بابائے قوم مہاتما گاندھی کی اس سال سالگرہ منانے
کی بے چینی مہاتما گاندھی کے قتل کرنے والے اور پھانسی کے پھندے پر جھولنے
والے ناتھو رام گوڈسے کی پوجا کئے جانے والے آر ایس ایس کے اندر بھی دیکھی
جا رہی ہے ۔ آر ایس ایس نے گاندھی جینتی منانے کے لئے جن ریاستوں میں بی جے
پی بر سر اقتدار ہے ، وہاں کے بجائے تلنگانہ کے تاریخی شہر حیدر آباد میں
جگن ریڈی سے اجازت مانگی ہے ۔ جسے وہاں کی حکومت نے امن وامان کے ہونے والے
خطرہ کے پیش نظر اجازت دینے انکار کر دیا ہے ۔ جس کے بعد آر ایس ایس نے
ہائی کورٹ میں پی آئی ایل کیا ہے ۔ تعجب کی بات ہے کہ اتنے زمانے کے بعد آر
ایس ایس کے دلوں میں مہاتما گاندھی کے لئے اتنی محبت کیوں امڑ پڑی ہے ۔ وجہ
بہت ہی واضح ہے کہ آر ایس ایس کی نظر تلنگانہ پر قبضہ کرنے کی ہے جس کے لئے
یہ لوگ مہاتما گاندھی کے سہارے آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ آر ایس ایس کے چیف
موہن بھاگوت سے بہت قربت رکھنے والے دہلی کے ایک مولانا داکٹر امام عمر
احمد الیاس ، صدر اکھِل بھارتیہ امام سنگھ نے بھی چند روز قبل ہی مہاتما
گاندھی کا قد چھوٹا کئے جانے کی اس طرح کوشش کی ہے کہ انھوں نے موہن بھاگوت
کو ہی ’’ راشٹر پِتا‘‘ کے لقب سے نوازنے کی کوشش کی ہے ۔ جب کہ دنیا جانتی
ہے کہ ہندوستان کے لو گ مہاتما گاندھی کو ہی ان کی عظمت کے اعتراف میں
’’راشٹر پِتا ‘‘ مانتے رہے ہیں ۔ غیر منقسم ہندوستان کے لئے ان کی قربانیوں
کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ اس لئے نہ صرف ہندوستان بلکہ بیرون ممالک
کے امن پسند لوگ بھی مہاتما گاندھی کی اہمیت اور عظمت کا اعتراف کرتے ہیں
اور انھیں امن اور عدم تشدد کا پیامبر تسلیم کرتے ہیں ۔ اس لئے عالمی سطح
پر مہاتما گاندھی کے عدم تشدد کے پیغامات ، فلسفہ اور نظریات کی اہمیت اور
افادیت کافی بڑھ جاتی ہے ۔
یہ بھی عجیب بات ہے کہ جیسے جیسے دنیا میں سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی ہو
رہی ، ویسے ویسے جنگ و جدال میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عالمی سطح پر بڑھتے ایسے
تشدد میں نہ جانے کتنے لوگ اب تک قتل کئے گئے ہیں ۔ قتل کئے جانے والے
ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں عام عوام کو اگر ہم کسی قطار و شمار میں نہ رکھیں
اور ابراہم لنکن، مارٹن لوتھر کنگ، جان ایف کینڈی،مہاتما گاندھی، اندرا
گاندھی، راجیو گاندھی، لیاقت علی خاں ،جنرل ضیاالحق، بے نظیر بھٹو وغیرہ
جیسی اہم شخصیات کی اگر ہم فہرست مرتب کریں توتشدد کے شکار ایسے لوگوں کی
ایک لمبی فہرست تیار ہو جائے گی ۔ ایسے حالات میں تشدد سے ہونے والے قتل و
غارت گری سے پوری دنیا کے امن پسند لوگوں کا متفکر ہونا فطری عمل ہے۔ مارٹن
لوتھر کنگ جونئیر کی تشدد کے متعلق فکر مندی ان الفاظ میں ہمارے سامنے آتی
ہے․․․․․․․
" Non violence means avoiding not only external physical violence but
also internal violence of sprit . You not only refuse to shoot a man but
you refuse to hate him. "
اسی طر پوری دنیا میں عزت و احترام کی نظر سے دیکھی جانے والی ایک اہم
شخصیت مدر ٹریسانے امن و امان کو انسانیت کے لئے ضروری قرار دیتے ہوئے کہا
تھا .........
