پی ایف آئی پر پابندی اور یو اے پی اے کا قانون

پاپولر فرنٹ پر پابندی کےسبب برپا ہونے والے ہنگامہ نے اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ سے متعلق ایک اہم خبرکو ڈھانپ دیا اور بالکل محوِ نظر ہوگئی۔ ایس آئی ایم کی پابندی کو چیلنج کرنے والی ایک درخواست پر سپریم کورٹ نے 31؍ اگست 2022 کے دن جوابی حلف نامہ داخل کرنے کا حکم دیا۔ جسٹس ایس کے کول کی بنچ نے اس کام کے لیے مرکزی حکومت کو صرف چار ہفتے کی مہلت دی ۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت کے پاس اپنے جوابی حلف نامہ میں لکھنے کے لیے کوئی معقول دلیل نہیں تھی اور اسے اندیشہ لاحق ہوگیا تھا کہ کہیں عدالت یہ پابندی ختم نہ کردے۔ ایسا اگر ہوجاتا تو جہاں ایس آئی ایم پر پابندی لگانے کا سہرا اٹل بہاری واجپائی جیسے نرم خو رہنما کے سربندھا تھا وہیں اس پر سے پابندی ہٹوانے کا الزام سخت گیر نریندر مودی کے سر آجاتا ۔ برسوں کی محنت سے وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی جو شبیہ بنائی ہے یہ اس کے خلاف تھا اس لیے کوئی بڑا طوفان کھڑا کردینا سرکار کی مجبوری بن گئی تھی۔ بعید نہیں کہ پاپولر فرنٹ پر اسی مشکل سے نجات حاصل کرنے کے لیے پابندی لگائی گئی ہو۔
جسٹس ایس کے کول نے مرکز کو آخری موقع دیتے ہوئے سماعت کے لیے یکم نومبر 2022کی تاریخ طے کی مگر اس سے قبل حکومت نے ایسا طوفان بپاکردیا کہ جس سے عدلیہ کے لیے جرأتمندانہ فیصلہ کرنا مشکل تر ہوجائے۔ مذکورہ فیصلے کے تین ہفتے بعد ہی پی ایف آئی پر تیزی سے چھاپے ماری کا آغاز ہوا اور ابھی مہینہ پورا بھی نہیں ہوا تھا کہ پابندی بھی لگا دی گئی ۔ اب بھلا کوئی جج ایس آئی ایم کے اوپر سے پابندی اٹھانے کی جرأت کیسے کرسکتا ہے جبکہ پی ایف آئی پر بھی پابندی لگاکرمیڈیا میں زبردست ہواّ کھڑا کردیا گیا ہے۔ اس کو چوری اور سینہ زوری کہتے ہیں یعنی پرانی غلطی کی اصلاح کرنے کے بجائے اس سے بڑی نئی غلطی کا ارتکاب کردینا۔ ایس آئی ایم کے وکیل نے عدالت کو مطلع کیا تھا کہ تنظیم پر پہلی پابندی 2001میں لگائی گئی تھی اور اس کی 2019 میں آخری بار توسیع کی گئی۔ اس کے مطابق اسے 2024 تک جاری رہنا ہے۔

مرکزی حکومت کوجسٹس کول کی بنچ کے اس تبصرے سے پریشانی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ :’’ جب پابندی میں توسیع کی جاتی ہے تو یہ ایک سادہ توسیع نہیں ہے‘‘۔ بنچ نےاس امر کی جانب توجہ دلائی تھی کہ کیا ہنوز وہ عوامل اور مواد موجود ہے جوپابندی کا حکم دیتے وقت اور ٹریبونل کے ذریعہ اس کو برقرار رکھنے کی توثیق کےموقع پر پائے جاتے تھے؟ بنچ نے اس چیز کی چھان بین پر زور دیا۔ عدلیہ کے مذکورہ سوال پر ایمانداری کے ساتھ جانچ پڑتال کی جائے تو ظاہر ہے جواب نا میں ملے گا۔ اس لیے اس عارضی پابندی کو ختم کرنے کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں ہوگا ۔ جسٹس کول کی بنچ نے آخری موقع کے طلبگار سالیسٹر جنرل کو حلف نامہ داخل کرنے کے لیے چار ہفتوں کی مہلت دے کر جوابی حلف نامہ پیش کرنے کی خاطرصرف دو ہفتوں کا وقت دیا۔ اس طرح کے معاملات کو ٹال مٹول کا شکار کرنے کی خاطر حکومت سیکڑوں صفحات کا جواب دے دیتی ہے۔ ا س سے بچنے کے لیے حفظ ماتقدم کے طور پر عدالت نے فریقین کو مختصر خلاصہ دائر کرنے کی تلقین کی ۔ کل عدالت کی کارروائی دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی ۔ قوی امکان تو یہ ہے کہ پھر سے نئی تاریخ پڑ جائے لیکن اگر ایس آئی ایم کے اوپر سے پابندی اٹھ جائے تو پی ایف آئی کا معاملہ ازخود ٹائیں ٹائیں فش ہوجائے گا ۔

