قیامت کا سوال اور قیامت کا جواب !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورٙةُالمعارج ، اٰیت 25 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اٙفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
برائے مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
سئل
سائل بعذاب
واقع 1للکٰفرین
لیس لہ دافع 2 من
اللہ ذی المعارج 3 تعرج
الملٰئکة و الروح الیہ فی یوم
کان مقدارہ خمسین الف سنة 4
فاصبر صبرا جمیلا 5 انھم یرونہ بعیدا
6 و نرٰہ قریبا 7 یوم تکون السماء کالمھل 8
و تکون الجبال کالعھن 9 ولا یسئل حمیم حمیما
10 یبصرونھم یود المجرم لو یفتدی من عذاب یومئذ
ببنیہ 11 وصاحبتہ و اخیہ 12 وفصیلتہ التی تئویہ 13 و من
فی الرض جمیعا ثم ینجیہ 14 کلّا انھا لظٰی 15 نزاعة للشوٰی 16
تدعوا من ادبر و تولٰی 17 وجمع فاوعٰی 18 ان الانسان خلق ھلوعا 19
اذا مسہ الشر جزوعا 20 و اذا مسہ الخیر منوعا 21 الا المصلین 22 الذین ھم
عن صلاتھم دائمون 23 والذین فی اموالھم حق معلوم 24 للسائل ولمحروم 25
اے ہمارے رسول ! سائل کا قدیم سوال جو جدید مُنکرینِ حق اُٹھا رہے ہیں وہ اُن کو ملنے والی اُس یقینی سزا کے بارے میں ہے جس یقینی سزا کو اُس اللہ صاحبِ تدریج کے سوا کوئی بھی نہیں ٹال سکتا جس صاحبِ تدریج اللہ نے اُس فیصلہ کُن سزا کا دفترِ عمل عالٙم کے اُس اعلٰی مقام پر بنایا ہواہے جس تک اُس کا حُکم لے جانے والے اہل کار اُس کا حُکم پچاس ہزار برس کی مُدت میں لے کر جاتے ہیں اِس لئے اُس سزا کے تدریجی ظہور کے بارے میں انسان کے لئے آپ کا پیغامِ جمیل صرف صبرِ جمیل ہے ، ہر چند کہ مُنکرینِ حق ہماری سزا کے اُس تباہ کُن تدریجی عمل کو بہت دُور دیکھ رہے ہیں لیکن ہمارے نزدیک اُس ہلاکت خیز سزا کا وقت بہت زیادہ دُور نہیں ہے ، جب وہ تباہ کُن وقت آجائے گا تو مُنکرینِ حق کے فلک کو چُھونے والے سر فرش سے جا لگیں گے ، زمین پر اُن کی قُوت کے سارے قبضے ڈھیلے پڑ جائیں گے اور اُن کو اپنے پہاڑ چڑھے مُتکبرانہ عزائم فضا میں بکھرے ہوئے غُبار کی طرح نظر آئیں گے اور ہر جان پر جاں خواہی کا یہ عالٙم ہو گا کہ کوئی عزیز کسی عزیز سے یہ نہیں پُوچھ سکے گا کہ اِس وقت کس پر کیا بیت رہی ہے بلکہ اُن سب کا یہ حال ہو گا کہ وہ سب کے سب ہی چاہیں گے کہ وہ اپنے اپنے دوست ، اپنے اپنے بھائی اور اپنے اپنے بیٹے کو فدیہِ جان بنا کر اپنی اپنی جان بچالیں یہاں تک کہ اگر اُن کا بٙس چلے تو وہ رُوئے زمین کے سارے خزانے دے کر اپنی اپنی جان کا سودا کرلیں لیکن خُدا کا کوئی بھی مُجرم سزا کی اُس آگ کے شعلوں سے جان نہیں بچا سکے گا جس آگے شعلے اُس کے جسم سے ٹکراتے ہی اُس کے چہرے اور سر