․․․․" we do not need guns and bombs to bring peace.we need love and
campassion" ۔
مہاتما گاندھی کے عدم تشدد اور امن کے پیام کی اہمیت اور افادیت کے پیش نظر
ہی جنوری 2004 ء میں ایران کی نوبل امن انعام پانے والی خاتون شیریں عبادی
نے اقوام متحدہ کے سامنے مہاتما گاندھی کے یوم پیدائش کو عالمی یوم عدم
تشدد کے طور پر منعقد کرنے کی تجویز رکھی تھی۔اس تجویز پر غور کرنے کے لئے
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 15؍جون 2007 ء کو’ عالمی یوم عدم تشدد‘
منانے کی قرارداد پیش کی گئی ، جس کی حمایت ایشیا، افریقہ،یوروپ اور امریکہ
سمیت تقریباََ ایک سو چالیس ممالک نے کی تھی۔ جس کے بعد 27 ؍جون 2007ء کو
اس قرارداد کو منظور کر تے ہوئے اقوام متحدہ کے بموجب اب ہر سال بھارت کے
سپوت اور عدم تشدد کے پیامبر مہاتما گاندھی کے یوم پیدائیش پر عالمی سطح پر
یوم عدم تشدد کا انعقاد کیا جائے گا ۔ اس دن پوری دنیا میں ہونے والے تشدد
کے خلاف مختلف طریقے سے ذہن سازی کی ضرورت محسوس کی گئی، تاکہ تشددکے بڑھتے
واقعات اورسانحات کوروکاجا سکے اور دنیا میں امن و امان کی فضا قائم ہو۔
اس لحاظ سے 2 ؍ اکتوبر وہ اہم دن ہے ، جو عالمی سطح پر مہاتما گاندھی کے
یوم پیدائش کو یوم عدم تشدد کے طور پر منایا جا تاہے ۔ ویسے یہ بھی ایک
المناک حقیقت ہے کہ جس گاندھی نے عدم تشدد کا پیغام عام کرنے کی کوشش کی
تھی اور امن و شانتی کا درس دیا دیا تھا ،وہ خود تشدد کا شکار ہو کر ہلاک
ہوا۔اس تناظر میں اب ہم مہاتما گاندھی اور ان کے پیغامات کو عہد حاضر میں
سمجھنے کی کوشش کریں۔ جس کے ایک پیغام کو بین الاقوامی سطح پر اتنی زیادہ
اہمیت دی گئی ۔ لیکن ان دنوں ان کے ساتھ جس طرح کا سلوک روا رکھا جا رہا ہے
۔ وہ پورے ملک کے لئے تشویشنا صورت حال کا پیش خیمہ ہے ۔یوں تو پہلے بھی
لیکن چھپ چھپا کر وہ لوگ جن کا آزادیٔ ہند میں کوئی مثبت رول نہیں رہا ، وہ
لوگ گاندھی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کو اپنا ہیرو بنا کر پیش کرتے رہے اور
صرف یہی نہیں بلکہ گاندھی جی کے یوم شہادت کو ’’شوریہ دیوس‘‘ یعنی یوم
افتخار کے طور پر مناتے رہے ہیں ۔ لیکن جب سے آر ایس ایس کی سیاسی تنظیم
بھارتیہ جنتا پارٹی اقتدار میں آئی ہے ، ان کے حوصلے کافی بڑھ گئے ہیں اور
وہ مہاتما گاندھی کے قاتل، گوڈسے کا ملک کے دارالسلطنت نئی دلی میں نہ صرف
مجسمہ بلکہ اس کے نام پر مندر تعمیر کا بھی منصوبہ بنا کر اسے عملی جامہ
پہنانے کی کوشش میں لگے ہیں ۔ ساتھ ہی ساتھ اب آر ایس ایس کی یہ بھی کوشش
ہو رہی ہے کہ مہاتما گاندھی کے قتل کی دوبارہ انکوائری کرا کر کر آر ایس
ایس کو اس الزام سے بری کر دیا جائے کہ گاندھی کا قتل اسی تنظیم نے کرائی
تھی ۔ حالانکہ گاندھی جی کے قتل کی سچائی آئینہ کی طرح عیاں ہے ۔لیکن
سبرامنیم سوامی جو ہمیشہ متنازعہ بیان دینے اور منافرت پھیلانے کے لئے
مشہور ہیں ، وہ گاندھی جی کے قتل کی انکوائری کرانے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں
، تاکہ آر ایس ایس کو مہاتما گاندھی کے قتل کے الزام سے بری قرار دیا جا
سکے ۔ ساتھ ہی ساتھ ان کا مطالبہ یہ بھی ہے کہ ملک کے کرنسی نوٹوں پر سے
مہاتما گاندھی کی تصویر ہٹا کر آر ایس ایس اور دوسرے رہنماؤں کی تصویر
