آئیں مل کر تعمیر پاکستان میں حصہ لیں

محتاجوں،غریبوں ، یتیموں اور ضرورت مندوں کی مدد، معاونت ، حاجت روائی اور دلجوئی کرنا دین اسلام کا بنیادی درس ہے۔ دوسروں کی مدد کرنے،ان کے ساتھ تعاون کرنے، ان کے لیے روزمرہ کی ضرورت کی اشیاء فراہم کرنے کو دین اسلام نے کار ثواب اور اپنے ربّ کو راضی کرنے کانسخہ بتایاہے۔ خالق کائنات اﷲ ربّ العزت نے امیروں کو اپنے مال میں سے غریبوں کو دینے کا حکم دیا ہے ، صاحب استطاعت پر واجب ہے کہ وہ مستحقین کی اپنی استطاعت کے مطابق مددکرے۔ قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ نیکی صرف یہی نہیں کہ آپ لوگ اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لیں بلکہ اصل نیکی تو اس شخص کی ہے جو اﷲ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (آسمانی) کتابوں پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے،اور مال سے محبت کے باوجود اسے قرابت داروں ،یتیموں،محتاجوں، مسافروں، سوال کرنے والوں، اور غلاموں کی آزادی پر خرچ کرے۔یہ وہ لوگ ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور جب کوئی وعدہ کریں تو اسے پورا کرتے ہیں۔ سختی، مصیبت اور جہاد کے وقت صبر کرتے ہیں۔ یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں۔(سورۃ البقرۃآیت177)، قرآن حکیم کی سورۃ البقرہ ہی میں ارشاد ہے’’ (لوگ) آپ صلی اﷲ علیہ و سلم سے پوچھتے ہیں کہ (اﷲ کی راہ میں) کیا خرچ کریں۔ فرما دیجئے کہ جس قدر بھی مال خرچ کرو (درست ہے) مگر اس کے حق دار تمہارے ماں باپ ہیں اور قریبی رشتے دار ہیں اور یتیم ہیں اور محتاج ہیں اور مسافر ہیں اور جو نیکی بھی تم کرتے ہو، بے شک اﷲ اسے خوب جاننے والا ہے۔‘‘ ( سورۃ البقرہ آیت 215) سماجی بہبود کا بنیادی مقصد معاشرے کے محتاجوں، بے کسوں، معذوروں، بیماروں، بیواوؤں، یتیموں اور بے سہارا افراد کی دیکھ بھال اور ان کی فلاح وبہبود ہے۔یہ مقصد اسی صورت میں حاصل ہوسکتا ہے جب ایسے لوگوں کی ضرورت اور معذوری کا خاتمہ کرکے معاشرے میں دولت وضرورت کے درمیان توازن پیدا کیا جائے۔جو لوگ معاشرے سے غربت وافلاس اور ضرورت واحتیاج دور کرنے کے لئے اپنا مال ودولت خرچ کرتے ہیں، اﷲ تعالیٰ ان کے خرچ کو اپنے ذمے قرض حسنہ قرار دیتے ہیں۔ ساتھ ہی اس بات کی بھی ضمانت دیتے ہیں کہ اﷲ کی راہ میں خرچ کیئے گئے مال کو کئی گنا بڑھاکردیاجائے گا۔ دوسروں کی مدد کرنا ان کی ضروریات کو پورا کرنا اﷲ تعالیٰ کے نزدیک نہایت پسندیدہ عمل ہے۔دین اسلام سراسرخیر خواہی کا مذہب ہے، دوسروں کی خیر خواہی اور مدد کرکے حقیقی خوشی اور راحت حاصل ہوتی ہے جو اطمنان قلب کے ساتھ ساتھ رضائے الٰہی کا باعث بنتی ہے۔ محسن انسانیت نبی کریم محمد صلی اﷲ علیہ و سلم نے نہ صرف حاجت مندوں کی حاجت روائی کرنے کا حکم دیا بلکہ عملی طور پر آپ صلی اﷲ علیہ و سلم خود بھی ہمیشہ غریبوں ،یتیموں، مسکینوں اور ضرورتمندوں کی مدد کرتے۔