کی کھال کھینچ لیں گے ، اِس محشر کی وہ گھڑی جس کو یہ جوش سے بلا رہے ہو وہ اِن میں سے ہر اُس شخص کے ہوش اڑانے کے لئے آرہی ہے جو حق دار کا حق دبا کر بیٹھا ہوا ہے اور وہ اپنے اُس مالِ حرام کو سر بمہر تجوریوں میں گن گن کر جمع کرتا اور جمع کرتا چلا جاتا ہے ، اُس کا یہ حال صرف اِس لئے ہوا ہے کہ وہ بہت ہی تنگ دل ، بہت ہی بُھوکا اور بہت ہی بے صبرا ہو کر انسانی سطح سے اتنا گر گیا ہے کہ اِس کو زیادہ دے دیا جائے تو وہ جامے سے باہر ہو جاتا ہے اور کم دیا جائے تو واویلا مچاتا ہے کیونکہ اِس نے اللہ کے قانون کو فراموش کردیا ہے لیکن یاد رکھو کہ مکافاتِ عمل کی اُس تباہی سے تو وہی انسان بچے گا جو اللہ کے دائمی قانون کی دائمی پابندی کرے گا ، جو سائل و محروم کا حق سائل و محروم کو اٙدا کرے گا اور جو اِس دُنیا کے اُس قانون کی پاسداری و پاسبانی کرے گا جو اِس دُنیا میں اللہ نے اُس کے لئے نازل کیا ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کا آغاز ماضی معروف کے صیغہ { سئل } سے ہوا ہے جو اِس بات کی دلیل ہے کہ یہ وہی قدیم سوال ہے جو ہر جدید دور کا انسان کرتا آرہا ہے کہ اللہ کے نبی اور رسول اُس کو جس قیامت اور جس سزائے قیامت سے ڈراتے آ رہے ہیں وہ قیامت کب آئے گی اور کب اُن کی اُس تعلیم سے ہماری جان چُھوٹ جائے گی جو تعلیم ہمیں موت کے بعد کی اُس زندگی خبر دیتی ہے جس زندگی میں ہمیں اپنے حسابِ حیات و احتسابِ حیات سے گزر کر اُن کی بات ماننے کی صورت میں جزا پانے کے لئے خُدا کی بنائی ہوئی جنت میں جانا ہوگا اور اُن کی بات نہ ماننے کی صورت میں سزا سہنےکے لئے خُدا کی بنائی ہوئی ایک جہنم میں جانا ہو گا ، اگر ہمارے ساتھ موت کے بعد یہی سب کُچھ ہونا ہے جو ہمیں بتایا جا رہا ہے تو پھر اُس قیامت کا اِس دُنیا میں ہمیں کوئی ایسا چمتکار کیوں نہیں دکھا دیاجاتا کہ جس کو دیکھ کر ہمیں اُس یومِ حساب کے آنے کا پُورا پُورا یقین ہو جائے لیکن قیامت کے بارے میں کیئے گئے اِس سوال کا خالقِ عالٙم نے ہمیشہ یہی ایک مُختصر جواب دیا ہے کہ انسان کے مکافاتِ عمل کے جس دن نے انسان پر آنا ہے اُس دن نے انسان پر بہر حال آنا ہی آنا ہے اور اُس دن کے آنے کی یہی ایک دلیل کافی ہونی چاہیئے کہ ہر انسان جانتا ہے کہ اِس عالٙم میں ہونے والے ہر عمل کا ایک رٙدِ عمل ہے اور اِس قانونِ عمل و رٙدِ عمل کا تقاضا ہے کہ انسان زمین میں جو عمل کر رہا ہے اُس کا بھی ایک رٙدِ عمل ہو جو اُس کے سامنے آئے جس میں اُس کے عملِ خیر کی اُس کو وہ قُدرتی جزا ملے جو س کا حق ہے اور اُس کے عملِ شر کی بھی اُس کو وہ قُدرتی سزا ملے جس کا وہ مُستحق ہے اور چونکہ اِس دُنیا میں انسان کے سامنے عالٙم