ٹرانسجینڈر ایکٹ اور پاکستانی معاشرہ

میرے وطن پاکستان کو اندرونی اور بیرونی سازشوں کا شروع سے سامنا رہا ہے - مخدوش سیاسی صورت حال ، کمزور معیشت ،غربت ،جہالت ،بے روزگاری ، قدرتی آفات اور دیگر کئی مسائل سے نبرد آزما یہ ملک بنایا تو اسلام کے نام پر گیا تھا لیکن اس میں آج تک اسلامی نظام قائم نہ ہوسکا “خواجہ سرا افراد تحفظ حقوق “
نام کا قانون جو اب قومی اسمبلی اور
سینٹ سے پاس ہوچکا ہے
اس وقت زیر بحث ہے
ٹرانس جینڈر سے مراد خواجہ سرا لیا جاتا ہے مرد اور عور ت کے علاوہ تیسری جنس - اس تیسری جنس کے افراد کرو موسومز کے غیر معیاری ملاپ کی وجہ سے مرد اور عورت دونوں کی خصوصیات لے کر پیدا ہوتے ہیں - ہمارے معاشرے میں انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے - ترقی کے مواقع انہیں نہیں ملتے اور یہ ناچ گانے اور عیاش افراد کے جنسی تجربات کے لیے مخصوص کر دیے جاتے ہیں -LGBT سے مراد ہے
lesbian, gay, bisexual, transgender
جس ٹرانس جینڈر قانون کی اس وقت ہر طرف دھوم ہے آئیے دیکھتے ہیں یہ کیا ہے ؟
ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ 2018 (یا خواجہ سرا افراد تحفظ حقوق ایکٹ 2018) کے نفاذ کے بعد پاکستان کا شمار دنیا کے ان مٹھی بھر ممالک میں ہو گیا جہاں تیسری جنس سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے تعلیمی اداروں، ہسپتالوں، کام کی جگہوں، دوسرے عوامی مقامات اور وراثت کے حصول میں حقوق کو قانونی تحفظ حاصل ہوجاۓ گا -
مذکورہ قانون پاکستان میں پہلی مرتبہ ٹرانس جینڈر افراد کو قانونی شناخت فراہم کرنے کے علاوہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک اور ہراساں کیے جانے کے خلاف تحفظ کے لیے اقدامات وضع کرتا ہے اور مقامی حکومتوں پر اس کمیونٹی کی فلاح و بہبود کی ذمہ داری بھی عائد کرتا ہے۔
ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ تیسری جنس سے تعلق رکھنے والوں کو اپنی جنس کا انتخاب اور اس شناخت کو سرکاری دستاویزات بشمول قومی شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور ڈرائیونگ لائسنس میں تسلیم کرنے کی اجازت دینے کے علاوہ ٹرانس جینڈرز کے سکولوں، کام کی جگہ، نقل و حمل کے عوامی طریقوں اور طبی دیکھ بھال حاصل کرنے کے دوران امتیازی سلوک سے منع کرتا ہے۔
قانون کہتا ہے کہ ٹرانس جینڈر افراد کو ووٹ دینے یا کسی عہدے کے لیے انتخاب لڑنے کا حق سے دینے، اور ان کی منتخب جنس کے مطابق وراثت میں ان کے حقوق کا تعین کرنے اور حکومت کو جیلوں یا حوالاتوں میں ٹرانس جینڈر افراد کے لیے مخصوص جگہیں اور پروٹیکشن سینٹرز اور سیف ہاؤسز قائم کرنے کا پابند بناتا ہے۔
قانون میں ٹرانس جینڈر اشخاص کی تعریف کرتے ہوئے انہیں تین اقسام انٹر سیکس، خنثہ اور ٹرانس جینڈر (مرد یا عورت) میں تقسیم کیا گیا ہے۔

بظاہر تو یہ قانون خواجہ سرا کے تحفظ کے لیے بنایا گیا ہے لیکن درحقیقت یہ ہم جنس پرستی کو قانونی جواز فراہم کرنے کی ایک سازش ہے -