حالیہ سیلابی صورت حال سے ہمارا وطن عزیزبہت مشکل سے دو چار ہے۔ صاحب حیثیت لوگ آج کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں،غریب ونادار لوگ پہلے سے زیادہ پریشانیوں میں مبتلا ہیں۔ان کے لیے دو وقت کی روٹی کھانا بہت مشکل ہے وہ اپنے گرے ہوئے مکانوں کی تعمیر کہاں کر سکتے ہیں؟ کئی دنوں سے کھڑے سیلابی پانی سے بیماریاں پھوٹ رہی ہیں۔ اپنے عزیزوں ، جانوروں اور فصلوں کی قربانیوں کے بعد اب بچے کھچے سیلاب سے متاثرہ ہمارے مسلمانوں بھائیوں کو اپنی جانیں بچانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔
ہمارے بھائی اپنے تباہ حال گھروں کے ملبوں پر اپنی زندگی کے کٹھن مراحل طے کر رہے ہیں۔سیلابی پانی نے پکے مکانوں کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ غریبوں،یتیموں کے کچے مکانات کا نام ونشان نہیں رہا،مون سون کی شدید بارشوں سے آنے والے تباہ کن سیلاب سے 528 بچوں سمیت 1500 سے زائد افراد کی وفات ہوئی اور تقریباً ایک کروڑ ساٹھ لاکھ بچے متاثر ہوئے ہیں۔سیلابی علاقوں میں کئی روز سے پانی کھڑے رہنے کی وجہ سے مچھروں نے ڈیرے ڈال دیئے ہیں جس سے وبائی بیماریوں میں روز بروز مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔سیلابی پانی مچھروں کی افزائش کا سبب بن رہا ہے، جس سے ملیریا اور ڈینگی پھیل رہے ہیں، ہسپتالوں میں مریضوں کی آمد میں اس قدر اضافہ ہوا ہے کہ مریضوں کو سنبھالنا اب ڈاکٹروں اور دستیاب طبی عملے کے لیے بہت دشوار ہو چکا ہے۔ہر او پی ڈی میں پانچ سے آٹھ ہزار تک مریضوں کی تعدادبڑھ گئی ہے۔ ’ٹیسٹنگ میں 50 فیصد ملیریا ہے اور ایک ایک ڈاکٹر ہزار ہزار مریض دیکھ رہا ہے،بیماریوں میں گیسٹرو، ٹائیفائیڈ، جلدی امراض اور ملیریا عام ہے بلکہ ملیریا تو چیلنج بن چکا ہے۔ اس غم کی گھڑی میں الکہف تعمیر پاکستا ن کا دست وبازو بنیں آئیں ! ملکر سیلاب متاثرین بھائیوں کے مکانات کو نئے سرے سے تعمیر کریں۔ الکہف ایجوکیشنل ٹرسٹ کی ٹیم ملک کے چاروں صوبوں کے سیلاب متاثرین کیلیے کام کر رہی ہے۔جن میں ڈیرہ غازی خان، تونسہ شریف، راجن پور، فاضل پور، روجھان جبکہ بلوچستان میں نصیرآباد، جعفرآباد، الٰہ یار جھٹ پٹ، اوستہ محمد، گنداخہ، کو ٹ بابا وغیرہ اورسندھ میں سکھر، ہالانی، خیرپور، شکار پور، کندھ کوٹ، جیکب آباد، تھل گوٹھ، شہداد کوٹ، نواب شاہ، قاضی احمد آباد، لاڑکانہ وغیرہ اورصوبہ خیبر پختون خواہ میں ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے شامل ہیں۔متاثرین سیلاب میں راشن، خیمے، دریاں، چٹائیاں، مچھر دانیاں، کپڑے، ادویات، پینے کا صاف پانی اور دیگر ضروریاتِ زندگی کی تقسیم جاری ہے۔الکہف نے سیلاب متاثرین کو اس وقت تک 7ہزار سے زائد راشن پیکج اور 2000 خیمے دئیے۔12 سے زائد میڈیکل کیمپ بھی لگائے گئے جن میں اب تک8000 سے زائد متاثرین کا علاج ہوا ہے۔ سینکڑوں خاندانوں کو پکا پکایا راشن روزانہ کی بنیاد پر اب بھی پہنچایا جا رہا ہے۔ ڈیرہ غازی خان اور تونسہ میں صاف پانی کی فراہمی کے لیے آر اوپلانٹ لگا دیا گیا ہے جبکہ دیگر علاقوں کے لیے ورکنگ جاری ہیاس پروگرام کو منظم انداز میں سرانجام دینے کیلیے 5 عدد ریلیف سینٹرز (ڈیرہ غازی خان، تونسہ شریف، سکھر، لاڑکانہ اور کوہستان) میں قائم کیے گئے ہیں۔ اب تک سیلاب متاثرین کو 6 کروڑ روپے سے زائد رقم اور ساز و سامان دیا جا چکا ہے۔’’