لگائی جائے ۔ اس تناظر میں اب ہم یہ دیکھیں کہ آخر ان فرقہ پرستوں اور
متعصب لوگوں کے دلوں میں،مہاتما گاندھی اب تک کانٹے کی طرح کیوں چبھ رہے
ہیں ۔ دراصل مہاتما گاندھی نے وطن دوستی، حب الوطنی، انسانی اقدار کی جو
تعلیمات دی ہے ، وہ ملک کے لوگوں کو اب تک اپنے سحر میں لئے ہوئے ہے ۔ جس
کے باعث ان کے ’’ہندوتوا‘‘ نظریہ کو نافذ کرنے میں دشواریاں پیش آ رہی ہیں
۔ حقیقت یہ ہے کہ موہن داس کرم چند گاندھی بلا شبہ ایک عظیم شخصیت کا نام
ہے ۔ جنھوں نے اپنی زندگی میں سچائی ، عدم تشدد،انصاف اور رواداری کے اقدار
کو اتار کر جو تعلیمات اور نظریات دئے ۔ انھیں آسانی سے فراموش نہیں کیا جا
سکتا ہے ۔ خاص طور پر عدم تشدد ، جو ان کی زندگی کا جزولا ینفک تھا ، اورجن
پر وہ نہ صرف پوری زندگی خود چلے بلکہ دوسروں کو بھی چلنے کی ترغیب دی ۔ اس
سلسلے میں ان کا خیال تھا کہ ’ عدم تشدد سے پیدا ہونے والی طاقت انسان کے
ایجاد کردہ ہتھیاروں سے بدجہا بہتر ہے ۔‘ مہاتما گاندھی کی شخصیت کی جو سحر
انگیزی تھی ، وہ ان کے گفتار اور کردار کی ہم آہنگی کی وجہ کرتھی۔ انھیں
انسانی ، روحانی اور مذہبی افکار ونظریات پر مکمل یقین تھا ، جس کے باعث وہ
محبت، اخوت، مساوات،صداقت، انسان دوستی اور یکجہتی کے پیکر بنے ۔ سماجی
نابرابری ،ناانصافی اور غیر انسانی عمل و دخل کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے
خاردار راستوں سے گزرکر جب انھوں نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا ، تب بھی
انھوں نے سیاست کو مذہب سے الگ نہیں کیا ،بلکہ سیاست اور مذہب کو ایک دوسرے
کے لئے لازم وملزوم قرار دیا ۔ ان کا یہ خیال تھا کہ جہاں بھی ، جس جگہ بھی
جن کے دلوں میں مساوات اور سچائی کا عنصر ہوگا ، وہاں تشددغالب نہیں ہوگا ۔
مہاتما گاندھی کی ان ہی بنیادی اصولوں کی علمبرداری اور اوصاف سے متاثر ہو
کر رابندر ناتھ ٹیگور جیسی عظیم شخصیت نے ان کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے
انھیں ’’مہاتما‘‘ کا درجہ دیا تھا، جو ہمیشہ کے لئے ان کے نام کا حصہ بن
گیا اور اپنی زندگی کے آخری لمحوں تک موہن داس کرم چند گاندھی ، اپنے
مہاتما ہونے کا ثبوت دیتے رہے ۔ ان کی پوری زندگی انسانی رواداری اور اقدار
کے لئے وقف رہی ۔ ہندو مسلم اتحاد و اتفاق کو بھی مہاتما گاندھی ضروری قرار
دیتے تھے ۔ اس سلسلے میں ان کا خیال تھا کہ ’اتحاد ایک طاقت ہے ، یہ صرف
کتابی کہاوت نہیں بلکہ زندگی کا ایک اصول ہے، جو سب سے واضح طور پر ہندو
مسلم اتحاد کے سوال پر صادق آتا ہے۔ اگر ہم میں پھوٹ ہوگی تو ہم تباہ ہو
جائینگے۔ اگر ہم ہندو مسلمان ایک دوسرے کے گلے کاٹنے پر تیار رہینگے تو
کوئی تیسری طاقت آسانی سے ہندوستان کو غلام بنا لے گی ۔ہندو مسلمان اتحاد
کا مطلب صرف ہندوؤں اور مسلمانوں ہی نہیں بلکہ ان سب جماعتوں کا اتحاد ہے،
جو ہندوستان کو اپنا وطن سمجھتی ہیں ، چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتی
ہوں ․․․‘انسانیت کا جذبۂ ایثار جس طرح ہماری زندگی سے غائب ہو رہا ہے، اس
ضمن میں مہاتما گاندھی کا خیال تھا کہ ’جو قوم بے شمار قربانیاں پیش کرنے
کا جذبہ اور حوصلہ رکھتی ہے، وہ ترقی کی لا محدود بلندیوں پر پہنچنے کی
صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ جس قدر قربانی حقیقی ہوگی، اسی قدر کامیابی جلد ہوگی
‘۔ نفرت اور عداوت کے تئیں ان کا نظریہ تھا کہ ’ ہم اپنے دشمنوں کو محبت سے
جیت سکتے ہیں، نفرت سے نہیں ۔ نفرت اور تشدد میں بہت باریک سا فرق ہے ‘۔
ہمارے ملک میں جمہوریت جس طرح ان دنوں پامال ہو رہی ہے ، اس کے بارے میں
مہاتما گاندھی نے کبھی کہا تھا کہ ’ ’ اگر جمہوریت کا صحیح مفہوم پیدا کرنا
چاہتے ہیں تو ہمیں قوتِ برداشت اور رواداری پیدا کرنا پڑے گی ۔‘‘اس کے ساتھ
ہی جمہوری نظام حکومت کے سلسلے میں بھی ان کا بہت ہی واضح نظریہ تھا کہ’ ’
جمہوری نظام حکومت کو کسی ایک شخص کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا ،
خواہ وہ شخص کتنا ہی عظیم کیوں نہ ہو ۔‘ ‘اس سیاق و سباق کے ساتھ ہی ان کا
ایک خواب یہ بھی تھا کہ ’ بھارت کے تمام مذاہب اور نسلوں کے افراد کو ایک
ہی جھنڈے کے نیچے لا کر جمع کر دو اور ان میں اتحاد اور یکجہتی کا جذبہ اس
شدت کے ساتھ پید اکر دو کہ ان کے ذہنوں سے فرقہ واریت اور تنگ نظری کا نام
و نشان تک مٹ جائے ۔ ‘ لیکن افسوس کہ لاکھوں لوگوں نے اپنی جان کی قربانی
دے کر ملک کو انگریزوں کی غلامی اور ظلم وتشدد سے آزاد کرایا ، کہ آنے والی
نسل خود کو کسی بھی طرح غلام نہ سمجھے، اسے ہر طرح کی آزادی نصیب ہو ۔لیکن
المیہ یہ ہے کہ آج ہمارے ملک میں مذہبی منافرت اور تعصب کی ایسی گرم ہوا
بہہ رہی ہے کہ ہر وہ انسان جو محبت، اخوت، مساوات اور یکجہتی پر یقین رکھتا
ہے ، وہ پریشان ہے ، ڈرا ڈرا، سہما سہما سا اور خوف زدہ ہے ۔ ملک کے گوشے
گوشے سے نفرت، عداوت، تشدد اور عدم رواداری کے شعلے بھڑک رہے ہیں ، جو ملک
کے امن وامان ، دوستی ، بھائی چارگی اور گنگا جمنی تہذیبی اقدار کو خاکستر
کر رہے ہیں ۔ سیاست کی ایسی گرم فضا تیار کی جا رہی ہے کہ اقلیت واکثریت جو
اس ملک میں برسہا برس سے شیر وشکر کی طرح رہتے آئے ہیں ، ان کے درمیان
منافرت اور اختلافات کی خلیج پیدا کر ملک کی سا لمیت کو خطرے میں ڈالا جا
رہا ہے۔ نام نہادمذہب اور حب الوطنی کاسہارا لے کر دوسرے مذاہب کے لوگوں کو
سرے عام ذلیل و رسوا ہی نہیں بلکہ انھیں بڑی بے رحمی سے قتل تک کیاجا رہا
ہے اور ایسے عمل کی جو دانشور اورامن پسند شہری مخالفت کر رہے ہیں ، انھیں
بھی ڈرایا دھمکایاجا رہا ہے۔ مہاتما گاندھی کی دور اندیش نگاہیں ان امور پر
بھی تھیں اور انھوں نے اس سلسلے میں بھی بہت واضح طور پر کہا تھا کہ ․․․․
"Religion is not test of nationality, but a personal matter between man
and his god. In the sense of nationality they are Indians first and
Indians last , no matter what religion they protess"
ان تمام مذہبی منافرت، عداوت، تشدد، نا انصافی، استحصال، ظلم و بربریت ،
قتل وغارتگری اور عدم رواداری کو فراموش کر مہاتما گاندھی کے اصولوں اور ان
کی تعلیمات و ترجیہات ،جو ہر مذہب و ملت کے ماننے والوں کے لئے ،اس لئے
قابل قبول ہو سکتی ہے کہ ان تعلیمات میں ان تمام مذاہب کی تعلیمات کی روح
کو پیش کیا گیا ہے ۔ انسانیت اور انسانی اقدار کی حفاظت اور ان پر عمل کرنے
کی تاکید اور تعلیم ہر مذہبی کتابوں اور پیامبروں نے دی ہے ، پھر ان میں
اختلاف کی کہاں گنجائش ہے ۔
٭٭٭٭٭٭
|