پاکستان میں شخصیت پسندی: فکری غلامی کا ناسور اور قومی زوال

شخصیت پسندی

پاکستان کی سیاسی، سماجی اور مذہبی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ایک ایسا رجحان بارہا ابھرتا دکھائی دیتا ہے جو بظاہر عقیدت، محبت یا وفاداری کا اظہار لگتا ہے، مگر درحقیقت یہ ایک خطرناک ذہنی غلامی کی علامت ہے۔ اور یہ رجحان ہے، "شخصیت پسندی" یا "قائد پرستی"۔ ہماری قومی زندگی کے ہر پہلو پر اس کے گہرے اثرات نظر آتے ہیں، چاہے وہ سیاست ہو، مذہب ہو یا سماجی شعور۔ آج پاکستان جن مسائل میں جکڑا ہوا ہے، ان میں ایک بڑا سبب یہی ذہنیت ہے، جس میں ادارے، اصول اور نظریات ایک فرد کے سامنے بے معنی ہو جاتے ہیں۔ ایک ایسا سماجی مرض جو فردِ واحد کو دیوتا بنا دیتا ہے اور باقی سب کو پجاری، جن کے لب خاموش، عقل مقید اور ضمیر مفلوج نظر آتا ہے۔

اس ذہنیت کی ابتدا اس وقت ہوتی ہے جب ہم کسی شخصیت کو اصولوں، آئین، اور اداروں سے برتر مان لیتے ہیں۔ اس پر تنقید کو گستاخی اور سوال کو بغاوت سمجھا جاتا ہے۔ جب کسی لیڈر کے ہر قول کو حرفِ آخر مان لیا جائے، اور اختلاف کرنے والے کو دشمن، ایجنٹ یا کافر قرار دیا جائے، تو سمجھ لیجیے کہ ہم جمہوریت سے ہٹ کر بت پرستی کی راہ پر گامزن ہو چکے ہیں۔ سیاست میں یہ رجحان پارلیمانی نظام کو کمزور کرتا ہے۔ قانون سازی یا پالیسی سازی کی بجائے صرف اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ "قائد نے کیا کہا؟"۔ سیاسی جماعتیں اداروں کے بجائے خاندانی جاگیریں بن جاتی ہیں، جہاں قیادت نسل در نسل منتقل ہوتی ہے، اور وفاداری کا معیار اصولوں کی بجائے چہرے بن جاتے ہیں۔

ایسا معاشرہ کسی بھی قسم کی علمی، سیاسی یا مذہبی گفتگو کے قابل نہیں رہتا۔ اختلاف کو سننے، سمجھنے اور قبول کرنے کی روایت دم توڑ جاتی ہے۔ بحث و مباحثے کی جگہ دشنام طرازی، ذاتی حملے، اور نفرت انگیز بیانیے لے لیتے ہیں۔ یہ عمل نہ صرف جمہوری اقدار کا گلا گھونٹتا ہے بلکہ سیاسی انتہاپسندی کو بھی جنم دیتا ہے۔ سیاسی کارکن دلیل سے زیادہ نعرہ بازی میں دلچسپی لیتے ہیں، اور قیادت کے حق میں یا مخالفین کے خلاف سوشل میڈیا پر مہمیں چلاتے ہیں جن کا مقصد مکالمہ نہیں، بلکہ صرف فتح یا شکست کا اعلان ہوتا ہے۔

تعلیم جیسے شعبے بھی اس ذہنی جمود سے محفوظ نہیں رہتے۔ جب کسی قوم کی درسگاہوں میں تنقیدی سوچ کو خطرہ سمجھا جائے اور سوال اٹھانے والے طلبہ کو سزا دی جائے، تو وہ نسل محض اطاعت گزار بنتی ہے، تخلیق کار نہیں۔ ہمارے نوجوانوں کو نصاب میں دی گئی شخصیات کی عظمت ازبر کرائی جاتی ہے، مگر یہ نہیں سکھایا جاتا کہ ان کے فیصلوں کا تجزیہ کیسے کرنا ہے۔ قومیں اس وقت ترقی کرتی ہیں جب ان کے نوجوان عقل کو رہنما بناتے ہیں، مگر شخصیت پرستی اس عقل کو بیڑیوں میں جکڑ دیتی ہے۔

