خواجہ سراؤں سے کوئی تعلق نہیں۔۔ ٹرانس جینڈر ایکٹ معاشرے میں کون کون سے مسائل پیدا کرسکتا ہے؟

image
 
خواجہ سرا ایک قابل رحم اور قابل توجہ جنس ہے، ظاہر ہے کہ ان کی تخلیق میں ان کا اپنا کوئی کردار یا کوئی خامی نہیں وہ بھی اللہ کی مخلوق ہیں اور اس لحاظ سے بدقسمت ہیں کہ ان کی پیدائش کے بعد سے ہی ان پر گھر والوں کی محبتوں اور توجہ دے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔
 
بہن بھائیوں میں وہ اچھوت بن جاتے ہیں اور باپ ودیگر رشتے دار ان کی وجہ سے شرمندہ سے رہتے ہیں، ایسے بچے کسی حد تک ماں کا پیار تو سمیٹتے ہیں لیکن تعلیمی اداروں میں جاسکتے ہیں نہ اپنی خاندانی تقریبات میں شامل ہوتے ہیں، گھروں میں بھی ان کی کو علیحدہ رکھا جاتا ہے۔
 
بڑے ہوں تو ان پر صرف ناچ گانے یا بھیک مانگنے کا ہی راستہ کھلا رکھا جاتا ہے، ظاہر ہے کہ اس صورتحال میں ان کے انسانی حقوق کا تحفظ انتہائی ضروری ہے۔
 
قانونی ماہرین کے مطابق 2018 میں قومی اسمبلی میں پاکستان ٹرانس جینڈر ایکٹ پیش کیا گیا جس میں ڈرائیونگ لائسنس بنانے اور ہراسانی سے تحفظ کی سہولت ملی اور ان سے بھیک منگوانے والے پر 50 ہزار روپے جرمانہ کی سزاء بھی متعین کی گئی۔
 
 
چونکہ ایسے قوانین کے پیچھے بیرونی عطیات پر چلنے والی این جی اوز ہوتی ہیں اور وہ غیر ملکی ایجنڈے لے کر چل رہی ہوتی ہیں اس لئے بظاہر خواجہ سراؤں کے تحفظ کے اس ایکٹ میں دو ایسی کلاز یا شقیں رکھی گئی ہیں جن کی وجہ سے ان قوانین کے اصل مقاصد پس منظر میں چلے گئے ہیں اور خواجہ سراؤں کے بجائے یہ قانون ہم جنس پرستوں کے تحفظ کا قانون بن گیا ہے۔
 
ٹرانس جینڈر ایک مغربی اصطلاح ہے اور یہ ایک پوری تہذیب کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس تہذیب کا نام ایل جی بی ٹی یعنی لزبین، گے، بائی سیکسوئیل اور ٹرانس جینڈر ہے۔ یہ ایک کمیونٹی ہے، ایک منفی کلچر ہے ، بدتہذیبی ہے، مکمل جنسی آوارگی ہے اور بے رواروی کے اس کلچر کو خواجہ سراؤں سے کوئی ہمدردی نہیں، وہ انہیں بھی ایک سیکس گروپ کے طور پر لیتے ہیں۔
 
چنانچہ 2018 کے ایکٹ میں جنس کے تعین یا جنس کی تبدیلی کا اختیار خود فرد کو دے دیا گیا ہے، اس میں خواجہ سراء کی کوئی قید نہیں، یعنی کوئی بھی مرد نادرا کو درخواست دے کر اپنی جنس عورت کرواسکتا ہے اور کوئی بھی عورت مرد بن کر اپنا نادرا شناختی کارڈ بنوا سکتی ہے۔
 
ہم جنس پرستی اور ایک ہی جنس کے افراد کی باہمی شادی کیلئے قانونی راستہ کھول دیا گیا ہے۔ اب قانون کوئی گرفت نہیں کرسکتا۔ کوئی مرد عورت کا قومی شناختی کارڈ بنوا کر عورت کی سیٹ پر ملازمت حاصل کرسکتا ہے۔ خواتین کے تعلیمی اداروں میں ٹیچر لگ سکتا ہے۔ لیڈیز واش روم استعمال کرسکتا ہے۔ خواتین کے جلسوں میں جاسکتا ہے۔ کوئی عورت مرد بن کر وراثت میں حصہ بھائیوں یا بیٹوں کے برابر لے سکتی ہے۔
 
یہ صرف خدشات نہیں ہیں بلکہ 2018 کے بعد سے 3 سال میں نادرا کو جنس تبدیلی کی تقریباً 32ہزار کے قریب درخواستیں موصول ہوچکی ہیں۔ ان میں سے 16 ہزار 530 مردوں نے اپنی جنس تبدیل کروائی جبکہ 15ہزار 154 خواتین نے اپنی جنس مرد میں تبدیل کروائی اور حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جن کے نام پر یہ بل پیش کیا گیا یعنی خواجہ سراؤں نے صرف 30 درخواستیں دی جن میں 21 نے مرد اور 9 نے عورت کے طور پر اندرراج کروایا۔
 
image
 
جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد کی ترمیم اس تبدیلی کو میڈیکل ٹیسٹ سے مشروط کرتی ہے۔ یعنی مرد سرجن، خاتون سرجن اور ماہر نفسیات پر مشتمل بورڈ یہ فیصلہ کرے کہ یہ محنث ہے یا نہیں ۔
 
برطانیہ میں 2004 میں جنس کے تعین کے ایکٹ میں طبی معائنے اور سرٹیفکیٹ کو لازمی قرار دیا گیا جبکہ پاکستان کے جینڈر ایکٹ 2018 کے لحاظ سے کسی میڈیکل بورڈ کی رائے کے بغیر اپنی صوابدید پر مرد سے عورت اور عورت سے مرد بننے اور تبدیلی جنس کا آپریشن کروانے کی بھی کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔
 
YOU MAY ALSO LIKE: