زندگی ایک سانس کی مار

شکوے شکایات کا وقت نہیں ، نہ نفرتیں پالنے کا ، جو معافی مانگے ، معاف کردو ، کیا پتا ہے کہ ؛ آج ، کل یا پھر پرسوں ، دس دِن بعد ، ایک مہینہ ، دو سال ، پانچ ، یا دس سال تک کون ہو!؟ کون نہ ہو!؟ کون طبعی موت مرتا ، بیماری سے ، ایکسیڈنٹ ، ڈپریشن ، خودکشی ، اچانک ، یا پھر کُچھ بھی!؟ وقت کم ہے، اور کام زیادہ ، نفرتوں کے لِیے پھر کِسی جہان میں مِلیں گے ، ابھی کے لِیے مُحبت رہنے دو ، خود بھی جِیو اور جینے دو۔۔۔۔! 🙂

زندگی ایک سانس کی مار

سنو یارو
یہ آخری میسج کُچھ بھی ہو سکتا ہے ایک دِل ، پُھول ، ایک عام سی بات ، شب بخیر ، بعد میں آتا ہوں ، ٹھیک ہے ، اِن میں سے کُچھ بھی ، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ؛ آخری میسج ہی نہ ہو!؟ کہ اُس دوران تو وقفہ آ گیا ہو ، خاموشی کا یا پھر خُفگی کا؟ نفرت کا؟ اور پھر ایسا ہو کہ ؛ موبائل سائیڈ پہ رکھوں اور سونے کے لِیے لیٹوں ، پھر جب صبح کوئی اُٹھانے آئے تو " اٹھو نماز پڑھ لو ،ڈیوٹی پہ نہیں جانا؟ ابھی تک اٹھے کیوں نہیں!؟ ، اُٹھ بھی جاؤ اب! " مگر میرے نہ اُٹھنے پہ تشویش سی ہو ، دِل ایک دم بند سا ہوا ہو ، پھر سرہانے بیٹھ کر نبض ٹٹولی جائے کہ ؛ کہیں زندگی مِل جائے ، دِل کی دھڑکن سُننے کی ناکام کوششیں ہوں ، افراتفری ہو ، آوازیں ہوں ، کِسی کو بُلانے کی ، آ کر دیکھنے کی ، " شی از نو مور " کی ہلکی سی آواز ، مگر پھر آہستہ آہستہ وہی آوازیں چیخوں میں بدل جائیں ، رونے کی آوازیں آنے لگیں ، آس پڑوس والے خبر لینے پُہنچ جائیں ، رشتہ داروں کو فون کھڑکائے جائیں ، پھر اعلان کروائے جائیں کہ ؛ فلاں بِن فلاں کی موت ہو گئی ، جنازہ اِتنے بجے ہوگا ، مٙیّت کے غُسل کے لِیے اودھم مچ جائے ، غُسال آئے ، غُسل دِیا جائے ، مٙیّت کی چارپائی کے ساتھ لگ کر خُوب رویا جائے ، اگلے پچھلے آنسو؟ " ارے یارر! چچچ ، کیا ہوا بیچارے کو؟ بُہت اچھا تھا

یاررر ، ابھی عمر ہی کیا تھی ، ابھی دُنیا بھی نہیں دیکھی اوف آنکھیں مُوند لیں ، ارے یارر ہر وقت ہنستا رہتا تھا یہ تو ، چچچ ، آہ افسوس! اور پھر کُچھ گھنٹوں بعد جِس پہ رویا جا رہا تھا ، اُسی کو ایک انجان جگہ لے جایا جائے گا ، ابا بھائی " وقت نکلا جا رہا ہے " کہیں گے ، چارپائی کوئی نہ چھوڑے گا ، کُچھ بےہوش ہوں گے ، ( مائیں ہی ہوتی ہیں )

پھر ایک دن گزرا ، دو ، تین ، چار ، پانچ ، چھ ، سات ، آٹھ
رونا دھونا ، بےہوش ہونا ، رونا ، بہت رونا ، سِسکیاں ، کبھی آنسو کبھی چُپ چُپ ، پھر خاموشی ، اور پھر نارمل روٹین ، یہی ہوگا ، یہی ہوتا آیا ہے ، اور مزہ تب آنا ، جب سِتم گروں نے میسج کرنا ہے بڑے دِن ہُوئے ، معذرت ہی نہیں کی تم نے!؟ نہ ہی یاد کِیا!؟ سوچا کہ ؛ آج ہم ہی بات کر لیتے ہیں ، ہم ہی سوری بول دیتے ہیں ، ہیلو؟ ، جواب تو دو یاررر!؟ دُوسری طرف نیند ، مستقل نیند ، کیڑے ، جِسم کا خاک ہونا ، گلنا ، سڑنا ، پھر ہڈیاں ، چُپ ، مُکمل چُپ ، نہ دُنیا کے بکھیرے ، نہ رونا ، نہ تکلیفیں ، نہ رنجشیں ، بس چُپ ، گہری چُپ! ، ہیلو بھائی، فلاں سے بات ہو سکتی!؟ بےچینی سے پُوچھنا بیٹا وہ ہم میں نہ رہا اب ، پھر یاد آنے پر رونا ، کیا کہا!؟ کیا کہا بھائی!؟ غلط سننے پہ دوبارہ پوچھنا ، وہ تو کب کا مر چُکا ہے یار ڈیڈ ، ہینگ اپ ، ایسا محسوس ہوگا جیسے لمحے بھر کو دُنیا تھم سی گئی ہو ، تین یا چار مہینے بعد دوستوں کے تین یا چار میسجز ہیلو؟ کدھر ہو؟ آجکل آن نہیں آتے؟؟ یارر بندہ بتا ہی دیتا ہے!؟ پھر اُن کی طرف سے بھی چُپ ، اور قبرستان میں بھی چُپ ، قبر میں بھی چُپ ، دو پل کی زندگی ہے، شکوے شکایات کا وقت نہیں ، نہ نفرتیں پالنے کا ، جو معافی مانگے ، معاف کردو ، کیا پتا ہے کہ ؛ آج ، کل یا پھر پرسوں ، دس دِن بعد ، ایک مہینہ ، دو سال ، پانچ ، یا دس سال تک کون ہو!؟ کون نہ ہو!؟ کون طبعی موت مرتا ، بیماری سے ، ایکسیڈنٹ ، ڈپریشن ، خودکشی ، اچانک ، یا پھر کُچھ بھی!؟ وقت کم ہے، اور کام زیادہ ، نفرتوں کے لِیے پھر کِسی جہان میں مِلیں گے ، ابھی کے لِیے مُحبت رہنے دو ، خود بھی جِیو اور جینے دو۔۔۔۔!
 

FaZi dar
About the Author: FaZi dar Read More Articles by FaZi dar: 14 Articles with 22174 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.