سیلاب،عوام اور حکمران


پاکستان میں سیلاب کی تباہکاریوں سے تقریبا چاروں صوبے متاثر ہوئے۔ ملک میں حالیہ سیلاب اور بارشوں سے 3 کروڑ 30 لاکھ سے زائد افراد براہ راست متاثر ہوئے۔ 31 اگست کو نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مزید 75 افراد جاں بحق ہوئے جس کے بعد سیلاب اوربارشوں سے جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد 1136 تک پہنچ گئی۔ملک بھر میں اب تک 10 لاکھ 51 ہزار 570 گھروں کو نقصان پہنچا جبکہ سیلاب اور بارشوں سے اب تک 7 لاکھ 35 ہزار 375 مویشی مرچکے ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق بارشوں اور سیلاب کے دوران اب تک 162 پلوں کو نقصان پہنچا ہے، 72 اضلاع بری طرح متاثر ہوئے جبکہ مجبوعی طور پر 3 کروڑ 30 لاکھ سے زائد افراد براہ راست سیلاب سے متاثر ہوئے ہیںاور اس کے ساتھ ساتھ جتنی فصلیں کاشت کے لیے تیار تھیں وہ سب کی سب سیلاب کی نظر ہو گئیں جن میں سب سے ذیادہ نقصان گندم کی فصلوں کو پہنچا ہے ایک رپورٹ کے مطابق سیلاب سے تقریبا ساڑھے 3 لاکھ ٹن گندم ضائع ہوئی اور اسی وجہ سے غذائی بحران کا خدشہ بھی بڑھ چکا ہے۔

سیلاب کی وجہ سے لوگوں کے گھر ڈوب گئے، مال مویشی ڈوب گئے اور پاس کچھ بھی نہیں بچا ، سیلاب سے ملک کا ایک تہائی حصہ زیر آب ہے جس کے طویل مدتی اثرات سامنے آئیں گےاور بحالی کی کاروائی میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔لیکن اس تمام صورتحال میں سیاسی رہنماؤں کی جانب سے انتہائی بے حسی کا مظاہرہ کیا گیا یہاں تک کہ معروف سیاستدانوں کے سیلاب زدہ علاقوں کے دوروں کو دیکھ کر یہی لگا کہ شاید یہ صرف فوٹو سیشن کے لیے گئے تھے۔کیونکہ بیشتر علاقوں سے متاثرہ افراد کی کئی ویڈیوز بھی سامنے آئیں جس میں وہ یہ شکایت کرتے ہوئے نظر آئے کہ ہمیں کوئی ریلیف فراہم نہیں کیا گیا، کوئی امداد نہیں دی گئی۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور وزیراعلیٰ کے مشیر منظور وسان نے تو حد ہی کر دی اور سیلاب میں ڈوبے علاقے کو وینس سے تشبیہ دے دی اس موقع پر وہ خود کشتی میں سوار تھے۔

اس کے علاوہ خیرپور میں سیلاب متاثرین نے پی پی رہنما منظور وسان کو گھیرنے کی کوشش کی جس پر پولیس اہلکاروں نے مظاہرین کو گاڑی کے قریب آنے سے روک دیا۔ سیلاب متاثرین کے مشتعل ہونے پر منظور وسان کو مظاہرین کا حصار توڑ کر گاڑی کی طرف دوڑ کر نکلنا پڑا، اس دوران متاثرین پی پی رہنما کی گاڑی کے پیچھے دوڑتے اور نعرے لگاتے رہے۔ متاثرین نے الزام لگایا کہ فلڈ ریلیف فوکل پرسن منظور وسان نے فیض گنج کے عوام کو نظر انداز کیا۔

اس طرح مریم نواز نے بھی سیلاب زدہ علاقے کا دورہ کیا لیکن اس کے بعد ایک خاتون کی ویڈیو سامنے آئی جو بری طرح سے مریم نواز کے خلاف پھٹ پڑیں اور کہا کہ ہم کرائے بھر کے آئے، بھوکے پیاسے بچوں کے ساتھ 10 بجے سے بیٹھے رہے،مریم نواز صرف مجھ سے گلے ملی،ہاتھ پھیرا اور چلی گئی،کسی امداد کا اعلان نہیں کیا۔جب خاتون کی ویڈیو منظرِعام پر آئی تو فورا ان تک امداد پہنچانے کا انتظام کیا گیا اور ایک ویڈیو بیان بھی دلوایا گیا۔

وزیراعظم شہباز شریف بھی روزانہ کی بنیادوں پر سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کر تےرہے تاہم انہیں بھی محض فوٹو سیشن کرانے کے الزام کا سامنا ہے۔وزیراعظم کو ہیلی کاپٹر سے امداد پھینکنے پر اور متاثرین سے دور کھڑے ہو کر مسائل حل کرنے اور تقریر کرنے پر بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

