غیرت کی فائرنگ: قانون کی لاش پر کھڑی قبائلی عدالت

ایک ایسا ظلم جس نے صرف دو جانیں نہیں لیں، بلکہ انصاف، آئین اور انسانی حقوق کو بھی خون میں نہلا دیا۔
بلوچستان میں پسند کی شادی کرنے والے جوڑے کو قبائلی غیرت کے نام پر گولیوں سے بھون دیا گیا۔ شیتل کے ہاتھ میں قرآن تھا، اور سامنے بندوقیں۔
یہ کالم صرف ایک سانحے کی روداد نہیں، بلکہ ہمارے معاشرے کے اجتماعی ضمیر پر ایک سوال ہے:
کیا محبت جرم ہے؟
کیا عورت کا فیصلہ کرنا ناقابلِ معافی ہے؟
کیا بندوقیں قانون سے زیادہ طاقتور ہو چکی ہیں؟

پڑھیے یہ کالم — جو آئین، شریعت، انسانی وقار، اور ریاستی غفلت پر ایک تلخ مگر ضروری مکالمہ ہے۔
غیرت کی فائرنگ: قانون کی لاش پر کھڑی قبائلی عدالت

تحریر: ضیاء خان نیازی

شیتل کے ہاتھ میں قرآن تھا، اور اس کے سامنے بندوقیں تھیں۔ قرآن کو تھامنے والی انگلیوں میں نہ کوئی لرزش تھی، نہ التجا، اور نہ ہی رحم کی امید۔ جیسے وہ جانتی ہو کہ اس کے نصیب میں اب زندگی نہیں، صرف گولیاں لکھی جا چکی ہیں۔ ڈیڑھ سال قبل اس نے زرک کے ساتھ پسند کی شادی کی تھی۔ ایک نکاح، جس کی بنیاد محبت اور رضا پر تھی، جو اسلام کا عین تقاضا ہے، مگر انہی دو لفظوں نے اس کی قبر کھود دی۔

بلوچستان کے ایک قبیلے نے دونوں کو دعوت پر بلایا۔ دکھاوے کی مسکراہٹوں کے ساتھ سجی ایک ایسی دعوت جہاں کھانے کی نہیں، بلکہ خون کی دیگ پکی تھی۔ انہیں گاڑیوں کے ایک قافلے میں لا کر چٹیل میدان میں اتارا گیا، جہاں 19 غیرت مند مرد پہلے سے موجود تھے، ان میں سے پانچ کے ہاتھوں میں جدید خودکار ہتھیار تھے۔ مگر اصل ہتھیار بندوقیں نہیں تھیں، وہ سوچ تھی جس نے لڑکی کے فیصلے کو جرم سمجھا۔ یہ وہی سوچ ہے جو آج بھی پاکستان کے گاؤں، قصبوں اور شہروں میں عورت کے اختیار کو بغاوت سمجھتی ہے۔

شیتل نے سامنے آ کر کہا، ’’صرف گولی مارنے کی اجازت ہے‘‘۔ مگر اجازت کون مانگتا ہے؟ یہاں تو فیصلے وہ کرتے ہیں جو خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ وہ خود آگے بڑھی، شاید اس لیے کہ وہ جانتی تھی، مزاحمت سے کچھ نہیں بدلے گا۔ اس کے قدم نہیں کانپے، آنکھوں میں آنسو نہیں آئے، چیخ کی آواز نہ نکلی، صرف ایک گہری خاموشی تھی — ایسی خاموشی جو آج ہزاروں چیخوں پر بھاری ہے۔ پھر ایک گولی نہیں، نو گولیاں چلیں۔ اور پھر زرک کی باری آئی، اسے دوگنا مارا گیا۔

