ٹرانس جینڈر یا بیماری، سازش کیا ہے؟

وہ بحراوقیانوس کے ساحلی ریاست میری لینڈ کے مشہور ومعروف خودمختارامریکی شہر بالٹی مور میں 20مارچ 1922کو پیداہوئے۔ان کانام ہیری کلنی فیلٹر(Harry Klinefelter) تھا،انھوں نے بچوں میں ایک پیدائشی نقص کی نشاندہی کی اوراس کی سائنسی وجوہات بھی بیان کیں۔اس بیمای کو بعدازاں انھی کے نام سے موسوم کیاگیا۔اس بیماری کو Klinefelter syndrome کلِنفیلٹر سنڈروم کہا جاتا ہے۔ اصل میں می اوسس ۱ میں جب کروموسومز کا تبادلہ ہوتا ہے تو نارملی مرد کا x یا yکروموسوم عورت کے x کروموسوم کو فرٹیلائز کرتا ہے۔ اگر xx مل جائیں تو عورت اور XY ملیں تو مر د پیدا ہوتا ہے۔مگر اس سنڈروم میں کسی وجہ سے می اوسس کے دوران کروموسومز الگ نہیں ہو پاتے۔ اس وجہ سے مرد کا XY کروموسوم عورت کے x کو یا مرد کا y عورت کے xx کو فرٹیلائز کرسکتا ہے جس سے xxy کروموسوم والا جاندار بنے گا۔ ای میڈیکل میں اس کو ایک بیماری کے طورپر رجسٹر کیا گیا ہے جس کا نمبر ped/1252 ہے۔ یہ صرف پانچ سو میں اسے ایک شخص یا ہزار میں سے ایک شخص کو ہوتی ہے۔اس بیماری کے حامل فراد میں مرد اورعورت دونوں کی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔اس بیماری میں مبتلافرد کوعرف عام میں خواجہ سرا کہتے ہیں ۔جب کہ مغرب نے توباقاعدہ اس کو تیسری جنس کادرجہ دے کر ٹرانس جینڈرقرار دیدیا ہے۔اس طرح تواندھوں،بہروں اورلنگڑوں کو یہ لوگ الگ جنسی شناخت دے سکتے ہیں ۔تاہم اس میں جنسی لذت کارفرما نہیں ،اس لیے صرف خواجہ سرائوں کو ٹرانس جینڈرقراردیکر اس کمیونٹی کے جنسی استحصال کی راہ ہموار کردی گئی اور ہم جنسی پرستی کو فروغ دیاجارہاہے ۔
پاکستان میں بھی خواجہ سرائوں کے حقو ق کی آڑ میں مبینہ طور پر ہم جنسی پرستی کے تحفظ کی کوششیں ہورہی ہیں۔شاہد حاقان عباسی کی وزارت اعظمیٰ میں 8 مئی 2018 کو پاکستان ٹرانس جینڈرقانون منظور کیا گیا تھا،جس کی حمایت ملک کی بڑی جماعتوں نون لیگ، پیپلزپارٹی اورتحریک انصاف نے کی تھی جب کہ جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام اور دیگرمذہبی جماعتوں نے اس کی مخالفت کی تھی ۔
ٹرانس جینڈر پروٹیکشن ایکٹ 2018میں خواجہ سراؤں کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ خود اپنی جنس کی شناخت کر سکتے ہیں اور اسے تبدیل کروا سکتے ہیں۔نادرا سمیت تمام سرکاری ادارے اس بات کے پابند ہیں کہ خواجہ سرا اپنی جس شناخت کو چاہیں وہ ہی ان کے شناختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس اور پاسپورٹ وغیرہ پر درج کی جائے گی۔ایکٹ میں بحیثیت پاکستانی شہری ان کے تمام حقوق تسلیم کیے گئے ہیں۔خواجہ سراؤں کو کوئی سہولت دینے سے انکار اور امتیازی سلوک پر مختلف سزائیں بھی تجویز کی گئی ہیں۔اس ایکٹ میں خواجہ سرا کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ تین طرح کے ہو سکتے ہیں: پہلے نمبر پر انٹر سیکس خواجہ سرا ہیں، جن کی تعریف کچھ یوں کی گئی ہے کہ ان میں مردوں اور خواتین دونوں کی جینیاتی خصوصیات شامل ہوں یا جن میں پیدائشی ابہام ہو۔دوسرے نمبر پر ایسے افراد ہیں، جو پیدائشی طور پر مرد پیدا ہوتے ہیں مگر بعد میں اپنی جنس کی تبدیلی کے عمل سے گزرتے ہیں۔ تیسرے نمبر پر ایسے لوگ ہیں، جو پیدائش کے وقت کی اپنی جنس سے خود کو مختلف یا متضاد سمجھتے ہوں۔
اس بل کے حوالے سے یہ پروپیگنڈہ کیا گیا کہ اس بل مقصد خواجہ سراؤں کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے ،لیکن حقیقت یہ نہیں بلکہ اس کے ذریعے خواجہ سرائوں کے حقوق پر ڈاکا ڈالاگیا اور ہم جنس پرستی کی طرف مائل مرد اورخواتین کواس کمیونٹی کاحصہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اس بل کی شق نمبر 3 اور اس کی ذیلی شق نمبر 2 کے ذریعے انتہائی خطرناک قانون سازی کی گئی۔جس میں یہ کہا گیا کہ کسی بھی شخص کی جنس کا تعین اس کی اپنی مرضی کے مطابق ہو گا۔یعنی اگرکوئی مرد کہے کہ اس میں عورت والی حسیات پیدا ہوچکی ہیں ،اس لیے اسے کو عورت سمجھا جائے توقانون کے مطابق اسے عورت سمجھ کر اس کو عورت ہی کی شناختی دستاویزجاری کردی جائیں گی یا اگرکوئی خاتون دعویٰ کرے کہ وہ عورت رہنا پسند نہیں کرتی تو اس کو مرد تسلیم کیاجاناقانونی طور پر ضروری ہے۔ اس عمل میں نہ تو میڈیکل بورڈ کی پابندی عائد کی گئی اور نہ اس کے نفسیاتی معائنے کی شرط رکھی گئی۔ اب ذرا تصور کریں کہ اگردو مرد جنسی تعلق قائم کرنا چاہتے ہیں توان میں ایک خود عورت ڈکلیرکراکر دوسرے سے شادی کرلے گا۔ اسی طرح اگردوعورتیں آپس میں جنسی تعلق کی خواہاں ہوں تو ان میں سے بھی ایک سکون سے خود کو مرد قراردیکر دوسری سے شادی کرلے گی ۔ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کیا اس سے معاشرےمیں ہم جنس پرستی کو فروغ نہیں ملے گا؟