وزارت داخلہ نے پاپولر فرنٹ پر جو بے بنیاد الزامات لگائے ہیں وہ بھی بہت دلچسپ ہیں۔ بہتان یہ ہے کہ بیرو نی چندے اور نظریاتی حمایت کے ساتھ، یہ تنظیم ملک کی اندرونی سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ بن گئی ہے۔ اس الزام کی تائید میں پی ایف آئی کے داعش اور ’’جماعت المجاہدین بنگلہ دیش'' جیسے عالمی دہشت گرد گرہوں کے ساتھ روابط کی بات کہی گئی ہے۔ نوٹیفکیشن میں پی ایف آئی اور اس کے ملحقہ اداروں پر غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام بھی لگایا گیا ہے۔ بہتان تراشی کا یہ کھوٹا سکہ میڈیا میں تو خوب چلتا ہے مگر جب عدالت میں ثبوت پیش کرنے کی نوبت آتی ہے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجاتا ہے۔ حکومت کے مطابق پی ایف آئی ملک کی سالمیت، خود مختاری اور سلامتی کے لیے نقصان دہ ہے اور اس کے لوگ امن وامان اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی بگاڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ قانون کی نظر میں محض صلاحیت رکھنا جرم نہیں ہے بلکہ جب تک کسی پرتشدد حرکت کا ارتکاب عدالت میں ثابت نہیں ہوجاتا اس وقت تک ایسی ہوا سازی کی سیاسی قلابازی سے زیادہ اہمیت کی حامل نہیں ہے۔

مرکزی حکومت کی جانب سے پاپولر فرنٹ آف انڈیا اور اس کی ذیلی تنظیموں پر پانچ سال کے لیے پابندی کے بعد پی ایف آئی کی کیرالہ یونٹ کے جنرل سکریٹری عبدالستار نے تنظیم کو تحلیل کر نے کا اعلان کردیا ۔ انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ ملک کے قانون پسند شہری ہونے کے ناطے پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے عہدیداروں نے پابندی کو قبول کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔پی ایف آئی کی سیاسی شاخ سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا کے قومی صدر ایم کے فیضی نے اس پابندی کو جمہوریت اور ملکی آئین میں درج عوام کے حقوق پر براہ راست حملہ قرار دیا ۔ان کے مطابق بی جے پی حکومت کی غلط اور عوام دشمن پالیسیوں کی مخالفت کرنے والوں کو اقتدار کی جانب سے گرفتاریوں اور چھاپوں کی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔موجودہ حکومت نےہندوستانی آئین کے بنیادی اصولوں مثلاً اظہاررائے کی آزادی ، احتجاج اور تنظیم بنانے کے حق کو بے رحمی سے پامال کیا ہے۔ ایس ڈی پی آئی کے مطابق حزب اختلاف کو خاموش کرنا اور ڈرانا دھمکانا ملک میں غیر اعلانیہ ایمرجنسی کاشاخسانہ ہے۔فیضی نے تمام سیکولر پارٹیوں اور عوام کو آمرانہ حکومت کی مخالفت کرنے اور آئینی اقدارو جمہوریت کو بچانے کی ترغیب دی ۔

یہ خوش آئند بات ہے کہ چند ایک کو چھوڑ کر ملت کے سوادِ اعظم بلا تفریق متحد ہوکر پاپولر فرنٹ آف انڈیا اور اس کی ذیلی تنظیموں پر حکومت کی جانب سے عائد کردہ پابندی کے فیصلے کی مذمت کی ہے۔ جماعت اسلامی ہندکے امیر سید سعادت اللہ حسینی نےاس ناعاقبت اندیش فیصلے پر اپنی ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ”تنظیموں کو ممنوعہ قرار دینے کا عمل کسی مسئلے کا حل نہیں ہے اور نہ ہی یہ جمہوری معاشرے کے لئے موزوں ہے۔ تنظیموں کو ممنوعہ قرار دینے کا یہ عمل شہریوں کو آئین میں دیئے گئے بنیادی حقوق کو متاثر کرتا ہے اور یہ جمہوری روح کے بھی خلاف ہے“۔ملک میں امن و امان برقرار رکھنا پولیس اور انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔اگر کوئی فرد قانون شکنی کرتاہے یا کسی جرم میں ملوث پایا جاتا ہے تو اس کے خلاف قانون کی دفعات کے مطابق کارروائی کی جانی چاہئے، اور ان الزامات کا فیصلہ عدالت کرے، جہاں ان افراد کو بھی اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع ملے۔ مگر ناقص اور غیر مصدقہ بنیادوں پر ایک پوری تنظیم پر پابندی لگاناغیر منطقی اور غیر جمہوری ہے۔

