محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ

اسلامی یعنی قمری سال بھی شمسی کیلنڈر کی طرح بارہ مہینوں پرمشتمل ہے۔
چار مہینے حرمت والے ہیں جس میں ایک ماہ محرم الحرام بھی ہے۔
دس محرم یوم عاشورہ تاریخی اہمیت کاحامل دن ہے۔
دس محرم (یوم عاشورہ )کے روزے کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے۔
دوسرے مذاہب کے ساتھ مذہبی اشتراک وتشابہ کی ممانعت آئی ہے۔

از محمداکرام صافی
1-محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ :
اسلامی یعنی قمری سال بھی شمسی کیلنڈر کی طرح بارہ مہینوں پرمشتمل ہے
جس میں چار مہینے حرمت والے ہیں
چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوۡرِ عِنۡدَ اللّٰهِ اثۡنَا عَشَرَ شَهۡرًا فِىۡ كِتٰبِ اللّٰهِ يَوۡمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ مِنۡهَاۤ اَرۡبَعَةٌ حُرُمٌ‌ ؕ
(التوبةآیت:36)
ترجمۂ: حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ مہینے ہے۔
جو اللہ کی کتاب
(یعنی لوح محفوظ) کے مطابق اس دن سے نافذ چلی آتی ہے جس دن اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا۔
ان (بارہ مہینوں) میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں۔
بخاری شریف میں حضرت ابوبکرہ سے جو روایت مروی ہے اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حرمت والے چارمہینوں کی تعیین ان الفاظ سے فرمائی ہیں آپ کا ارشاد ہیں :
السَّنَةُ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا مِنْهَا
أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ :
ثَلاَثَةٌ مُتَوَالِيَاتٌ :
ذُو القَعْدَةِ ، وَذُو الحِجَّةِ ، وَالمُحَرَّمُ ، وَرَجَبُ الخ
ترجمہ:
سال پورے بارہ مہینہ کا ہوتا ہے ، ان میں سے 4 مہینے خاص طور سے قابل احترام ہیں ۔
تین مہینے تو مسلسل ذی قعدہ ، ذی الحجہ ، محرم اور چوتھامہینہ وہ رجب ہے۔
اس سے معلوم ہواکہ باقی تین مہینوں کی طرح محرم الحرام بھی روز اول سے محترم اور حرمت والا مہینہ ہے یہاں تک کہ دور جاہلیت میں بھی اس کی حرمت کاخاص خیال رکھاجاتاتھا اور اس کے احترام میں جنگ و لڑائی سے اجتناب کیاجاتاتھا اگرچہ بعد میں مشرکین نسئی کی ایک بری رسم میں مبتلا ہوکر حرمت والے مہینوں کے اندرہیر پھیر اور حیلوں بہانوں سے محرم کو صفر اور صفر کو محرم قرار دیکر لڑائی کاجواز نکالتے تھے جس کی اللہ تعالیٰ نے قرآن میں شدید مذمت فرمائی
اور حلال کو حرام اور حرام کو حلال قرار دینے کے اس مذموم عمل کو زیادت فی الکفر قرار دیا

