ابھی حال ہی میں دانشورانہ املاک کی عالمی تنظیم نے سال
2022 کا گلوبل انوویشن انڈیکس جاری کیا ہے جس میں چین 11 ویں نمبر پر آ چکا
ہے جبکہ گزشتہ سال چین اس فہرست میں 12 ویں نمبر پر تھا۔ گلوبل انوویشن
انڈیکس میں سوئٹزرلینڈ، امریکہ، سویڈن، برطانیہ اور نیدرلینڈز ٹاپ پانچ
ممالک میں شامل ہیں۔دیکھا جائے تو فہرست میں شامل زیادہ تر ممالک ترقی
یافتہ ہیں جبکہ چین کا اس فہرست میں شامل ہونا ، ترقی پزیر ممالک کی ایک
بڑی کامیابی ہے۔ویسے بھی چین نے حالیہ برسوں میں خود کو دانشورانہ املاک کے
پاور ہاؤس میں تبدیل کرنے کی کوششیں کافی تیز کی ہیں جس کا اندازہ اس بات
سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ چین، جو ایک دہائی قبل 34 ویں نمبر پر تھا،
آج ٹاپ 10 میں داخل ہونے کے راستے پر ہے۔ یہ مسلسل کوششوں کا ہی نتیجہ ہے۔
یہ امر قابل زکر ہے کہ ایسا مسلسل 10ویں مرتبہ ہے جب چین نے 2013 کے بعد سے
گلوبل انوویشن انڈیکس میں اپنی درجہ بندی کو مستقل بہتر کیا ہے۔یہی وجہ ہے
کہ آج کی جدید دنیا میں چین انوویشن کا گلوبل لیڈر بھی کہلاتا ہے اور اس
کےنئے ترقیاتی تصور کا اولین مظہر بھی جدت طرازی ہی ہے۔
چینی حکومت دانشورانہ املاک کے حقوق کو نمایاں اہمیت دیتی ہے، اور نہایت
جامع انداز میں ایک اختراعی ماحولیاتی نظام تشکیل دیا جا رہا ہے۔ حالیہ
برسوں کے دوران ملک میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر سرمایہ کاری میں نمایاں
اضافہ کیا گیا ہے، اور روایتی اور ابھرتی ہوئی کمپنیوں کی برانڈ ویلیو میں
قلیل مدت میں اضافہ ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ چین میں جدت کا منظرنامہ بھی بدل
چکا ہے۔دوسری جانب عالمی سطح پر بھی صورتحال میں نمایاں بہتری آئی ہے اور
10 میں سے 7 دانشورانہ املاک کی درخواستیں اب ایشیا، افریقہ اور لاطینی
امریکہ سے آتی ہیں، جبکہ ایک دہائی قبل 10 میں سے یہ تعداد صرف پانچ تھی۔
عالمی تناظر میں چین جہاں معاشی اعتبار سے ایک مضبوط ترین قوت میں ڈھل چکا
ہے وہاں سائنس و ٹیکنالوجی اور اختراعی صلاحیتوں کے لحاظ سے بھی دنیا کی
تیزی سے ابھرتی ہوئی طاقت بن چکا ہے۔ صرف یہی نہیں کہ چین سائنسی اور
تکنیکی اختراع کے تیز رفتار راستے پر گامزن ہے بلکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے
تمام جدید شعبہ جات میں بھی پیش پیش ہے۔ زندگی کا کوئی بھی شعبہ اٹھا لیں
چین انوویشن کے لحاظ سے نمایاں ترین درجے پر فائز نظر آتا ہے۔اعداد و شمار
پر نگاہ دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ چین نے سوشلسٹ جدیدیت کی جانب اپنے نئے
سفر میں "جدت اور انوویشن" کی بنیادی حیثیت کو مضبوط کرنا جاری رکھا ہوا ہے
اور اسے پالیسی سازی کی حمایت بھی حاصل ہے۔
چین نے اپنے 14ویں پانچ سالہ منصوبے (2021 تا 2025) میں جدت کی اہمیت پر
زور دیا ہے، جس میں مصنوعی ذہانت، کوانٹم معلومات، انٹیگریٹڈ سرکٹس، زندگی
اور صحت، برین سائنس، ایرو اسپیس اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے دیگر شعبوں
میں متعدد اسٹریٹجک منصوبوں کا نفاذ شامل ہے ۔چین کے صدر شی جن پھنگ نے بھی
ملک کی مجموعی ترقی میں ہمیشہ جدت کے اہم کردار پر روشنی ڈالی ہے اور چین
کو سائنس و ٹیکنالوجی میں ایک مضبوط ملک بنانے اور سائنس ٹیکنالوجی میں خود
انحصاری کے حصول کے لیے تیز رفتار کوششوں پر زور دیا ہے۔دنیا نے دیکھا کہ
چین نے اعلیٰ صنعتوں بشمول بڑے مسافر بردار طیارے اور ہائی اسپیڈ ٹرین کی
صنعتوں میں تیزی سے ترقی سمیت مصنوعی ذہانت، ڈیجیٹل اکانومی، فائیو جی اور
الیکٹرک گاڑیوں سے متعلق صنعتوں کو مسلسل فروغ دیا ہے۔
چینی قیادت واضح کر چکی ہے کہ ایسے تمام لوگوں کو ہر ممکن وسائل اور مدد
فراہم کی جائے گی جو ملک کو سائنس و ٹیکنالوجی میں انوویشن کی جانب آگے
بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ چین ٹیکنالوجی کے
عمدہ استعمال سے معیشت کی ترقی کو بھی فروغ دے رہا ہے تاکہ سائنس ٹیکنالوجی
کے دور میں نئے مواقع سے احسن طور پر استفادہ کیا جا سکے۔دنیا نے یہ بھی
دیکھا کہ چین نے وبائی صورتحال میں کس بہتر انداز سے بگ ڈیٹا سمیت دیگر
ٹیکنالوجیز کی مدد سے جہاں وبا کی روک تھام و کنٹرول کو یقینی بنایا ہے
وہاں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے اہم کردار کو بھی آگے بڑھایا ہے تاکہ پوسٹ
کووڈ۔19 دور میں چین کی ترقی کو مزید خود کفیل اور با اختیار بنایا جا سکے۔
|