جسمِ آدم کی تٙخلیق اور جنسِ آدم کی تٙقسیم !!

#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورٙةُالقیٰمة ، اٰیت 31 تا 40 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اٙفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
برائے مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
فلا صدق
ولا صلٰی 31 و لٰکن
کذب و تولٰی 32 ثم ذھب
الٰی اھلہ یتمطٰی 33 اولٰی لک فاولٰی
34 ثم اولٰی لک فاولٰی 35 ایحسب الانسان
ان یترک سدی 36 الم یک نطفة من منی یمنٰی 37
ثم کان علقة فخلق فسوٰی 38 فجعل منہ الزوجین الذکر
والانثٰی 39 الیس ذٰلک بقادر علٰی ان یحیی الموتٰی 40
موت کے شکنجے میں آنے والا یہ وہی انسان تھا جس نے حق کی کبھی تصدیق نہیں کی تھی اور جس نے حق کی کبھی اتباع بھی نہیں کی تھی بلکہ اِس نے ہمیشہ حق کی تکذیب کی تھی اور ہمیشہ ہی حق سے رُو گردانی کی تھی ، اِس کے تکبر کا یہ عالٙم تھا کہ جب یہ اپنے گھر میں اپنی اِس اکڑ کے ساتھ داخل ہوتا تھا تو اِس کے اپنے گھر والوں کے دل بھی کہتے تھے خرابی ہو تیرے لیئے اور پھر اُس خرابی پر مزید خرابی ہو تیرے لیئے اِس لئے کہ اِس انسان نے یقین کر لیا تھا کہ ہم اِس کو اسی طرح آزاد چھوڑ دیں گے اور وہ اپنی اِس حقیقت کو بُھول گیا تھا کہ جب وہ پانی کی ایک حقیر بُوند کی صورت میں تھا تو ہم نے اُس کو پرورش کے لئے رحمِ مادر کے اُس مقامِ پرورش تک پُہنچایا تھا جس نے اُس کو محبت سے سمیٹ لیا تھا اور یہ اُس کی محبت سے سمٹ کر اُس میں پرورش پانے لگا تھا اور پھر ہم اُسی رحمِ مادر میں ہم نے اِس آدم زاد کے جسم کی تخلیق کے بعد اِس کی جنس کی تقسیم کی تھی تو پھر تُم خود سوچو کہ جس اللہ نے انسان کو ارتقائے حیات کے اِن ناقابلِ یقین مراحل سے گزار کر حیات کے اِس قابلِ یقین مقام تک پُہنچایا ہے تو اُس اللہ کے لیئے اِس انسان کو موت کے بعد زندہ کرنا کون سا ناقابلِ یقین کام ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کا یہ مضمون بھی اِس سُورت کے اُس پہلے مضمون کے ساتھ مُنسلک ہے جس پہلے مضمون میں موت کی آغوش میں جانے والے اُس مُتکبر انسان کا ذکر کیا گیا تھا جو اپنے اہلِ خانہ کو بِلبلاتا ہوا چھوڑ کر بِلبلاتا ہوا موت کی آغوش میں چلا گیا تھا اور اٙب اِس سُورت کے اِس دُوسرے مضمون میں اُس انسان کے بارے میں ہونے والے اُس پہلے سلسلہِ کلام کو موجُودہ مضمون کے موجُودہ سلسلہِ کلام کے ساتھ مُنسلک کر کے یہ بتایا جا رہا ہے کہ موت سے پہلے اُس انسان کے دینی و اخلاقی دیوالیہ پن کا یہ حال تھا کہ اُس نے کبھی بھی حق کی تصدیق نہیں کی تھی اور اُس نے کبھی حق کی اتباع بھی نہیں کی تھی بلکہ اُس نے ہمیشہ ہی حق کی تکذیب کی تھی اور اُس نے ہمیشہ ہی حق سے رُوگردانی کی تھی اور اُس کا مزاج بھی ایسا درشت تھا کہ اُس کے وہ اہلِ خانہ بھی اُس کی خرابی کی خواہش مند رہتے تھے جو اُس کو موت کی آغوش میں جاتا دیکھ کر اتنے ہی اٙفسردہ ہوئے تھے جتنا کہ وہ خود اپنی موت کو اپنی طرف آتا دیکھ کر آزردہ ہوا تھا ، قُرآن کے بیان کی ہوئی اِس دلیل و تمثیل سے معلوم ہوتا ہے کہ موت اِس عالٙمِ خلق میں واقع ہونے والا ایک ایسا سخت ترین حادثہ ہوتا ہے کہ جو مرنے والے انسان کے لئے ہی ایک تکلیف دہ تجربہ نہیں ہوتا بلکہ جینے والے انسانوں کے لیئے بھی ایک تکلیف دہ مشاہدہ ہوتا ہے وہ جیتے جی چاہے اُس کو کتنا ہی ناپسند ہی کیوں نہ کرتے ہوں لیکن اٰیاتِ بالا کے من جُملہ مفاہیم میں سے یہ ایک مفہوم ہے جس کا ہم نے ذکر کیا ہے اور جہاں تک اِس مضمون کے من جُملہ مقاصد کا تعلق ہے تو اُن میں سے بھی ہم اُس ایک مقصد پر گفتگو کریں گے جس مقصد کا اِس مضمون کی پہلی دو اٰیات میں ذکر ہوا ہے اِس لیئے کہ قُرآن کا یہ واحد مقام ہے جس مقام پر قُرآن نے صلٰوة کا مفہوم دو اور دو چار کی طرح واضح کر دیا ہے ، اِس اٙمر کی مُختصر تفصیل یہ کہ اِس سُورت کی پہلی دو اٰیات میں سے پہلی اٰیت میں جو پہلا صیغہ { صدق } لایا گیا ہے اُس کا معنٰی اُس اٙمرِ حق کی تصدیق کرنا ہوتا ہے جو اٙمرِ حق اللہ کی طرف سے اُس کے پاس آیا ہوتا ہے اور اِس صیغے کے متصل { صلٰی } کا جو دُوسرا صیغہ لایا گیا ہے اُس کا معنٰی اُس اٙمرِ حق کی اتباع کرنا ہوتا ہے جس اٙمرِ حق کی انسان نے تصدیق کی ہوتی ہے اور دُوسری اٰیت میں اِس صیغہِ { صدق } کے مقابلے میں { کذب } کا جو صیغہ لایا گیا ہے اُس کا معنٰی اُس اٙمرِ حق کی تکذیب کرنا ہوتا ہے جو اُس کے پاس آیا ہوتا ہے اور { صلٰی } کے مقابلے میں { تولٰی } کا جو صیغہ لایا گیا ہے اُس کا معنٰی اُس اٙمرِ حق کی اُس اتباع سے رُوگردانی کرنا ہوتا ہے جس اٙمرِ حق کی اتباع مطلوب ہوتی ہے اور قُرآن کے اِس مُفصل بیان سے یہ اٙمر یقین کے ساتھ معلوم ہو جاتا ہے کہ { صلٰی } کا معنٰی قُرآنی نظام کی اتباع ہے اور { تولٰی } کا معنٰی قُرآنی نظام کی عدمِ اتباع ہے ، صلٰوة کے اِس قانون کی مزید تفصیل یہ ہے کہ اہلِ عرب کے نزدیک صلٰی کا معنٰی کسی حیوان کا کسی حیوان کے اور کسی انسان کا کسی انسان کے پیچھے اِس طرح پر چلنا ہوتا ہے کہ وہ چلتے ہوئے اُس سے اتنا سُست رٙو بھی نہ ہو کہ وہ آگے جانے والے اُس جاندار کے نشانِ قدم پر اپنا قدم نہ رکھ سکے اور اتنا تیز رفتار بھی نہ ہو کہ وہ آگے جانے والے جاندار کے قدم سے ایک قدم بھی آگے بڑھ سکے اور اِس توجہ طلب عمل کو جاری رکھنے کے لیئے