2-ماہ محرم کی فضیلت :
1-اَلشَّهۡرُ الۡحَـرَامُ بِالشَّهۡرِ الۡحَـرَامِ وَالۡحُرُمٰتُ قِصَاصٌ‌ؕ فَمَنِ اعۡتَدٰى عَلَيۡكُمۡ فَاعۡتَدُوۡا عَلَيۡهِ بِمِثۡلِ مَا اعۡتَدٰى عَلَيۡكُمۡ ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاعۡلَمُوۡٓا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الۡمُتَّقِيۡنَ
(البقرةآیت نمبر:194)
اردوترجمۂ: حرمت والے مہینے کا بدلہ حرمت والا مہینہ ہے، اور حرمتوں پر بھی بدلے کے احکام جاری ہوتے ہیں چنانچہ اگر کوئی شخص تم پر کوئی زیادتی کرے تو تم بھی ویسی ہی زیادتی اس پر کرو جیسی زیادتی اس نے تم پر کی ہو، اور اللہ سے ڈرتے رہو، اور اچھی طرح سمجھ لو کہ اللہ انہی کا ساتھی ہے جو اس کا خوف دل میں رکھتے ہیں
2-يَسۡـــَٔلُوۡنَكَ عَنِ الشَّهۡرِ الۡحَـرَامِ قِتَالٍ فِيۡهِ‌ؕ قُلۡ قِتَالٌ فِيۡهِ كَبِيۡرٌ ‌ؕ وَصَدٌّ عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَ کُفۡرٌ ۢ بِهٖ وَالۡمَسۡجِدِ الۡحَـرَامِ وَاِخۡرَاجُ اَهۡلِهٖ مِنۡهُ اَكۡبَرُ عِنۡدَ اللّٰهِ ‌‌ۚ وَالۡفِتۡنَةُ اَکۡبَرُ مِنَ الۡقَتۡلِ‌ؕ وَلَا يَزَالُوۡنَ يُقَاتِلُوۡنَكُمۡ حَتّٰى يَرُدُّوۡكُمۡ عَنۡ دِيۡـنِکُمۡ اِنِ اسۡتَطَاعُوۡا ‌ؕ وَمَنۡ يَّرۡتَدِدۡ مِنۡكُمۡ عَنۡ دِيۡـنِهٖ فَيَمُتۡ وَهُوَ کَافِرٌ فَاُولٰٓٮِٕكَ حَبِطَتۡ اَعۡمَالُهُمۡ فِى الدُّنۡيَا وَالۡاٰخِرَةِ ‌‌ۚ وَاُولٰٓٮِٕكَ اَصۡحٰبُ النَّارِ‌‌ۚ هُمۡ فِيۡهَا خٰلِدُوۡنَ
(البقرةآیت نمبر:217)
اردوترجمۂ: لوگ آپ سے حرمت والے مہینے کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ اس میں جنگ کرنا کیسا ہے ؟
آپ کہہ دیجیے کہ اس میں جنگ کرنا بڑا گناہ ہے، مگر لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکنا، اس کے خلاف کفر کی روش اختیار کرنا، مسجد حرام پر بندش لگانا اور اس کے باسیوں کو وہاں سے نکال باہر کرنا اللہ کے نزدیک زیادہ بڑا گناہ ہے، اور فتنہ قتل سے بھی زیادہ سنگین چیز ہے، اور یہ (کافر) تم لوگوں سے برابر جنگ کرتے رہیں گے، یہاں تک کہ اگر ان کا بس چلے تو یہ تم کو تمہارا دین چھوڑنے پر آمادہ کردیں، اور اگر تم میں سے کوئی شخص اپنا دین چھوڑ دے، اور کافر ہونے کی حالت ہی میں مرے تو ایسے لوگوں کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں اکارت ہوجائیں گے، ایسے لوگ دوزخ والے ہیں، وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔

1-عَنْ حَفْصَةَ ، قَالَتْ :
" أَرْبَعٌ لَمْ تَكُنْ يَدَعُهُنَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : صِيَامَ عَاشُورَاءَ ، وَالْعَشْرَ ، وَثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ، وَرَكْعَتَانِ قَبْلَ الْفَجْرِ.
(رواه النسائى)
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ
چار چیزیں وہ ہیں جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی نہیں چھوڑتے تھے ....
(1) عاشورہ کا روزہ ،
(2) عشرہ ذی الحجہ
(یعنی یکم ذی الحجہ سے یوم العرفہ نویں ذی الحجہ تک) کے روزے
(3) ہر مہینے کے تین روزے ،
(4) اور قبل فجر کی دو رکعتیں ۔