ہر معاشرے میں ہم جنس پرستوں کی ایک تعداد ہوتی ہے جو خفیہ طور پر غیر فطری حرکات میں مصروف عمل رہتی ہے - دراصل یہ ابنارمل افراد ہوتے ہیں جن کی ذہنی الجھنیں ، بچپن کے ناخوشگوار تجربات ، جنسی استحصال ان لوگوں کو ہم جنس پرست بنا دیتا ہے - GAY بن کر یہ خفیہ طور پر یہ اپنی جنسی بھوک مٹاتے ہیں اگر ان کے خاندان یا معاشرے کو ان کی سرگرمیوں کا علم ہوجاۓ تو انہیں شدید ذلت اور سماجی بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے - لزبین خواتین کی تعداد مردوں کے مقابلے میں پاکستان میں کافی کم ہے - اس بل پر عملدرآمد کی وجہ سے ناجائز جنسی تعلقات بڑھ جائیں گے اور جنسی زیادتی کے واقعات میں مزید اضافہ ہو جاے گا-
پاکستان میں اس قانون کے نفاذ کے بعد کوئی بھی پاکستانی شہری کسی بھی وقت اپنی جنس کی تبدیلی کے لیے ناداراآفس سے رجوع کرسکتا ہے - عورت مرد اور مرد خود کو عورت نامزد کر سکتا ہے پھر مرد جو کہ درحقیقت مرد ہے خود کو عورت قرار دے کے کسی مرد سے شادی کرسکتا ہے ایسے دو مرد شادی کرکے اکھٹے رہ سکتے ہیں - اس قانون کے نفاذ کے بعد جنسی تبدیلی کی انتیس ہزار سے زیادہ درخواستیں نادراہ کو موصول ہو چکی ہیں-
افسوس کا مقام یہ ہے کہ علماء نے اس بل کو پاس ہونے کی اجازت دی - واحد سیاسی جماعت جماعت اسلامی نے اعتراضات اٹھائے اور باقی سب خاموش رہے -
ہم مسلمان ہیں ہماری کتاب قرآن جو ہمیں قوم لوط کا قصہ سناتی ہے - لواطت جیسے قبییح فعل نے اس قوم کو برباد کردیا تھا -پتھروں کی بارش عذاب کی صورت ان لوگوں کو ختم کر گئی کیونکہ وہ لوگ اپنی محفلوں میں کھلے عام اس بے حیائی کے کام کو کیا کرتے تھے اور پھر اس پر فخر کرتے تھے -
-کیا ہمیں بھی پتھروں کی بارش کا انتظار ہے - سیلاب نے آدھے سے زیادہ پاکستان کو ڈبو رکھا ہے - اس عذاب سے نمٹنے کے لیے وسائل کی کمی ہے - اور ہم ایسے قوانین بنا رہے ہیں -
کسی برائی کو علی الاعلان کرنا اور اسے قانونی تحفظ دینا عذاب الہی کو دعوت دینا ہے پاکستانی معیشت سودی کاروباری نظام میں جکڑی ہوئی ہے - یہی وجہ ہے کہ قرضوں کا بھاری بوجھ اور کمزور معیشت دونوں ہی ساتھ ساتھ چلتے ہیں اللہ سے یہ جنگ تو ہم نے خود شروع کر رکھی ہے - کرپشن کا یہ عالم ہے کہ بحیثیت قوم ایمانداری ناپید ہے -
ان مسائل میںLGBT کیا گلُ کھلائے گا -
ہم جنس پرستی کے لیے راہ ہموار کرنا مغربی ایجنڈے کا حصہ ہے جس کو پھیلانے کے لیے سینما اور ادب دونوں کو استعمال کیا جارہا ہے ہندوستان میں علی گڑھ نامی فلم بنائی گئی ہے - جو کہ ایک ہم جنس پرست پروفیسر ڈاکٹر شری واس رام چندرا شراس کی زندگی پر مبنی ہے - اس موضوع پر بننے والی نئی فلم “بدھائی دو “ ہندوستان سے ریلیز ہوئی ہے یہ فلم ایک ایسے شادی شدہ جوڑے کی کہانی کو بیان کرتی ہے جس میں مرد gay ہے اور اس کی بیوی لزبین ہے میاں اپنے عاشق اور بیوی اپنی محبوبہ سے جنسی تسکین حاصل کرتے ہیں - آپس میں ان کے جسمانی تعلقات نہیں ہوتے ہیں اس لیے اولاد بھی نہیں ہوتی خاندانی پریشر کی وجہ سے وہ ایک بچہ گود لے لیتے ہیں اس فلم میں ہم جنس پرستوں کو مظلوم بنا کر پیش کیا گیا ہے ان کے غیر فطری میلان کو ان کی مجبوری بتایا گیا ہے -شروع میں ان کے خاندان کے افراد ان کی حرکات پر شدید ردعمل دیتے ہیں پھر انہیں قبول کرلیتے ہیں -