لازم ہوتا ہے کہ وہ انسان یا حیوان چلتے ہوئے اپنے اطراف پر نظر ڈالے بغیر اِس اٙمر پر اپنی پوری توجہ قائم رکھے کہ اُس نے اپنی اِس مقررہ رفتار کے ساتھ اُس جاندار کے پیچھے چلنا ہے جو اُس گے چل رہا ہے اور اِس طرح چل رہا ہے کہ راستے کے سارے نشیب و فراز اُس نے دیکھنے ہیں اور میں نے صرف اُس کی رفتار کو دیکھنا اور اپنی رفتار کو برقرار رکھنا ہے چنانچہ اہلِ عرب ریس کے اُس گھوڑے کو {سابق } کہتے ہیں جو ریس کی دوڑ میں آگے آگے چل رہا ہوتا ہے اور ریس کے اُس گھوڑے کو { مصلّی } کہتے ہیں جو ریس کی دوڑ میں اُس کے پیچھے پیچھے چل رہا ہوتا ہے ، یہ وہی فطری قانون ہے جس فطری قانون کے تحت ہر جاندار کے بچے اُس جاندار کے پیچھے اِس اعتماد و یقین کے ساتھ چل رہے ہوتے ہیں کہ اُن کے وہ والدین اُن کے محافظ ہیں جو اُن کے آگے چل رہے ہیں اور وہ اِس خیال سے ایک قدم بھی اُن سے آگے نہیں نکلتے کہ جیسے ہی وہ ایک قدم بھی اِن سے آگے نکلیں گے تو وہ کسی ناگہانی آفت کا شکار ہو جائیں گے اور یہی فطری قانون خلا کے اُن سیاروں میں بھی قائم ہے جو آگے والے سیارے کے پیچھے ایک رفتار ریزی اور ایک رفتار گریزی رفتار کے ساتھ چلتے ہیں اور یہی وہ فطری قانون ہے جس کا اللہ انسان کو اِس طرح پابند بنانا چاہتا ہے کہ انسان اُس کے قانون سے سرِمُو انحراف کیئے بغیر اِس طرح چلتا رہے جس طرح ہر زمینی جاندار کے بچے اور خلا کے سیارے اپنے آگے چلنے والے کے پیچھے پیچھے چلتے ہیں تاہم ہم اِس کی مزید وضاحت سُورٙہِ تکویر میں کریں گے ، اِس مضمون کے آخری حصے میں اِس اٙمر پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ اِس مُتکبر انسان نے اِس حقیقت پر بھی کبھی غور نہیں کیا کہ اِس کو ہم نے زمان و مکان کے مُختلف اٙدوار میں خاکِ زمین کے مُختلف ناچیز ذروں سے گزار کر انسان کی مُحترم صُلب تک پُہنچایا ہے اور پھر اُس انسان کے جسم سے اِس کو پانی کی ایک ناچیز سی بُوند کی صورت بنا کر رحمِ مادر کے مقامِ پرورش میں ٹھرایا ہے جہاں پر پہلے ہم نے اُس کے اِس جسم کی تخلیق کی ہے اور اُس کے اُس کے اُس جسم کو مرد و زن کی جنس میں تقسیم کر کے اُس کو مردانہ و زنانہ شناخت دی ہے اور پھر اُس عقل و شعور کا حامل بنا کر سینہِ زمین چلایا ہے اور پھر اُس کو موت دے کر زمین کے پیٹ میں پُہنچایا ہے تو اِس انسان کو کم از کم یہ تو ضرور سوچنا چاہیئے کہ اگر ہم یہ سارے کام اپنے وقت پر اپنے طریقِ تخلیق و تجسیم کے مطابق کر سکتے ہیں تو پھر انسان کو دوبارہ زندہ کیوں نہیں کر سکتے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 559009 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More