگ بیگ میں سبزیاں لانا ایک خواب تھا، ہم کپڑے جسے ہم پینڈو لوگ "سپوٹے"کہتے اس میں ڈال کر سبزیاں لے جاتے، مرچیں، دھنیا مفت میں سبزی والا ڈالتا کہ بیس روپے کی سبزی لیکر جارہا ہے.اسے آپ ایک دفعہ کاذکر ہے کی کہانی ہی سمجھ لیں..
پھر اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ ہم گاؤں سے شہر آگئے.اور حالات کے پیش نظر پشاور کے ایک بڑے اخبار میں ہم نے نوکری کا آغاز کیا، ان دنوں یہاں پر سرخ پوشوں کی حکومت تھی کرک سے تعلق رکھنے والے ایک شخصیت وزیر خوراک تھے.اللہ معاف کرے یہ وہ دور تھا کہ ہم نے آٹے کے حصول کیلئے بڑی تگ و دو کی، ان دنوں والد بیمار ہوا کرتے تھے اس لئے گھر کی بڑے کی حیثیت سے آٹا لانے کی ذمہ داری میری تھی، اس وقت رات کے شفٹ میں ہماری ڈیوٹی ہوا کرتی اس لئے گلبہار میں واقع اس اخبار کے دفتر کے باہر ایک ملز سے ہم رات میں ہی آٹا لیکر جاتے تھے ہم چار پانچ دوست تھے، ان دنوں پشاور کیا پورے صوبے میں آٹے کا بحران تھا اور لوگ چوکر کھاتے تھے، پنجاب والے کہتے کہ ہم تو آٹا بھیجتے ہیں آپ کی صوبائی حکومت افغانستان بھیج رہی ہیں، ان دنوں میں لوگوں کو آٹے کے پیچھے خوار ہوتے ہوئے ہم نے دیکھا، ڈھائی سو روپے بیس کلو کا تھیلہ ہوتا جو مشکل سے تین سو روپے میں ملتا. اللہ معاف کرے.اس دور میں عوام صوبائی اور وفاقی حکومت کو وہ گالیاں دیتی کہ الامان الحفیظ..کم و بیش گاؤں ے شہر آنے ک بعد آٹا ڈھائی سو روپے بیس کلو کا ملنا لگا تھا.
پھر اپنے جنرل مشرف کا دور آیا، وہ بھی کیا دور تھا. ان دنوں ایک مقامی اخبار کیساتھ وابستگی تھی کم و بیش ساڑھے چھ ہزار روپے تنخوہ ملتی تھی، آٹے اور گھی لانے کی ذمہ داری میری ہی تھی، والد صاحب بیمار تھے ایک دن گلی میں بیٹھے تھے میں بیس کلو کا تھیلہ اور پانچ کلو گھی کا ڈبہ لیکر آیا تو مجھے ایک ہزار روپے میں دو سو روپے بچ گئے، اس پر داجی گل)والد(نے جب پوچھا تو بتایا کہ اتنے میں لایا ہوں تو بڑے ہی افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ مہنگائی کیسی جارہی ہے اللہ سفید پوش لوگوں پر رحم کرے.پھر ان سے باتیں ہوتی رہی تو وہ مجھے یاد دلاتے رہے کہ تمھیں یاد ہے کہ بیس کلو کا آٹا تم بیس روپے میں لایا کرتے تھے.وہ اس وقت کو یاد کرتے اور کہتے کہ کیا زمانہ تھا..
پھر ہمارے ہاں جمہوریت آئی اور بیس کلو تھیلے آٹا آٹھ سو روپے تک پہنچ گیا، ہم نے بھی بڑی چیخیں ماری لیکن اس پاپی پیٹ کی خاطر مجبورا آٹے کا تھیلا آٹھ سو روپے میں لیتے رہے، کچھ عرصہ یہی سلسلہ جاری رہا اور پھر تبدیلی والی سرکار آئی، آٹے کا تھیلہ سولہ روپے میں پہنچا دیا گیا یعنی دگنی قیمت پر چلا گیا اور ہم چیخوں پر چیخیں مارتے رہے لیکن مجبورا آٹا لیتے رہے حکمران کبھی کہتے کہ گندم مہنگی ہوگئی ہے، کبھی کیا اور کیا بہانے لیکن سلسلہ چلتا رہا. اور آج سال 2022 میں آٹے کا بیس کلو تھیلہ بائیس سو روپے تک پہنچ گیا ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے.سفید پوش افراد جن کے گھروں میں پانچ سے دس افراد ہوتے ہیں ان کے گھروں میں گوشت کب آتا ہے، کبھی کسی نے جاننے کی کوشش کی، کبھی کسی نے جاننے کی کوشش کی کہ فروٹ آخری مرتبہ عام سفید پوش لوگوں نے کب کھایا ہے آج ستائیس روپے میں پانچ کلو گھی کا ڈبہ مل رہا ہے، مزے کی بات یہی ہے کہ حکمران سرکاری ملازمین سمیت عام لوگوں کو تنخواہیں آج سے بیس سال پہلے والے دے رہی ہیں اور ٹیکس اور دیگر چیزیں سال 2022 کے حساب سے لے رہی ہیں.
بجلی، گیس کی قیمتیں کہاں سے کہاں تک پہنچ رہی ہیں ٹی وی کے سکرین پر آنے والا ہر افلاطون خواہ وہ کسی بھی پارٹی کا ہو، مذہبی پارٹی کا ہو، یا سیاسی جماعت کا، قومی پارٹی ہو یا صوبائی پارٹی، تانگہ پارٹی ہو یا اسٹبلشمنٹ کے من پسند تبدیلی والی سرکار، ہر ایک نے اس ملک کے عوام کو لوٹنے کی ہر حد تک کوشش کی کوئی کہتا ہے کہ چائے کا ایک کپ پی لیا کرو، یعنی خود سرکار کے گود میں بیٹھ کر کروڑوں کی گاڑی میں بیٹھ کر "بھاشن " بہت اچھے طریقے سے دے رہا ہے. غلطی ان کی بھی نہیں، ہم جیسے "خشاکیانو" کی بھی ہے جو ڈھول کی تھاپ پر وہ ڈانس کرتے ہیں کہ الامان الحفیظ.. بقول مرحوم مولانا بجلی گھر کے، اتنا ناچتے ہیں جیسی ان کی ماں کی شادی ہو.ہر حکمران خواہ وہ سویلین ہو یا فوجی، ان کی آمد اور جانے پر اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کے جوانوں اور اب تبدیلی والی سرکار کے دور میں مائیوں یعنی آنٹیوں نے ڈانس کے وہ ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں کہ لگتا ہی نہیں کہ مہنگائی ہے.انہیں مستی میں دیکھ کرذہن میں خیال آتا ہے کہ شائد ان کے پاس پیٹ نہیں یا پھر انکے گھروں پر نوٹ برستے ہیں یا ان کے گھروں میں درختوں پر اگتے ہونگے.تبھی یہ مہنگائی کے باوجود اتنا بہترین ڈانس کرتے ہیں.
ان سب باتوں کے باوجود جس کو دیکھ لو، سیاستدان، مولوی، فوجی جرنیل، میڈیا، جج سمیت ہر کوئی اپنا دھن اور راگ الاپ رہا ہے، سیاستدان، مذہبی رہنما، فوجی جرنیل، جج کی بات سمجھ میں آتی ہے کہ انہیں " تیار ہی "سب کچھ ملتا ہے انہیں اس کا درد نہیں لیکن یہ "میڈیا"جسے یار لوگ دلال میڈیا بھی کہتے ہیں ان سے وابستہ صحافی تو عام لوگ ہیں انہوں نے بھی اس معاملے پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں صبح آٹھ بجے سے لیکر دس بجے تک طلاق یافتہ آنٹیاں لوگوں کو کھانے پکانے سے لیکر شوہر کو کنٹرول کرنے کے طریقے سمجھاتی ہیں، بارہ سے چار بجے تک کرنٹ افیئر کے نام پر "مزاحیہ پروگرام "چلتے ہیں اور چھ سے دس بجے تک ہر چیز سیاست کی نذر ہوجاتی ہیں کبھی کسی میڈیا ہاؤس کے کسی اینکر نے مہنگائی کے حوالے سے بات نہیں کی، اور اگر کی بھی تو سرسری، خدا جانے.. اس ملک کے غریب اور سفید پوش عوام کا بنے گا کیا..کیونکہ پہلے تو صرف جینا محال تھا اب تو مرنا بھی محال ہوتا نظر آرہا ہے.لیکن اس بات کا یقین ہے کہ مہنگائی کے اس دور کو یاد کرکے ہماری آنیوالی نسل کہیں گی کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہمارے والد بائیس سو روپے میں بیس کلو آٹا لایا کرتے تھے اور وہ بھی کیا دن تھے..جس طرح ہم آج سے چار دہائیاں پرانا دور یاد کرکے کہتے ہیں کہ وہ بھی کیا دن تھے..
|