نفس کو زمین کے اس مقام سے پیدا کِیا گیا جس حِصّے کو
اِبلیس کے قدموں نے چُھو لیا تھا۔اسی لیے نفس شر اور شہوت کا منبع ہے۔تاہم
زمین کے بعض مقامات اِبلیس کے قدموں سے پاک رہ گئے اور انہی مقامات سے
انبیاء کرام علیہم السّلام اور اولیاء عظام رحمتہ اللّٰه علیہ کی مٹی لی
گئی اور رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کی پاک طِینت ( یعنی
خلقت،پیدائش ) اللّٰه سبحانہ کی نظرِ عنایت میں رہی۔اس تک نہ حضرت عزرائیل
علیہ السّلام کے قبضہ ( یعنی مُٹّھی ) کو رسائی حاصل ہو سکی اور نہ وہاں
اِبلیس نعلین کے قدم پہنچ سکے۔سو اس ذرّہ پاک کو جہالت نہ چُھو سکی بلکہ وہ
طِینتِ پاک جہالت کی تمام صورتوں سے منزّہ اور مُبرّا ہے۔
آپ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم ہر عیب سے پاک پیدا کیے گئے۔سو اسی ہدایت اور
عِلم کے ساتھ حضور نبی اکرم صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم مبعُوث ہوئے اور آپ
صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کے قلبِ اقدس سے دوسرے قلوب کی طرف یہ عِلم اور
ہدایت مُنتقل ہوتے ہیں اور آپ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کے نفسِ اطہر سے
دوسرے نفوس کی طرف ہدایت و عِلم کا اِنتقال ہوتا ہے۔پس آپ صلی اللّٰه علیہ
وآلہ وسلم کے اور دوسرے قلوب کے درمیان وجہِ مناسبت طِینت کی طہارت ہے۔پس
جو شخص طِینت کی طہارت کے لحاظ سے حضور نبی اکرم صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم
کے زیادہ قریب ہو گا وہی زیادہ حِصّہ پائے گا۔چونکہ صوفیا کے قلوب حضور نبی
اکرم صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ زیادہ قُرب رکھتے ہیں اسی لیے
انہوں نے حقیقی عِلم سے وافر حِصّہ پایا ہے اور ان کے باطن زیادہ اخذ کرنے
کی صلاحیت رکھتے ہیں اس لیے انہوں نے زیادہ حاصل کِیا اور آگے پہنچایا۔
|