انسانی جسم کے حوالے سے قرآن کریم کا بڑا واضح حکم ہے کہ کسی انسان کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے جسم میں ایسی تبدیلیاں پیدا کرے کہ جس سے اس کی ساخت تبدیل ہوجائے۔تاہم’’میرا جسم میری مرضی‘‘والے طبقے کی خوشنودی کیلئے مذکورہ قانون کے تحت ایک سنگین فتنے کا راستہ کھول دیا گیا ہے جس کے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں رکھی گئی۔

اسی طرح رحمت عالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ایسی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے جو مردوں کا حلیہ اختیار کرتی ہیں اور ایسے مردوں پر لعنت فرمائی ہے جو عورتوں کا حلیہ اختیار کرتے ہیں لیکن ٹرانس جینڈر ایکٹ کےذریعے اس کی مکمل آزادی دے دی گئی ہے۔

جنس میں تبدیلی کا اختیار اگر عوام کو دے دیا جائے تو نہ صرف اسلامی تعلیمات کی واضح اور صریح خلاف ورزی ہوگی بلکہ آئین پاکستان کی بھی سنگین خلاف ورزی ہوگی۔اس قانون کے مطابق اگر عورتوں اور مردوں کو اپنی جنس کی تبدیلی کا کھلا اختیار دے دیا جائے تو پھر اس کے عمل درآمد میں اتنی پیچیدگیاں پیدا ہوں گی ،جن کا تصور ہی محال ہے۔مثلاً اگر کوئی عورت یہ دعویٰ کر دے کہ آج کے بعد وہ عورت نہیں بلکہ مرد ہے اور اسی کے مطابق اس کو شناختی کارڈ جاری کر دیا جائے تو پھر جائیداد میں اس کی وراثت کس فارمولے کے تحت تقسیم ہوگی۔کتنے لوگوں کا حق غصب ہوگااور پھر اس کے بعد خاندانی جھگڑوں کا جو سلسلہ شروع ہوگا اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟

بظاہر خواجہ سراؤں کے بجائے یہ قانون ہم جنس پرستوں کے تحفظ کا قانون بن گیا۔جیسا کے پہلے ہی عرض کرچکاہوں کہ اس بل کی مخالفت جماعت اسلامی اوردیگرمذہبی جماعتوں نے کی تھی ۔چند روز قبل جماعت اسلامی پاکستان نے ٹرانس جینڈر ایکٹ کے خلاف وفاقی شرعی عدالت میں پٹیشن دائر کر دی ہے۔پٹیشن جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان کی طرف سے دائر کی گئی۔ اس سے قبل سینیٹر مشتاق احمد خان اس ایکٹ کی خامیوں کو دور کرنے کے لیے ایکٹ میں ترامیم کا ایک پرائیویٹ ممبر بل بھی جمع کراچکے ہیں جو قواعد کے مطابق انسانی حقوق کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا۔ کمیٹی کے چیئرمین علامہ محمد اقبال کے پوتے سینیٹر ولید اقبال ہیں۔کمیٹی کے اجلاس کے دوران مشتاق احمد نے تجویز پیش کی کہ کوئی جنس تبدیلی کے لیے نادرا کے پاس جائے تو پہلے میڈیکل بورڈ فیصلہ کرے۔ اس قانون سے قانونِ وراثت پر اثر پڑ رہا ہے۔ اس پر چیئرمین کمیٹی نے پوچھا کہ جب قانون بن رہا تھا تب اسلامی نظریاتی کونسل سے رائے لی گئی؟ مشتاق احمد خان نے جواب میں کہا کہ اس وقت اسلامی نظریاتی کونسل سے رائے نہیں لی گئی تھی۔اجلاس میں وزارت انسانی حقوق کی جانب سے ترامیم کی مخالفت کی گئی۔ وزارت انسانی حقوق نے کہا کہ معاملہ عدالت میں ہے اس قانون کو نہ چھیڑا جائے۔سینیٹ اجلاس کے دوران سینیٹر مشتاق احمد خان کے ایک سوال کے جواب میں سینیٹ کو بتایا گیاکہ 2018ء کے بعد سے تین سال میں نادرا کو جنس تبدیلی کی قریباً 29 ہزار درخواستیں موصول ہوئیں۔ ان میں سے 16530 مردوں نے اپنی جنس عورت میں تبدیل کرائی جب کہ 15154 عورتوں نے اپنی جنس مرد میں تبدیل کرائی۔ خواجہ سراؤں کی کل 30 درخواستیں موصول ہوئیں جن میں 21 نے مرد کے طور پر اور 9 نے عورت کے طور پر اندراج کی درخواست کی۔

نادرا کے ترجمان فائق علی چاچڑ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ گذشتہ سال نومبر میں سینیٹ میں جو اعداد شمار پیش کیے گئے وہ درست ہیں۔ان کے بقول جولائی سنہ 2018 سے جون 2021 تک نادرا کو جنس تبدیلی کے سرٹیفیکیٹ کے اجرا کے لیے 28 ہزار 7 سو 23 درخواستیں موصول ہوئی ہیں، جن میں 16530 درخواستیں مرد سے عورت جنس میں اور 15154 درخواستیں خاتون سے مرد جنس میں تبدیلی کی ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ پورے ملک میں 5626 خواجہ سراؤں کو شناختی کارڈ جاری کیے جا چکے ہیں۔اُن کا مزید کہنا تھا کہ کارڈ بناتے وقت جنس کے انتخاب پر کوئی پابندی نہیں البتہ خواجہ سرا کے جنس کے خانے میں مرد خواجہ سرا، عورت خواجہ سرا یا خنثیٰ مشکل لکھا جاتا ہے۔

حکومت کے اتحادی اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا بھی کہنا ہے کہ ٹرانس جینڈر بل قرآن و سنت سے بغاوت ہے۔ انہوں نے کہا یہ بل آج کا معاملہ نہیں، اس طرح کے قوانین چوری چھپے، جب کورم بھی پورا نہ ہو تو پرائیویٹ ممبر کے ذریعے پیش کرکے پاس کیے جاتے ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام اس حوالے سے مستقل ترمیم تیار کر رہی ہے۔ پاکستان شریعت کونسل نے کہا ہے کہ ٹرانس جینڈر قانون آئین و شریعت کے خلاف ہے۔ متنازعہ قانون منسوخ کیا جائے۔

بدقسمتی سے طبی معائنے کی اس مبنی برانصاف اور بہترین تجویز اور ترمیم کے لیے سینیٹر مشتاق احمد خان فی الحال اکیلے ہی یہ جنگ لڑ رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن ہو یا پی پی یا پی ٹی آئی یا بعض دوسری جماعتیں وہ طبی معائنے کی حمایت کے بجائے بے شمار خطرات و خدشات کے حامل موجودہ ایکٹ کو مضمرات سمیت نافذ کرنے کے حامی ہیں۔اب یہ پارلیمنٹ کی دیگر دینی جماعتوں کے ممبران، دینی تنظیموں، سماجی و تعلیمی اداروں کے سربراہوں، وارثان منبر و محراب کی ذمہ داری ہے کہ وہ ترمیمی بل کو منظور کرنے اور طبی معائنے کو لازمی کرنے کے لیے حکومت، ممبران پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں پر زور دیں کہ اس تہذیبی شب خون کا راستہ روکیں۔ حکومت اور پارلیمنٹ پہلے مرحلے میں اسے اسلامی نظریاتی کونسل کے پاس بھیجنے کا فیصلہ کرے ۔
 

ABDULLAH MISHWANI
About the Author: ABDULLAH MISHWANI Read More Articles by ABDULLAH MISHWANI: 6 Articles with 4086 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.