پی ایف آئی پر پابندی کے خلاف دیگر ملی تنظیموں کے ساتھ اپنی آواز ملاتے ہوئے رضااکیڈمی کے جنرل سیکریٹری محمدسعید نوری نے اس معاملے کو بی جے پی کی جانب سے الیکشن کی تیاری قرار دیا۔ ان کے مطابق پاپولر فرنٹ پر پابندی عائد کئے جانے کے تعلق سے یہی بات سمجھ میں آرہی ہےکہ اب انتخابات قریب آرہے ہیں۔ اس لئےبرادران وطن کے ووٹ کا ارتکاز کرنے کی خاطر پہلے تو اس تنظیم کے ٹھکانوں پر چھاپے مارے گئے،گرفتاریاں عمل میں آئیں اور اب اس پر پابندی عائد کردی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم ہی نہیں کوئی بھی مسلمان ملک مخالف سرگرمیو ں میں ملوث کسی فرد یا تنظیم کی قطعی حمایت نہیں کرےگا ، لیکن جس وقت حکومت نے پابندی کافیصلہ کیا ہے وہ خود ہی سرکار کا منشاء اورمقصد واضح کررہا ہے۔ ‘‘ اس واضح موقف کے باوجود اب مہاراشٹر میں رضا اکیڈمی پر پابندی کا شوشہ چھوڑا جارہا ہے۔ بی جے پی کے حامی سومیت ٹھاکر نے نوراتری کے بعد وزیر اعلی ٰ شندے اور نائب وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس کے ذریعہ ٹوئٹر پر مذکورہ پابندی کے امکانات کا اظہار کیا ہے۔ پچھلے سال نومبر دسمبر میں بی جے پی کے سابق صدر چندرکانت پاٹل اور حالیہ صدر منگل پرساد لودھا نے سناتن سنستھا کی مانند رضا اکیڈمی پر پابندی کا مطالبہ کیا تھا اور نرائن رانے کے بیٹے نے دھمکی دی تھی وہ رضا اکیڈمی کو اکھاڑ پھینکیں گے۔ کیا پدیّ کیا پدیّ کا شوربہ اس کے باوجود ایسی کی دھمکی قابلِ مذمت ہے۔
رضا اکیڈمی ملت پر ہونے والے مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتی رہی ہے لیکن اس کو بلاثبوت روہنگیا مسلمانوں کے حق ہونے والے احتجاج کے بعد پھوٹنے والے تشدد سے جوڑ دیا جاتا ہے حالانکہ وہ کون لوگ تھے؟ کہاں سے آئے تھے یہ اب بھی مشکوک ہے۔ نوپور شرما کی بدزبانی کے بعد امراوتی میں ہونے والے قتل کے لیے بھی بلاوجہ رضا اکیڈمی کوموردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے حالانکہ ان بے بنیاد الزامات کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ حکومت کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ رضا اکیڈمی پر پابندی کومسلمانوں پر حملہ شمار کیا جائے گا اور امت اس کےخلاف ہر طرح سے احتجاج کرے گی۔ پاپولر فرنٹ آف انڈیا پر یو اے پی اےکے تحت پابندی لگا ئی گئی ہے مگر اس قانون کو بھی عدالت عظمیٰ میں چیلنج کیا گیا ہے اور معاملہ زیر سماعت ہے۔ عدالت اگر اس پر بھی بغاوت کے قانون کی مانند روک لگا دے تو پی ایف آئی پر پابندی بھی غیر قانونی ہوجائے گی نیز دوسری تنظیموں کو ہراساں کرنے کا مذموم سلسلہ بھی بند ہوجائے گا۔ بی جے پی کوفی الحال انتخابات میں کامیابی کی فکر ستا رہی ہے اور اسی لیے یہ جبرو استبداد کا کھیل کھیلا جارہا ہے۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449481 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.