25 ستمبر ہر سال آتا ہے مگر 1903ء کا 25 کا ہندسہ تاریخی
ہو گیا اور مسلمانوں کے لئے اللہ کا انعام بن گیا۔
انیسویں صدی کا آخری نصف اور بیسویں کے آغاز میں بر عظیم میں کئی ایک
شخصیات ایسی پیدا ہوئیں جن کا نام تحریک پاکستان کے پس منظر میں لیا جاتا
ہے۔مگر سید ابو الاعلیٰ مودودی کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ بیک وقت اقبال
بھی تھے اور قائد بھی۔ابوالکلام کے سحر کا توڑ بھی تھے اور پاکستان کا خواب
دیکھنے والوں کو مسجد کے نمازیوں کی طرح تیار کرنے کے مشن پر بھی گامزن
تھے۔تحریک خلافت کے یہ سپاہی نظریے کی علمبرداری کے لئے الگ قطعہ زمین کی
اہمیت سے بھی نا بلد نہ تھے مگر اس قطہ زمین کو مدینہ کا ماڈل بنانے کے لئے
دار ارقم کی تیاری سے بھی غافل نہ تھے۔پاکستان کو ایک مسجد بھی کہتے تھے
اور اس مسجد کی رونق کے لئے ایسے نمازیوں کو بھی تیار کرتے رہے جو خلافت کے
تقاضوں کو دین کے نفاذ سے الگ نہ سمجھیں۔
سید نے 41ء میں اس جماعت کی بنیاد ڈالی جو صلاحیت وصالحیت کا مزاج اور نفاق
سے دور ہو۔اعلائے کلمتہ اللہ کے لئے 'ترجمان القرآن' کا اجراء کیا اور قرآن
کے فہم تک عام آدمی کی رسائی ممکن بنانے کے ساتھ ساتھ تہذیبوں کے تصادم کی
جنگ میں اسلامی تہذیب کی علمبرداری ثابت کی۔جہاد،شہدا بالقسط،عدل،خلافت کے
مستحق کون نیز سود،تصویر کی حرمت،حجاب کے درست تصور کو اس میں اتنی خوبصورت
اور صمیم دلائل سے پیش کیا کہ علماء کے لئے بھی یہ تفہیم ایک معیار بن
گئی۔جدیدیت کے فتنے کے لئے ابر رحمت ثابت ہوئی اور نوجوانوں کو شکوک وشبہات
کی عمیق وادیوں سے نکال کر اسلام کے مقدمے کا بہترین وکیل بنانے میں
امتیازی تفسیر ثابت ہوئی۔
سید نے پاکستان کا مقدمہ قلم سے لڑا اور جماعت کی صورت اسے تقویت بخشی۔
قیام پاکستان کے بعد سید اس پاک سر زمین میں حق کے علمبردار بن گئے اور
نظریہ اسلام کی برتری کے لئے سر گرم ہو گئے۔علماء کی عام روش کے برعکس
سیاست کے میدان کو انہوں نے سیکولر اور مذہبی لبادہ اوڑھنے والوں کے سپرد
کرنے کی بجائے عدل کے قیام کے لئے اپنی جماعت سمیت میدان میں کود پڑے۔علماء
اور عوام الناس نے اسے جاہ حشمت کے لالچ سے تعبیر کیا تو الزام سے بری ہونے
کے لئے اور اپنی وکالت کرنے کی بجائے مقصد پر توجہ مرتکز کیے رکھی یہاں تک
کہ قرارداد پاکستان کی صورت اسلام کو اس ملک میں برتر حیثیت حاصل ہو
گئی۔دین وسیاست میں ہم آہنگی ایسی تھی کہ آپ رحمتہ سیاست کے میدان میں
الیکشنز کے ذریعے اپنے امیدوار اسمبلیوں اور سینٹ میں پہنچانے کی اہمیت سے
غافل نہ رہے اور عام وخواص کی تنقید کے برعکس اقتدار کی کنجیاں اپنی گرفت
میں کرنے کو شیوہ انبیاء سمجھتے ہوئے اس فرض سے غفلت برتنے کو کسی قیمت پر
تیار نہ ہوئے۔نتیجہ یہ نکلا کہ آج بھی اسی لشکر کے ایک ادنی سپاہی نے اپنا
فرض نبھاتے ہوئے اسلام سے متصادم اور فطرت سے باغی قانون کی اصلیت کو بے
نقاب کیا اور امت پر ثابت کر دیا کہ ملت پاکستان میں جب تک ایک بھی ابراہیم
موجود ہے یہاں منافقانہ حربوں سے خلاف اسلام ایکٹ منظور نہیں کیا جا سکتا۔
سید جو شعور بیدار کر گئے ہیں اور جو تربیت کر گئے ہیں وہ ہم پر قرض ہے اور
یہ قرض ہم تبھی ادا کر سکتے ہیں جب ہم اپنے نصب العین سے آگاہ ہوں گے،دلائل
سے مالا مال ہوں گے اور عدل اجتماعی کی اہمیت کو سمجھتے اور اس کے قیام کے
لئے شرح صدر سے کوشش کریں گے۔اللہ کی بے پناہ رحمتیں ہوں سید پر جو طالب کی
گھاٹیوں سے استقلال سے گزر کر،طائف کی وادیوں میں استقامت کا مظاہرہ کر کے
اور خندق کی کھدائیاں کر کے ملت کو غلبہ اسلام کے لئے سر گرم رہنے کا طریقہ
سمجھا گئے۔اللہ ہمیں اپنا حصہ اقامت دین ادا کرنے کی توفیق عطا
فرمائے۔اٰمین
|