الکہف تعمیر پاکستان‘‘ پروگرام کے تحت 300 گھروں کی تعمیرو مرمت کا منصوبہ بنایا گیا ہے تاہم سردست 5 گھروں کی تعمیر شروع ہو چکی ہے۔جنوبی پنجاب تونسہ شریف کی دوانی نامی بستی میں الحمدﷲ !پانچ گھر تکمیل کے ا?خری مراحل میں چند دن تک انشاء اﷲ ان گھروں کی چابیاں متاثرہ مالکان کے حوالے کر دی جائیں گی۔ ان کی گھروں کی تعمیری لاگت تقریبا بیس لاکھ روپے ہے۔اس کے علاوہ سندھ کے مختلف اضلاع لاڑکانہ، کمبر،شہدادکوٹ،سکھر، کشموراورجیکب آباد بلوچستان میں جعفرآباد ،نصیرآباد اور صحبت پورکے مختلف علاقوں میں پینتالیس مکانات کی تعمیر کے لیے سروے کرلیا گیا ہے جلدی ہی ان دونوں صوبوں میں اٹھارہ گھروں کی تعمیر کا کام شروع کردیا جائے گا۔ مزید علاقوں کا سروے جاری ہے سروے مکمل ہوتے ہی وہاں پر بھی تعمیر کا کام شروع کردیا جائے گا۔آج نیا گھر تعمیر کرنا بہت آسان ہے لیکن سیلاب سے تباہ حال گھر کو دوبارہ کھڑا کرنا بہت مشکل کام ہے۔ پہلاکام تو یہ مشکل ہے کہ اس گھر کا تخمینہ کیسے لگایا جائے ؟ اس کے لیے الکہف کی ٹیمیں شب وروز متاثرہ علاقوں میں سروے کررہی ہیں۔اسی سروے کے دوران مستحقین لوگوں سے ’’ الکہف تعمیر پاکستان‘‘ فارم پر کروائے جارہے ہیں۔ اس فارم کے اوپر نقصانات کی پوری تفصیل درج کی گئی ہے۔ متعلقعہ افراد کے ذرائع ا?مدن بھی لکھوائے جاتے ہیں۔ یہ فارم الکہف ہیڈ آفس میں جمع کیے جاتے ہیں۔الکہف کی اعلی سطحی جائزہ ٹیم ان فارمز کا بغور جائزہ لیتی ہے۔ اس مرحلے کے بعد ان افراد کی مزید تحقیق کی جاتی ہے۔ تحقیق کے سب مراحل کے بعد گھر کی تعمیر کا کام شروع کردیا جاتا ہے۔ گھروں کی تعمیر میں یتیموں ، بیواؤں ، علماء ، مدارس اور مساجد کو ترجیحی بنیادوں پر کام شروع کیا جائے گا۔ ہر پاکستانی تعمیر پاکستان کے لیے سیلاب متاثرین کی بحالی میں گھروں کی تعمیر میں اپنا حصہ ضرور ڈالے۔ اگر کوئی صاحب حیثیت ایک گھر تعمیر کرواسکتا ہے تو وہ ایک گھر بنوا دیں اگر کوئی ایک دیوار تعمیر کرواسکتا ہے تو وہ ایک دیوار ہی بنوادیں۔ زیادہ وسعت نہیں تو کم از کم اپنے حصے کی ایک اینٹ ضرور لگوائیں۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ ہربندہ دوکاموں میں سے ایک کام ضرور کرے۔ پہلا کام یہ کہ اپنی ماہانہ تنخواہ میں سے کچھ حصہ سیلاب متاثرین کے لیے الکہف تعمیر پاکستان میں ضرور جمع کروائے۔ دوسرا کام یہ کریں کہ ایک سال کے لیے فضول خرچیاں بند کردیں۔ آج ہم فضول خرچیوں میں بہت زیادہ رقم ضائع کر رہے ہیں۔ خصوصاً ہم شادی بیاہ کو سادگی پر لے آئیں اور رقم بچاکر سیلاب سے متاثر بھائیوں کا تعاون کریں۔ رات کو ہوٹلوں اور ریسٹورنٹ پر کھانے کے بجائے اپنے اپنے گھروں میں سادہ کھانے پکائیں اور رقم بچاکر تعمیر پاکستان پر لگائیں۔ اسلام ہمیں سادگی اور سادہ طرزِ زندگی کی نہ صرف ہدایت دیتا ہے بلکہ عملی نمونے کے طور پر اللّٰہ تعالٰی نے اپنے بے شمار نبی اور پیغمبر اس زمین پر اتارے جنہوں نے سادہ زندگی اپنا کر ہمارے لئے بہترین مثالیں پیش کی ہیں ، آج کے اس نفسانفسی کے دور میں ہم خود اپنے دشمن بن گئے ہیں ، ہم نے اپنی زندگی کو خود مشکل میں ڈال رکھا ہے اور اس کا سہرا ہماری سوچ’ رہن و سہن اور عادات و اطوار کو جاتا ہے ، ہماری خواہشات دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہیں ہم عیش و آرائیش کے عادی ہوتے جارہے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے دین اور دین کی بتائی ہوئی باتوں کو فراموش کر بیٹھے ہیں جس کی وجہ سے آج ہم بے سکونی کا شکار ہیں ، ہم جس قدر حاصل کر لیتے ہیں اس سے زیادہ کی تمنا میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔ اﷲ کا شکر ادا کرنے کی بجائے ہم نا شکری کرتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ کی چاہ میں خود کو ہلکان کرتے ہیں، یہ زندگی عارضی ہے لیکن ہم اسی کے مرض میں مبتلا ہیں جو ابدی زندگی ہے جس کو زوال حاصل نہیں اس کو فراموش کر کے سامان زندگی اکٹھا کرنے اور ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے چکر میں اپنے رب اور اس کے احکامات کو بھلا بیٹھے ہیں ، سورۃ النسا میں بیان کیا گیا ہے جس میں اس (شیطان ) نے کہا تھا کہ "میں تیرے بندوں سے ایک حصہ لے کر رہوں گا اور میں ان کو آرزؤں اور تمناؤں میں الجھا کر رکھ دوں گا ۔’’ہمارے پیارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی ہمارے لئے نمونہ ہے جن کے لئے یہ پوری کائنات تخلیق کی گئی لیکن انھوں نے اپنی تمام زندگی انتہائی سادگی سے گزاری دی ، آپ ﷺکھانے میں جو سامنے آتا تناول فرما لیتے’ زمین پر چٹائی پر سو جاتے’ جہاں جگہ ملتی وہاں بیٹھ جاتے ،ہم اپنے پیارے نبیﷺ سے محبت کے داویدار تو ضرور ہیں لیکن ان کی ہدایات پر عمل نہیں کرتے ، ان کی زندگی جو ہمارے لئے ہدایت کا سرچشمہ ہے اس کو نظر انداز کر دیتے ہیں ،ہمیں چاہئیے کہ سادگی کو اپنا کر اپنی زندگی کو آسان بنائیں تاکہ اللّٰہ تعالٰی کی عطا کردہ نعمتوں سے فائدہ اٹھا کر نہ صرف خوش رہ سکیں بلکہ پرسکون زندگی کا مزہ بھی لے سکیں ، سادہ غذا کھائیں تاکہ بے شمار بیماریوں سے بچ سکیں ،ہم اپنی روزمرہ کی خوراک میں سادگی کو اپنا کر صحت کے اصولوں پر چل سکتے ہیں، مرغن اور مرچ مصالحوں والے باہر کے کھانوں سے پرہیز میں ہی صحت مند زندگی کا راز پنہا ہے ،سادہ لباس پہنیں اور مہنگے ملبوسات’ہینڈ بیگز’ جوتے’موبائل’ گاڑی’ گھڑی ‘جیولری اور اس جیسی کئی مہنگی چیزوں کے استعمال سے بچیں تاکہ زندگی میں پچھتاوے نہ ہوں بلکہ ساتھ لے کر جانے کے لئے اچھے اعمال ہوں ،خدانخواستہ اگر سیلاب متاثرین کی بحالی پر ہم نے کام نہ کیا تو اس کا خمیازہ پورے پاکستان کی عوام کو بھگتنا پڑے گا۔ آپ اپناایک سال اپنے سیلاب متاثرین بھائیوں کے لیے وقف کریں یہ ہمارا دینی اور اخلاقی فریضہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ متاثرہ علاقوں میں مساجد،مدارس ، گھروں کی تعمیر اور دینی و عصری تعلیم کے لیے مکاتب کا قیام ، صاف پانی کے لیے آر او پلانٹ، ہمارے مستقبل کے منصوبوں میں شامل ہے۔
 

Hafiz Muhammad Ibrahim
About the Author: Hafiz Muhammad Ibrahim Read More Articles by Hafiz Muhammad Ibrahim: 13 Articles with 12375 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.