2-عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدِمَ الْمَدِينَةَ فَوَجَدَ الْيَهُودَ صِيَامًا ، يَوْمَ عَاشُورَاءَ ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :
« مَا هَذَا الْيَوْمُ الَّذِي تَصُومُونَهُ؟ » فَقَالُوا : هَذَا يَوْمٌ عَظِيمٌ ،
أَنْجَى اللهُ فِيهِ مُوسَى وَقَوْمَهُ
(رواه البخارى ومسلم)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تو آپ نے یہود کو یوم عاشورہ (۱۰ محرم) کا روزہ رکھتے دیکھا ۔ آپ نے ان سے دریافت کیا (تمہاری مذہبی روایات میں) یہ کیا خاص دن ہے (اور اس کی کیا خصوصیت اور اہمیت ہے) کہ تم اس کا روزہ رکھتے ہو ؟
انہوں نے کہا کہ : ہمارے ہاں یہ بڑی عظمت والا دن ہے ، اس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰؑ اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو نجات دی تھی
درج بالاآیات و روایات کی روشنی میں محرم الحرام کو حرمت والے مہینوں میں شمار کرنا اور صحیح احادیث سے دس محرم کے دن کی اہمیت اور اسکے روزےکی فضیلت سے محرم کے مہینے کی بھی فضیلت ثابت ہوتی ہے ۔

3-دس محرم یوم عاشورہ کی تاریخی اہمیت:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى
اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدِمَ الْمَدِينَةَ فَوَجَدَ الْيَهُودَ صِيَامًا ، يَوْمَ عَاشُورَاءَ ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « مَا هَذَا الْيَوْمُ الَّذِي تَصُومُونَهُ؟ » فَقَالُوا : هَذَا يَوْمٌ عَظِيمٌ ، أَنْجَى اللهُ فِيهِ مُوسَى وَقَوْمَهُ ، وَغَرَّقَ فِرْعَوْنَ وَقَوْمَهُ ، فَصَامَهُ مُوسَى شُكْرًا ، فَنَحْنُ نَصُومُهُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :
« فَنَحْنُ أَحَقُّ وَأَوْلَى بِمُوسَى مِنْكُمْ فَصَامَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ »
(رواه البخارى ومسلم)
ترجمہ :حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تو آپ نے یہود کو یوم عاشورہ (۱۰ محرم) کا روزہ رکھتے دیکھا ۔
آپ نے ان سے دریافت کیا (تمہاری مذہبی روایات میں) یہ کیا خاص دن ہے (اور اس کی کیا خصوصیت اور اہمیت ہے) کہ تم اس کا روزہ رکھتے ہو ؟
انہوں نے کہا کہ : ہمارے ہاں یہ بڑی عظمت والا دن ہے ، اس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰؑ اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو نجات دی تھی اور فرعون اور اس کے لشکر کو غرق آب کیا تھا تو موسیٰؑ نے اللہ تعالیٰ کے اس انعام کے شکر میں اس دن کا روزہ رکھا تھا اس لیے ہم بھی (ان کی پیروی میں) اس دن روزہ رکھتے ہیں ....
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :
اللہ کے پیغمبر موسیٰؑ سے ہمارا تعلق تم سے زیادہ ہے اور ہم اس کے زیادہ حقدار ہیں ۔
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی عاشورہ کا روزہ رکھا اور امت کو بھی اس دن کے روزے کا حکم دیا ۔
اس روایت سے عاشوراءکے دن کی خصوصیت اور تاریخی اہمیت کااندازہ لگانامشکل نہیں ہے ۔
دوسری بات یہ ہیکہ اس حدیث کے ظاہری الفاظ سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد مدینہ پہنچ کر ہی عاشورہ کے دن روزہ رکھنا شروع فرمایا ۔
حالانکہ صحیح بخاری و صحیح مسلم ہی میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی صریح روایت موجود ہے کہ قریش مکہ میں قبل از اسلام بھی یومِ عاشورہ کے روزے کا رواج تھا اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہجرت سے پہلے مکہ معظمہ میں یہ روزہ رکھا کرتے تھے ۔
پھر جب آپ نے مدینہ ہجرت فرمائی تو یہاں آ کر آپ نے خود بھی یہ روزہ رکھا اور مسلمانوں کو اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا ۔
اصل بات یہ ہے کہ یوم عاشورہ زمانہ جاہلیت میں قریش مکہ کے نزدیک بھی بڑا محترم دن تھا اسی دن خانہ کعبہ پر نیا غلاف ڈالا جاتا تھا اور قریش اس دن روزہ رکھتے تھے ۔
قیاس یہ ہے کہ حضرت ابراہیمؑ و اسماعیلؑ کی کچھ روایات اس دن کے بارے میں ان تک پہنچی ہو گی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دستور تھا کہ قریش ملت ابراہیمی کی نسبت سے جو اچھے کام کرتے تھے ان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے اتفاق اور اشتراک فرماتے تھے ۔
اسی بناء پر حج میں بھی شرکت فرماتے تھے ۔
پس اپنے اس اصول کی بناء پر آپ قریش کے ساتھ عاشورہ کا روزہ بھی رکھتے تھے ، لیکن دوسروں کو اس کا حکم نہیں دیتے تھے ....
پھر جب آپ مدینہ طیبہ تشریف لائے اور یہاں کے یہود کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ کا روزہ رکھتے دیکھا اور ان سے آپ کو یہ معلوم ہوا کہ وہ یہ مبارک تاریخی دن ہے جس میں حضرت موسیٰؑ اور ان کی قوم کو اللہ نے نجات فرمائی تھی اور فرعون اور اس کے لشکر کو غرقاب کیا تھا
(اور مسند احمد وغیرہ کی روایت کے مطابق اسی یوم عاشورہ کو حضرت نوحؑ کی کشتی جودی پہاڑ پر لگی تھی)
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کے روزے کا زیادہ اہتمام فرمایا ، اور مسلمانوں کو عمومی حکم دیا کہ وہ بھی اس دن روزہ رکھا کریں ۔
بعض احادیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ایسا تاکیدی حکم دیا جیسا حکم فرائض اور واجبات کے لیے دیا جاتا ہے ۔
چنانچہ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ربیع بن معوذ بن عفراء رضی اللہ عنہا اور سلمہ بن الاکوع سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عاشورہ کی صبح مدینہ کے آس پاس کی ان بستیوں میں جن میں انصار رہتے تھے یہ اطلاع بھجوائی کہ جن لوگوں نے ابھی کچھ کھایا پیا نہ ہو وہ آج کے دن روزہ داروں کی طرح رہیں .....
ان حدیثوں کی بناء پر بہت سے ائمہ نے یہ سمجھا ہے کہ شروع میں عاشورہ کا روزہ واجب تھا ، بعد میں جب رمضان مبارک کے روزے فرض ہوئے تو عاشورہ کے روزے کی فرضیت منسوخ ہو گئی اور اس کی حیثیت ایک نفلی روزے کی رہ گئی ہے جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی واردہےکہ “ مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ اس کی برکت سے پہلے ایک سال کے گناہوں کی صفائی ہو جائے گی ۔ ”
اور صوم یوم عاشورہ کی فرضیت منسوخ ہو جانے کے بعد بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہی رہا کہ آپ رمضان مبارک کے فرض روزوں کے علاوہ سب سے زیادہ اہتمام نفلی روزوں میں اسی کا کرتے تھے ۔