میں وہ عملِ خیر بھی جاری ہے جس کی ایک قُدرتی جزا ہے اور عالٙم میں وہ عملِ شر بھی جاری ہے جس کی ایک قُدرتی سزا ہے اِس لئے جو بھی انسان کوئی عملِ خیر یا عملِ شر اٙنجام دے رہا ہے تو جس طرح اُس کے ہزاروں عملی نتائج ہر روز اُس کے سامنے آتے رہتے ہیں اسی طرح انسانی عمل کے رٙدِ عمل کا وہ دن بھی انسان کے سامنے آجائے گا جس دن کے آنے کا وہ ہر زمانے میں مطالبے پر مطالبہ کرتا چلا آرہا ہے لیکن انسانی عمل کے اِس رٙدِ عمل کا وہ دن انسان کی مرضی سے کبھی نہیں آئے گا بلکہ جب بھی آئے گا تو اُس خالقِ جہان کے حُکم سے آئے گا اور اُس وقت آئے گا جب اُس کا آنا اور لایا جانا خود اُس خالقِ جہان کو منظور ہو گا ، اِس سُورت کا موضوعِ سُخن قیامت کا یہی سوال اور قیامت کا یہی جواب ہے اور قُرآن نے اِس سوال و جواب کو مزید سُلجھانے اور مزید سمجھانے کے لئے اِس سُورت کے اِس مضوع کے ضمن میں جو دو مضمون بیان کئے ہیں وہ اِس وقت تو ہمارے لئے اسی قدر قابلِ فہم ہیں جس قدر ہمارا موجُودہ فہم ہے لیکن آنے والے زمانوں میں انسان کا جس قدر فہم بڑھتا جائے گا اسی قدر اِن مضامین کی تفہیم بھی یقینا پہلے سے زیادہ بڑھتی جائے گی ، بہرحال قُرآن نے اِس سُورت میں اُس قیامت کے بارے میں جو دو مضمون بیان کیئے ہیں اُن میں سے پہلا مضمون عالٙم کا وہ قانونِ تدریج ہے جس قانونِ تدریج کے مطابق اِس عالٙم میں جو اٙشیائے عالٙم ظاہر ہوتی ہیں وہ بتدریج ظاہر ہوتی ہیں ، پھر وہ بتدریج ظاہر ہونے کے بعد بتدریج پروان چڑھتی ہیں ، پھر بتدریج بڑھتے بڑھتے اپنی طبعی عُمر پُوری کرتی ہیں اور پھر بتدریج ڈھلتے ڈھلتے موت سے ہمکنار ہو جاتی ہیں جس کی ایک مثال بیج کا وہ سادہ سا تدریجی عمل ہے جس کے مطابق وہ زمین میں وہ بیج ایک تدریجی عمل سے گزر کر زمین پر ظاہر ہوتا اور پروان چڑھتا ہے اور اپنی طبعی عُمر پُوری کر کے اسی زمین میں فنا ہوجاتا ہے لیکن فنا کے بعد وہ دوبارہ اُسی زمین سے نکل کر اسی زمین پر سب کے سامنے آجاتا ہے ، اللہ تعالٰی نے اپنے اِس عالٙم کو بھی اپنے اُس قانونِ تدریج کے اُسی اصول پر مطابق قائم کیا ہوا ہے جس کے مطابق اِس عالٙم نے اسی تدریج کے مطابق اپنی جُملہ اشیاء کے ساتھ آگے بڑھنا ہے اور اسی تدریجی عمل کے عین مطابق اپنی جُملہ اشیاء سمیت فنا ہو کر دوبارہ ایک نئی شکل میں مُتشکل ہو کر سامنے آجانا ہے اور عالٙم کے اسی تدریجی عمل کے ظہور کا نام وہ قیامت ہے جس نے اپنی اسی تدریج کے مطابق اپنے وقت پر آنا ہے ، قُرآنِ کریم نے اِس سُورت میں اِس سُورت کا جو دُوسرا تمثیلی مضمون بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ اِس عالٙم کے جس دفترِ عالٙم میں اِس عالٙم کے فنا ہونے