پاپولر فرنٹ آف انڈیا پر پابندی لگا کر حکومت نے میڈیا
میں ہنگامہ تو کھڑا کردیا نیز اپنے ایک عارضی ہدف میں بھی کامیابی بھی حاصل
کرلی لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ اس نامعقول کارروائی کوئی دیرپا فائدہ حاصل
کرپائے گی؟ اس کا جواب نہیں ہے۔ پابندی اگر اتنی ہی کارگر ہوتی اسٹوڈنٹس
اسلامک موومنٹ آف انڈیا پر 27 ستمبر 2001 کو پابندی لگانے کے اکیس سال بعد
28 ستمبر 2022 کو پی ایف آئی پر قدغن لگانے کی ضرورت نہیں پیش آتی۔ آر
ایس ایس پر تین بار پابندی لگانے کے باوجود اس کا بغل بچہ برسرِ اقتدار
نہیں ہوتا۔ تحریکات اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر عالمِ وجود میں آتی ہیں۔
انہیں مقاصد کی خاطر لوگ ان سے وابستہ ہوتے ہیں ۔ اس لیے کسی تنظیم پر
پابندی لگا دینے یا کچھ افراد کو پابندِ سلاسل کردینے سے تحریک ختم نہیں
ہوتی۔ ان آزمائشوں سے رفتارِ کار پرتھوڑا بہت اثر ضرور ہوتا ہے مگر دریا
کا دھارا رکتا نہیں ہے۔ وہ تو ہر حال میں اپنا راستہ بنالیتا ہے ۔ ایک صدا
بہا ر مقصدحیات کی خاطر اپنا سب کچھ لٹا دینے والے جانبازوں کے لیے اس طرح
کی پابندیاں بے معنیٰ ہوتی رہی ہیں اور ہوتی رہیں گی ۔ پی ایف آئی کی
موجودہ صورتحال پر علامہ اقبال کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
یہ نغمہ فصلِ گل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں لاالہ اللہ
قومی ذرائع ابلاغ میں پی ایف آئی سے متعلق ہر خبر کی تان اسٹوڈنٹس اسلامک
موومنٹ آف انڈیا پر جاکر ٹوٹتی ہے اورقارئین و ناظرین کو ایسے ڈرایا جاتا
ہے جیسے ’بیٹے سوجا ورنہ گبرّ آئے گا‘۔ قارئین کی یاددہانی کے لیے یہ
بتانا ضروری ہے اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا پر 27 ستمبر 2001 کو اٹل
سرکار نے صرف دو سال کیلئے پابندی لگائی تھی اور دو سال کی تکمیل پر 26
ستمبر 2003 کو مزید دو سال کیلئے اسے بڑھا دیا گیا تھا ۔یہ پابندی چونکہ
امریکہ میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی مسماری کے بعد لگی تھی اس لیے اسے عالمی
دباو سے جوڑ کر دیکھا گیا ۔ کانگریس کی حکومت کے دوران پابندی کی مدت 26
ستمبر 2005 کو پوری ہوگئی لیکن اس سے یہ توقع کرنا محال تھا کہ وہ اسے ختم
کرنے کی جرأت کا مظاہرہ کرسکے گی۔ کانگریس نے اول تو یہ تاثر دینے کی کوشش
کی کہ یہ مستقل پابندی ہے لیکن اس سے بات نہیں بنی تو 8؍ فروری 2006 کو نئی
پابندی لگا دی ۔ حکومت کی جانب سے وزارت داخلہ کے جوائنٹ سیکریٹری نے ازسرِ
نو پابندی کے لیے سرکار کے پاس کسی معقول جواز یا ثبوت کی عدم موجودگی کا
اعتراف 19جولائی 2006 کو عدالت میں کیا۔
اس پورے معاملے ایک دلچسپ موڑ 7؍اگست 2008 کو آیا جب جسٹس گیتا متل نے
اپنے فیصلے میں تنظیم پر عائد پابندی کوہٹا تے ہوئے برملا کہا کہ سیمی پر
پابندی باقی رکھنے کیلئے کوئی ثبوت موجود نہیں ہے ۔ مرکز کی منموہن سرکار
اس فیصلے سے بوکھلا گئی ۔ اس نے بڑی سرعت کے ساتھ عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا
اور مذکورہ فیصلے کی خلاف 16؍ گھنٹے کے اندر حکم امتناع لے لیا۔ اس طرح
گویا بی جے پی کے گناہ میں کانگریس بھی شانہ بشانہ شریک ہوگئی۔ اس کے بعد
جب موقع آیا تو مرکز میں بی جے پی کی سرکار اقتدار پر فائز ہوچکی تھی ۔ اس
نے 2014؍ کے اندر اگلے پانچ سال کے لیے پابندی لگائی اور اس کی 2024 تک
توسیع کردی ۔اب یہ معاملہ عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت ہے۔ اس کا مطلب صاف ہے
کہ سیمی پر لگائی جانے والی پابندی مستقل نہیں ہے ۔ عدالت میں اس پر جرح چل
رہی ہے کہ اس کے جاری رہنے کا جواز موجود ہے یا نہیں ؟ ایسے میں سیمی سے
ڈرا کر پی ایف آئی کی پابندی کو حق بجانب قرار دینے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
پی ایف آئی کے لیے بھی ٹریبونل تشکیل دیا جائے گا اور بعید نہیں کہ وہ
پابندی کو کالعدم قرار دے دے لیکن موجودہ نظامِ جبر میں یہ مشکل ہی نہیں
بلکہ ناممکن لگتا ہے۔
پی ایف آئی پر آج کل جو بہتان طرازی کی جارہی ہے اس کو ایس آئی ایم پر
لگائے جانے والے الزامات کے تناظر میں دیکھیں تو بلا کی مشابہت نظر آتی
ہے۔ ایسا گمان ہوتا ہے کہ لوگ نمک مرچ لگا کر کاپی پیسٹ کررہے ہیں ۔معروف
صحافی افتخار گیلانی نے ایس آئی ایم پر ٹریبونل میں بحث کا قریب سے مشاہدہ
کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ سماعت کے دوران مہاراشٹر کے شولا پور میں انسپکٹر
شیواجی تامبرے نے ایک حلف نامہ دائر کرکے یہ انکشاف کیا تھا کہ سیمی کے کچھ
مبینہ کارکنوں کے گھروں پر چھاپہ ماری کے دوران انہیں اُردو میں لال
روشنائی سے تحریر کردہ ایک دستاویز ملی جس پریہ شعر درج تھا ’’موج خوں سر
سے گزر ہی کیوں نہ جائے، آستان یار سے اٹھ جائیں کیا‘‘۔ غالب کے اس شعر کا
انسپکٹر تامبرے نے یہ مطلب نکالا کہ یہ ہندوؤں کے خلاف مسلمانوں کے جذبات
کو برانگیختہ کرتا ہے۔ اس سماعت کے وقت غالب حیات ہوتے تو حرکتِ قلب بند
ہونے کے سبب ان کا انتقال ہوگیا ہوتا۔ اس طرح کے مضحکہ خیز الزامات پر جج
صاحبان ناراضی بھی جتاتے رہے اس کے باوجود پابندی میں توسیع کا سلسلہ جاری
رہا۔
ایک اور حلف نامہ میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ سیمی مہاراشٹر کو ملک سے
الگ کرنے کی سازش کررہی ہے۔ یہ کارنامہ گھاٹ کوپر ( ممبئی) کے تفتیشی افسر
ادے سنگھ راٹھورنے اپنے حلف نامے میں انجام دیا۔ ان کے مطابق سیمی کے مبینہ
کارکن شبیر احمد مسیح اللہ (مالیگاوں) اورنفیس احمد انصاری (ممبئی)
مہاراشٹر کو ملک سے الگ کرنے کی سازش میں ملوث پائے گئے ۔ مہاراشٹر میں
شیوسینا اور نونرمان سینا کے ہوتے کسی اور کو یہ زحمت کرنے کی کیا ضرورت ؟
مذکورہ انسپکٹر نے ثبوت کے طور قابل اعتراض مواد کی حیثیت سے سرورق کے بغیر
اردو کا ایک رسالہ پیش کیا ۔ اتفاق سے وہ جریدہ بچوں کے لیے شائع ہونے والا
دہلی کی سرکاری اردو اکادمی کا ‘ماہنامہ امنگ’ تھا۔ جرح کے دوران راٹھور نے
یہ تسلیم کیا کہ اس رسالہ میں بچوں کے لیے مضامین اور کہانیاں ہیں لیکن پھر