مذہبی سطح پر یہ رجحان اور بھی زیادہ مہلک ثابت ہوتا ہے۔ جب مذہبی رہنما یا پیشوا کو وحی کی مانند بلند کر دیا جائے اور اس کی ہر بات کو "حق مطلق" سمجھا جائے، تو عام انسان دین کے اصل سرچشموں یعنی قرآن و سنت سے کٹ کر ایک مخصوص شخصیت کے تابع ہو جاتا ہے۔ دین کا وہ پیغام جو اخلاص، انکساری، تحقیق اور توازن پر مبنی تھا، شخصیت پرستی کے باعث تعصب، تنگ نظری اور فرقہ واریت میں بدل جاتا ہے۔ ہر مکتبِ فکر اپنے رہنما کو معصوم عن الخطا مانتا ہے اور دوسروں کو گمراہ قرار دیتا ہے۔ اس تقسیم نے معاشرے کو فکری بانجھ پن اور مذہبی شدت پسندی کی طرف دھکیل دیا ہے، جس کے مظاہر ہمیں آئے روز عبادت گاہوں، جلسوں، یا سوشل میڈیا پر دیکھنے کو ملتے ہیں۔

معاشرتی سطح پر شخصیت پرستی کا اثر اور بھی پیچیدہ اور خطرناک ہے۔ جب کوئی قوم افراد کے گرد گروہ بند ہو جائے، اور انصاف، سچ، اصول اور قانون کی بجائے چہرے پہچانے جائیں، تو وہ معاشرہ اندر سے ٹوٹنے لگتا ہے۔ اس طرح کی تقسیم معاشرے کو کمزور کرتی ہے، اور اس کا نتیجہ ہم آہنگی کے خاتمے، طبقاتی خلیج کے اضافے، اور نفسیاتی تناؤ کی صورت میں نکلتا ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو سیاسی یا مذہبی وابستگی کی بنیاد پر پرکھتے ہیں، اور یوں قومی یکجہتی پارہ پارہ ہو جاتی ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اس ذہنیت کو فروغ دینے میں مختلف طبقات کا ہاتھ رہا ہے۔ سیاسی رہنماؤں نے اپنی جماعتوں کو ذاتی برانڈ بنا دیا، میڈیا نے ان کی شخصیتوں کو مسیحا کے طور پر پیش کیا، اور مذہبی طبقات نے اپنے مریدین کو عقل کی بجائے عقیدت پر تربیت دی۔ حتیٰ کہ عام آدمی بھی اپنی سیاسی یا مذہبی پسندیدہ شخصیت کو "سب کچھ" ماننے لگا۔ یہ سب کچھ رفتہ رفتہ ہمارے اجتماعی شعور کا حصہ بنتا گیا اور آج ہم اس موڑ پر کھڑے ہیں جہاں قوم شخصیات کی لڑائی میں بٹی ہوئی ہے اور ریاست اصولوں کی بھینٹ چڑھ چکی ہے۔

اگر ہم اس رجحان کو نہ روکا تو وہ دن دور نہیں جب ہر جانب صرف چند چہروں کے بت ہوں گے اور قوم کے ہاتھ میں صرف تالیاں۔ شخصیت پرستی دراصل فکری غلامی کی سب سے خطرناک شکل ہے، جو نہ صرف فرد کو بے بس کرتی ہے بلکہ قوم کو نابود۔ اس کے تدارک کے لیے ضروری ہے کہ ہم تعلیم میں تنقیدی سوچ کو فروغ دیں، اداروں کو افراد کی گرفت سے آزاد کریں، سیاسی جماعتوں کو اندرونی جمہوریت کی طرف لے کر جائیں، مذہبی فکر کو تحقیق اور بین المسالک ہم آہنگی سے جوڑیں، اور سب سے بڑھ کر میڈیا کو اس بات کا پابند کریں کہ وہ فرد کے بجائے اصول، کارکردگی اور سچائی کو مرکزِ گفتگو بنائے۔

وقت آ چکا ہے کہ ہم شخصیت کے سحر سے باہر نکل کر اصولوں کے ساتھ وابستگی کو اپنائیں۔ یہ راستہ مشکل ضرور ہے مگر یہی وہ راہ ہے جو قوموں کو حقیقی معنوں میں باوقار، خودمختار اور مہذب بناتی ہے۔ بصورتِ دیگر، ہم صرف بتوں کی پرستش کرنے والی ایک منتشر قوم رہ جائیں گے، جسے تاریخ کبھی سنجیدگی سے نہیں لے گی۔
 

Mirza Abdul Aleem Baig
About the Author: Mirza Abdul Aleem Baig Read More Articles by Mirza Abdul Aleem Baig: 4 Articles with 1993 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.