4-دس محرم (یوم عاشورہ )کے روزے کی فضیلت:
1-
وَصِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ ، أَحْتَسِبُ عَلَى اللهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ »
(رواه مسلم)
ترجمہ:
اور یوم عاشورہ (۱۰ محرم) کے روزے کے بارے میں میں امید کرتا ہوں اللہ تعالیٰ سے کہ وہ صفائی کر دے گا اس سے پہلے سال کی ۔
2-عَنْ حَفْصَةَ ، قَالَتْ :
" أَرْبَعٌ لَمْ تَكُنْ يَدَعُهُنَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : صِيَامَ عَاشُورَاءَ ، وَالْعَشْرَ ، وَثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ، وَرَكْعَتَانِ قَبْلَ الْفَجْرِ.
(رواه النسائى)
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ
چار چیزیں وہ ہیں جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی نہیں چھوڑتے تھے ....
(1) عاشورہ کا روزہ ،
(2) عشرہ ذی الحجہ
(یعنی یکم ذی الحجہ سے یوم العرفہ نویں ذی الحجہ تک) کے روزے
(3) ہر مہینے کے تین روزے ،
(4) اور قبل فجر کی دو رکعتیں ۔
3-
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ :
« مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَحَرَّى صِيَامَ يَوْمٍ فَضَّلَهُ عَلَى غَيْرِهِ إِلَّا هَذَا اليَوْمَ ، يَوْمَ عَاشُورَاءَ ، وَهَذَا الشَّهْرَ يَعْنِي شَهْرَ رَمَضَانَ »
(رواه البخارى ومسلم)
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
میں نے نہیں دیکھا کہ آپ کسی فضیلت والے دن کے روزے کا بہت زیادہ اہتمام اور فکر کرتے ہوں ، سوائے اس دن یوم عاشورہ کے اور سوائے اس ماہ مبارک رمضان کے ۔
حقیقت یہ ہیکہ نفلی روزوں
میں یوم عاشورہ کا روزہ اس لحاظ سے سب سے زیادہ اہم ہے کہ رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت سے پہلے وہی فرض تھا ۔