کا فیصلہ ہونا ہے وہ بھی اِس عالٙم کے ایک مقامِ تدریج پر قائم کیا گیا ہے اور وہ دفترِ عمل اِس عالٙم کے جس مقام پر قائم کیا گیا ہے اِس عالٙم سے اُس عالٙم کی مسافت اتنی ہے کہ اُس دفترِ عمل کے چلانے پر جو اہلِ کار مُتعین ہیں وہ اہل کار اُس دفتر کے جو اٙحکام لے کر آتے اور جاتے ہیں وہ بھی اسی قانونِ تدریج کے مطابق وہاں سے اٙحکام لاتے اور لے جاتے ہیں اور عالٙم کے اِس حصے سے عالٙم کے اُس حصے تک جانے کی جو قُرآنی مُدت ہے وہ پُورے پچاس ہزار سال کے برابر ہے اور سُورٙةُالحج کی اٰیت 47 میں اِن پچاس ہزار برسوں کے ایک دن کی جو طوالت بیان کی گئی ہے وہ اللہ کے اٙعدادی نظام میں ایک ہزار سال کے برابر ہے جس طوالت کے مطابق خُدا کی اُس تیز رفتار مخلوق کے اہلِ کاروں کے قیامِ قیامت کے اُس دفترِ عمل تک جانے کی جو مُسافت ہے وہ شاید 18250000 سال کے برابر ہے لیکن کوئی بھی نہیں جانتا اور کوئی بھی نہیں جان سکتا کہ یہ قُرآنی مُدت کس زمانے سے شروع ہوئی ہے اور کس زمانے کے لئے شروع ہوئی ہے اِس لئے یہ بھی کوئی نہیں جانتا کہ آنے والی اُس قیامت نے کب آنا ہے ، ہوسکتا ہے کہ یہ اُسی آخری قیامت کی ایک مُدت ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ محض ایک تمثیل ہو جس تمثیل سے محض یہ بتانا مقصود ہو کہ جس قیامت کی انسان دُھائی دیتا آرہا ہے وہ اُس کے اندازے سے بہت دُور ہے لیکن یہ عجیب اتفاق ہے کہ اِس قیامت کے آنے کی کچھ کافروں کو ہی جلدی نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کو اُن سے کہیں زیادہ جلدی ہے اور اِس جلدی میں وہ ایک عرصے سے قیامت کی یہ تاریخ بھی دیتے چلے آ رہے ہیں کہ جب ہمارا فلاں نبی اور ہمارا فلاں امام دُنیا میں آکر زمین سے خنزیر اور خنزیر کھانے والے انسانوں کو موت کے گھاٹ اُتار دے گا اور دُنیا میں ہر طرف اسلام کا بول بالا ہو جائے تو اِس دُنیا پر وہ مُجوزہ قیامت قائم ہو جائے گی جس کا انسان کو انتظار ہے ، یعنی دُنیا پر جب وہ خوفناک قیامت قائم ہوگی تو وہ بھی مسلمانوں پر ہی قائم ہوگی کیونکہ دُنیا کے سارے کافر و خنزیر خور اُس سے پہلے ہی پتلی گلی سے نکل چکے ہوں گے لیکن قُرآن کہتا ہے کہ اُس بڑی اور آخری قیامت کے آنے کا اللہ تعالٰی کے سوا کسی کو بھی کوئی علم نہیں ہے لہٰذا جس شخص کا اللہ پر ایمان ہے اُس کا اُس قیامت پر بھی کامل ایمانی و اعتقادی یقین ہونا چاہیئے اور اُس کو قیامت کے اُن شدائد سے بچنے کے لئے زمین پر عملِ خیر اٙنجام دینا چاہیئے اور اپنے اٙنجامِ خیر کی اُمید رکھنی چاہیئے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 462071 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More