فلموں کے علاوہ ناولوں اور افسانوں کی شکل میں بھی ہم جنس پرستی کو فروغ دیا جارہا ہے - ہندوستان کے ادبی جریدے “اثبات “نے “ ہم جنس پرست نمبر “ شائع کیا ہے جس میں عصمت چغتائی کا مشہور افسانہ لحاف ، مشرف عالم ذوقی کا “دو کائتائن بہنیں “ وغیرہ اور دیگر اس نوعیت کے مواد شامل کیے گئے ہیں -
“افتخار نسیم افتی “مشہور بد نا م ِزمانہ gay شاعر کی نظمیں وغیرہ شامل کی گئی ہیں -
علی اکبر ناطق کا ناول “کماری والا “ میں ہم جنس پرستی کے چند واقعات بیان کیے گئے جب کہ اشعر نجمی کا ناول “ اس نے کہا تھا “ لواطت کے موضوع پر لکھا گیا ہے -ناول “اس نے کہا تھا” میں تو اشعر نجمی نے معاشرے کے سماجی ڈھانچے پر وار کیا ہے - ہم جنس پرستوں کو مجبور بنا کر پیش کیا گیا ہے - مرد ہم جنس پرستی اس لیے کرتے ہیں کہ انہیں خواتین میں دل چسپی نہیں ہے - اور دو خواتین بھی ماں اور ممی بن کر ساتھ رہ کر ایک بچہ پال لیتی ہیں ان میں سے ایک بچے کی اصلی ماں ہے یہ بچہ ٹیسٹ ٹیوب بے بی ہے اور یہ دونوں خواتین لزبین ہیں یہ خود کو بچے کے والدین سمجھتی ہیں -بچہ جو کہ ہم جنس پرست بن جاتا ہے - مختلف تجربات کو جوڑ کے ناول کی بنت کی گئی ہے -اس ناول کو انتہائی گھٹیا ،سستی جذبات نگاری اور فحش نگاری کی اعلی مثال قرار دیا جا سکتا ہے -
اس ناول کے کردار معاشرے کے ناکارہ ترین مرد ہیں جو کہ سماج میں کوئی مقام حاصل نہیں کر پاتے بلوغت تک پہنچتے ہی یہ افراد اس مکروہ عادت کا شکار بن جاتے ہیں اور پھر ساری عمر ہم جنس پرستی کی لعنت کا شکار رہتے ہیں -
اس ناول کو پاکستان میں بھی شائع کیا گیا ہے -
غیر مسلموں کو تو ایسے نظریات سے کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن بحیثیت مسلمان ہمارا معاشرہ جو کہ پہلے ہی اخلاقی گراوٹ کا شکار ہے یہ نیا قانونی وار سہہ نہ پاۓ گا -ٹرانس جینڈرز کے حقوق سے متعلق قانون جلد بازی کا نتیجہ ہے، اور اس میں بہت زیادہ کجی موجود ہے جس کی اصلاح ضروری ہے۔ٹرانس جینڈر کی شناخت کے لیے میڈیکل بورڈ لازمی ہونا چاہیے- اس بورڈ کے معائنے کے بعد جنس کا اندازہ لگانا چاہیے اور نادارا کو بھی اس بورڈ کے دیے ہوئے نتیجے کا پابند ہونا چاہیے - سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس ملک میں عام شہریوں کو حقوق نہیں مل رہے وہاں بل پاس کرنے سے خواجہ سرا کی سماجی حیثیت بہتر ہوپاۓ گی - اگر خواجہ سرا کو معاشرے کا فعال شہری بنانا ہے تو ان کے لیے اسکول ، کالج اور یونی ورسٹیز قائم کی جائیں - انہیں ملازمت دی جاۓ - ان کی دینی تربیت کی جاۓ -
اس بل سے خواجہ سرا کو تو حقوق ملتے نظر نہیں آتے البتہ غیر فطری تعلقات والوں کو چھوٹ مل جاۓ گی -
اس طرح کے بِل پاس کرکے
عذاب الہی کو دعوت دے کر ہم شخصی آزادی کی ترقی میں کتنا حصہ ڈال سکیں گے سوچنا یہ ہے
 

Nadia  Umber Lodhi
About the Author: Nadia Umber Lodhi Read More Articles by Nadia Umber Lodhi: 51 Articles with 89141 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.