5-دوسرے مذاہب کے ساتھ مذہبی اشتراک وتشابہ کی ممانعت:
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنَ عَبَّاسٍ ، قَالَ :
حِينَ صَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ ، قَالُوا : يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّهُ يَوْمٌ يُعَظِّمُهُ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى ،
فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :
" إِذَا كَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ إِنْ شَاءَ اللهُ صُمْنَا يَوْمَ التَّاسِعِ ". قَالَ :
فَلَمْ يَأْتِ الْعَامُ الْمُقْبِلُ حَتَّى تُوُفِّيَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
(رواه مسلم)
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عاشورہ میں روزہ رکھنے کو اپنا اصول و معمول بنا لیا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا تو بعض صحابہ نے عرض کیا کہ : یا رسول اللہ ! اس دن کو تو یہود و نصاریٰ بڑے دن کی حیثیت سے مناتے ہیں
(اور یہ گویا ان کا قومی و مذہبی شعار ہے اور خاص اس دن ہمارے روزہ رکھنے کے ان کے ساتھ اشتراک اور تشابہ ہوتا ہے ، تو کیا اس میں کوئی ایسی تبدیلی ہو سکتی ہے جس کے بعد یہ اشتراک اور تشابہ والی بات باقی نہ رہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ :
ان شاء اللہ ! جب اگلا سال آئے گا تو ہم نویں کو روزہ رکھیں گے ....
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں لیکن اگلے سال کا ماہ محرم آنے سے پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات واقع ہو گی ۔
ظاہر ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اشکال عرض کرنے پر یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات شریف سے کچھ ہی پہلے فرمائی ، اتنی پہلے کہ اس کے بعد محرم کا مہینہ آیا ہی نہیں ، اور اس لیے اس نئے فیصلے پر عمل درآمد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں نہیں ہو سکا ، لیکن امت کو رہنمائی مل گئی کہ اس طرح کے اشتراک اور تشابہ سے بچنا چاہئے ....
چنانچہ اسی مقصد سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ طے فرمایا کہ ان شاء اللہ آئندہ سال سے ہم نویں کا روزہ رکھیں گے ۔
نویں کا روزہ رکھنے کا آپ نے جو فیصلہ فرمایا اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں اور علماء نے دونوں بیان کئے ہیں ۔
1-ایک یہ کہ آئندہ سے ہم بجائے دسویں محرم کے یہ روزہ نویں محرم ہی کو رکھا کریں گے
2-اور دوسرا یہ کہ آئندہ سے ہم دسویں محرم کے ساتھ نویں کا بھی روزہ رکھا کریں گے ، اور اس طرح سے ہمارے اور یہود و نصاریٰ کے طرز عمل میں فرق ہو جائے گا ....
اکثر علماء نے اسی دوسرے مطلب کو ترجیح دی ہے اور یہ کہا ہے کہ یوم عاشورہ کے ساتھ اس سے پہلے نویں کا روزہ بھی رکھا جائے اور اگر نویں کو کسی وجہ سے نہ رکھا جا سکے تو اس کے بعد کے دن گیارہویں کو رکھ لیا جائے ۔
محمداکرام صافی
 

Mufti Muhammad Ikram Safi
About the Author: Mufti Muhammad Ikram Safi Read More Articles by Mufti Muhammad Ikram Safi: 3 Articles with 1795 views Follow me on
https://www.facebook.com/hafizikram.ikramsafi
https://www.facebook.com/MuftiIkramSafi
albseerah.com
I am a Sharia advisor, motivation
.. View More