یہ واقعہ سوشل میڈیا پر ہر طرف موجود ہے، ویڈیوز، چیخیں، خون، بندوقیں، اور عوام کی بے بسی۔ جو لوگ اس ظلم کو دیکھ رہے ہیں، ان میں سے اکثر یا تو خاموش ہیں یا دل ہی دل میں اسے جائز سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہی اصل جرم ہے۔ یہی وہ خاموشی ہے جو قاتلوں کو تحفظ دیتی ہے۔ یہی وہ بے حسی ہے جو غیرت کو قانون سے طاقتور بنا دیتی ہے۔

پاکستان کا آئین کہتا ہے کہ ہر شہری کو زندگی کا حق حاصل ہے۔ پینل کوڈ کی دفعہ 302 قتل کو ناقابل معافی جرم قرار دیتی ہے، اور سپریم کورٹ کئی بار غیرت کے نام پر قتل کو قتلِ عمد قرار دے چکی ہے۔ تو پھر یہ قتل کیوں ہوا؟ یہ بندوق کیوں چلیں؟ یہ کیمرہ کس نے آن کیا؟ یہ ویڈیو کیوں وائرل ہوئی؟ اور سب سے بڑھ کر، یہ قاتل ابھی تک آزاد کیوں ہیں؟

انسانی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے، جن پر پاکستان نے دستخط کیے ہیں، عورتوں کو تحفظ دیتے ہیں، آزادی دیتے ہیں، انصاف کا وعدہ کرتے ہیں۔ مگر شیتل کی خون میں لت پت لاش ان وعدوں پر ہنستی ہے۔ زرک کی گولیوں سے چھنی ہوئی سانسیں ان قوانین کو بے معنی قرار دیتی ہیں۔ اور وہ ویڈیو — وہ جیسے ہم سب کے ضمیر پر تھپڑ ہے، جو ہمیں جگانے کے بجائے مزید بے حس کر رہی ہے۔

غیرت کے نام پر قتل اب صرف ایک جرم نہیں رہا، یہ ایک سماجی اجازت نامہ بن چکا ہے۔ راضی نامے کے کاغذوں پر قاتل بری ہو جاتے ہیں، ماں باپ معاف کر دیتے ہیں، اور ریاست خاموشی سے کھڑی رہتی ہے۔ کسی تھانے میں ایف آئی آر نہیں کٹتی، کوئی عدالت از خود نوٹس نہیں لیتی، اور کوئی اسمبلی اس ظلم پر قرارداد نہیں لاتی۔

شیتل نے صرف محبت کی، نکاح کیا، اپنے حقِ انتخاب کو استعمال کیا۔ کیا یہ اس کی سزا تھی؟ کیا عورت کا اپنے لیے فیصلہ کرنا اتنا بڑا جرم ہے کہ اسے زندہ درگور کر دیا جائے؟ ہم اس معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں بیٹیاں جیتی نہیں، فقط خاموشی سے قتل ہوتی ہیں — اور ہر بار پگڑیاں جیت جاتی ہیں۔

اب ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کیا ہم صرف یہ وڈیو دیکھ کر افسوس کا اظہار کریں گے؟ اگلے واقعے کا انتظار کریں گے؟ یا واقعی یہ سوال اٹھائیں گے کہ آئین اور بندوق میں سے بالادست کیا ہے؟ غیرت یا قانون؟ شریعت یا قبائلی فیصلہ؟

سچ تو یہ ہے کہ آج ہم نے ایک بار پھر شریعت کا نام لے کر ظلم کو تقویت دی، آئین کو روند ڈالا، اور قانون کو تماشہ بنا دیا۔ اور شاید کل کسی اور شیتل کو مار دیا جائے گا، کسی اور زرک کو بھی — کیونکہ ہمارے معاشرے میں انصاف صرف وہی ہے جو بندوق کے دہانے سے نکلتا ہے۔

 

Zia Ullah Khan
About the Author: Zia Ullah Khan Read More Articles by Zia Ullah Khan: 57 Articles with 58201 views https://www.facebook.com/ziaeqalam1
[email protected]
www.twitter.com/ziaeqalam
www.instagram.com/ziaeqalam
ziaeqalam.blogspot.com
.. View More