اگر بات کریں بلوچستان کی تو وہاں بھی فلاحی سرگرمیاں جاری ہیں تاہم ایک ویڈیو سامنے آئی تھی جس میں متاثرین کے لئے ہیلی کاپٹر سے راشن پھینکتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا،متاثرین نے کہا کہ اس طرح کی امداد ہمارے کسی کام کی نہیں کیونکہ ہیلی کاپٹر سے کچھ بھی پھینکا جائے تو پیکٹ یا شاپر پھٹ جاتے ہیں اور سامان ضائع ہو جاتا ہے۔بحرحال سیلاب کے دوران ہمیں بے پناہ ایسے مناظر دیکھنے کو ملے جس سےدیکھ کر واضح تھا کہ بے بس لوگوں کی کس طرح تذلیل کی جا رہی ہے۔

پاکستان کو وجود میں 75 سال ہونے کو آئے ہیں لیکن کسی بھی سیاسی جماعت نے اس ملک کو اپنا نہیں سمجھا اگر اس ملک اور یہاں رہنے والے لوگوں سے محبت ہوتی تو پاکستان کی اتنی خوفناک صورتحال نہ ہوتی۔ اقتدار کی ہوس نے ان کو اتنا بے حس کر دیا ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے ٹیلی تھون کر کےمیڈیا چینلز کے ذریعے بیرونِ ممالک رہنے والے پاکستانیوں سے امداد کی اپیل کی اور 3 گھنٹے کے دوران 5 ارب سے زائد رقم اکھٹی کر لی لیکن موجودہ حکومت کو یہ بات اتنی ناگوار گزری کہ میڈیا چینلز پر عمران خان کو لائیو دکھانے پر پابندی لگا دی کہ مزید پیسہ اکھٹا نہ کر سکیں،کیونکہ یہ اقتدار کی ہوس میں اور عمران خان سے نفرت کی آگ میں اتنا آگے نکل چکے ہیں کہ متاثرہ لوگوں کے لیے آنے والی امداد میں رکاوٹ بن کر کھڑے ہو گئے ۔اس کی سب سے بڑی وجہ بھی یہ حکمران خود ہی ہیں کیونکہ پاکستان کی جو حالت ہے وہ ان کے ہی کارنامے ہیں۔موجودہ حکومت میں بیٹھے حکمران اربوں کی کرپشن میں ملوث ہیں اب صورتحال یہ ہے کہ لوگ ان پر یقین نہیں کرتے تبھی لوگوں نے ان کو امداد دینے سےصاف انکارکر دیااور سارا غصہّ عمران خان پر پابندی لگانے کی صورت میں نکالا کیونکہ پاکستانی عوام یا بیرونِ ممالک رہنے والے لوگ عمران خان پر ذیادہ یقین کرتے ہیں۔

حال ہی میں شازیہ مر ی جو کہ پیپلز پارٹی کی رہنما ہیں کا ایک بیان سامنے آیا ہے جس میں وہ خاتون یہ فرما رہی ہیں کہ جو امداد ہمیںاکھٹی ہوئی ہے ان اکائونٹس کو کچھ لوگوں نے ہیک کرنے کی کوشش کی ہے ان کے بیان سے تو کچھ اور ہی لگتا ہے ،کیونکہ پہلے بھی جب پاکستان زلزلے سے متاثر ہوا تھا تو بیرونِ ممالک نے دل کھول کر پاکستانی عوام کو امداد بھیجی جو متاثرہ افراد کو ملی ہی نہیں اور یہ بات پوری دنیا جانتی ہی کہ پاکستانی حکمران کیسے ہیں۔

جہاں سیاستدان فوٹو سیشن کو زیادہ اہمیت دیتے نظر آئے وہیں فلاحی تنظیموں اور پاک افواج نےامدادیسرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیااور متاثرین کی جانب سے ان کی تعریف بھی کی گئی۔لیکن بات واضح ہے کہ جس طرح حالیہ سیلاب میں انسانیت کی تذلیل کی گئی اسکی مثال نہیں ملتی۔پچاس پچاس کے نوٹ تقسیم کرکے لوگوں کی بے بسی کا مذاق بنایا گیا۔کتنے افسوس کی بات ہے یہ لوگ خود کو قوم کا مسیحاکہتے ہیں لیکن جب الیکشن کا وقت ہو تو یہی لوگ بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں اور جب یہی عوام ان پر بھروسہ کر کے ان کو اقتدار میں لا کھڑا کرتے ہیں تو پھر انہی لوگوں سے غافل ہو جاتے ہیں جیسے جانتے ہی نہیں،اپنے مفاد کی خاطر قوم کا استعمال کرتے ہیں ،اپنی جیبیں بھرتے ہیں اور بیرونِ ملک جا کر زندگیاں گزارتے ہیں۔

یقینا آنے والے الیکشن میں سیلاب متاثرین اس بات کو ذہن نشین رکھیں گے کہ مشکل وقت میں کون محض فوٹو سیشن کراتا رہا اور کون واقعی میں ان کی داد رسی کے لیے پہنچا۔
معیشہ اسلم،لاہور

 

Maisha Aslam
About the Author: Maisha Aslam Read More Articles by Maisha Aslam: 8 Articles with 4491 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.