بھی ان کا اصرار تھا کہ ایسے ہی رسائل کو انتہاپسند اپنے خیالات‘ افکار و
نظریات دوسروں تک پہنچانے کا وسیلہ بناتے ہیں۔ اس الزام کو اگر درست مان
لیا جائے تو اردو اکادمی کے سرکاری اہلکاروں کو بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے
ہونا چاہیے۔
ایک اور حلف نامے میں کھنڈالہ پولیس ٹریننگ اسکول کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ وشنو
بابو راو جگتاپ نے گواہی دی کہ جب وہ شولا پور کے صدر بازار تھانے میں
انسپکٹر تھے تو تفتیش سے ان کو معلوم ہوا کہ سیمی کا حتمی مقصد ملک میں
اسلامی تعلیم کو پھیلانا ہے۔ اس بیچارے کو نہیں معلوم کہ تبلیغ دین کا حق
تو اس آئین میں بھی تسلیم کیا گیا جس کی پاسداری اس پر لازم ہے۔ جگتاپ نے
بتایا کہ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے سیمی نفاق‘ سریہ اور جہاد کا سہار
ا لیتی ہے۔ ان سے جب دریافت کیا گیا کہ’سریہ‘ کس زبان کا لفظ ہے اور اس کا
کیا مطلب ہے؟ تو جگتاپ کے ہاتھ پاوں پھول گئے اس لیے کہ اسے ایسے سوال کی
توقع نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ سریہ اردو یا فارسی کا لفظ ہے جس کا مطلب
لوگوں سے غیر قانونی طور پر پیسے اینٹھنا ہے۔ایک پولیس اہلکار کو سیمی کی
تصورِ خلافت پر بھی اعتراض تھا حالانکہ گاندھی جی خود خلافت تحریک کے ساتھ
کام کرچکے ہیں اور کانگریسیوں کو حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ کے نقشِ قدم پر
چلنے کی ترغیب دیتے رہے ہیں ۔
سیمی کے خلاف سب سے زیادہ حیرت انگیز حلف نامہ حیدرآبادکے سعیدآباد
تھانےمیں زیر ملازمت انسپکٹر پی دیویندر نے پیش کیا ۔ موصوف کا اصرار تھا
کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی سیمی کی ایک ذیلی تنظیم ہے۔ اس کا
مطلب یہ ہے انہوں نے سیمی کو حکومتِ پاکستان کا ہم پلہ قرار دے دیا۔
دیویندر کے مطابق سیمی اس قدر خطرناک تنظیم ہے کہ لشکر طیبہ جیسی تنظیمیں
بھی اسی کے تحت کام کرتی ہیں۔ یہ سن کر وکیل دفاع بھی چکرا گئے اور انہوں
نے حیرت و استعجاب کے عالم میں وضاحت طلب کی کہ آئی ایس آئی سے ان کی کیا
مرادہے؟ اس سوال کے جواب میں نہایت ڈھٹائی کے ساتھ دیویندر نے کہا کہ،وہ
اپنے اس بیان پر قائم ہیں۔ پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی دراصل سیمی کے
اشاروں پر ہی کام کرتی ہے۔ کوئی بہتان تراشی پر اتر آئے تو کس حد تک
جاسکتا ہے اس کا نادر نمونہ دیویندر نے پیش کیا۔ ہمارے عدالتی نظام کا
بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اوٹ پٹانگ الزام لگانے والوں کو سزا تو دور گرفت بھی
نہیں ہوتی اس لیے یہ لوگ اپنے سیاسی آقاوں کو خوش کرنے کی خاطر جو منہ میں
آئے بک دیتے ہیں۔ ان بدزبانوں کو اگر عدالت سزا دینے لگے تو ہوش ٹھکانے
آجائیں لیکن موجودہ صورتحال میں ایسا شاید ہی ممکن کیونکہ ربانی ہدایت سے
بے نیازانسان جب قانون وضع کرنے لگے تو وہی ہوتا جو ڈاکٹر عاصم واسطی نے
اپنے اس شعر میں کہا ہے ؎
عدل عدالت اس بستی میں کیسے قائم ہو عاصم
جس میں ملزم مجرم خود قانون بنانے والے ہیں
|