شیش محل میں رہنے والوں کی سنگ باری


کانگریس میں جب سے صدارتی انتخاب کا اعلان ہوا ہے گودی میڈیا یہ تاثر دینے کی کوشش کررہا ہے کہ گاندھی خاندان کے باہر یہ عہدہ کسی کو نہیں ملتا اور اگر مل بھی جائے تو اسے رسوا کرکے بھگا دیا جاتا ہے۔ سچائی تو یہ ہے کہ آزادی کے بعد اس عہدے پر فائز ہونے والے 16؍ لوگوں میں سے صرف پانچ کا تعلق گاندھی نہرو خاندان سے تھا ۔ اس خاندان کا صدر 39؍ سالوں تک کانگریس کی صدارت پر براجمان رہا لیکن اگر سونیا گاندھی کے 22؍ سال کم کردئیے جائیں تو باقی چار لوگ صرف 17؍ سالوں تک ہی اس عہدے پر فائز رہے ۔ان غیر گاندھی صدور میں سے سیتا رام کیسری کے بعد سونیا گاندھی صدارت کے عہدے پر فائز ہوئی تھیں ۔ دن رات کانگریس پر تنقید کرنے والے میڈیا کو فی الحال کیسری بہت یاد آرہے ہیں کیونکہ کانگریسیوں نے اپنے بزرگ صدر کو خوب ذلیل کرکے ہٹایا تھا ۔ انتخاب کے بعدجب وہ لوٹنے لگے تو کچھ شریر کانگریسیوں نے ان دھوتی کھینچنے کی رسواکن حرکت بھی کی تھی ۔ اس لیے میڈیا بار بار ان یادوں کو تازہ کرکے کانگریس کو گھیرنے کی کوشش کررہا ہے۔

ان واقعات کو یاد کرکرکے کانگریس کو بدنام کرنے والا میڈیا بی جے پی کے ذریعہ ان کے صدور کی بدسلوکی پر لب کشائی کی جرأت نہیں کرتا حالانکہ اس معاملے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حالت بھی بہت مختلف نہیں ہے۔ بی جے پی کے بانیوں میں شامل لال کرشن اڈوانی کو تو سیتا رام کیسری کی طرح تین مرتبہ رسوائی کا سامنا کرنا پڑاحالانکہ وہ سب سے زیادہ گیارہ سال صدر رہے اور اگر درمیان میں ا نہیں ہٹایا نہیں جاتا تو پندرہ سال پورا کرتے۔ ویسے اڈوانی جی جن سنگھ میں بھی صدر رہ چکے تھے لیکن بی جے پی کی اپنی تیسری میقات میں پارٹی صدر کے طور پر پاکستان میں جاکر دئیے جانےوالے بیان نے ان کی کایا پلٹ دی۔ اپنی شبیہ سدھارنے کی خاطر اڈوانی نے سب سے پہلے تو بابری مسجد کی شہادت کو مایوس ترین دن قرار دے دیاتھا۔ اس کے بعد تقسیم ملک کو ناقابلِ تبدیلی عمل کہہ دیا ۔ جوش خطابت میں وہ یہاں تک بول گئے کہ ہر ہندوستانی میں ایک پاکستانی موجود ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی تعریف میں انہیں ہندو مسلم اتحاد کی عظیم علامت بنادیا۔

اس کے بعداڈوانی کا سب کیا کرایا برباد ہوگیا ۔ پورا سنگھ پریوار ان کا دشمن بن گیا اور بالآخر انہیں استعفیٰ دینے پر مجبور ہونا پڑا۔ اس سانحہ کے ۸ سال بعد جب گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو بی جے پی کی انتخابی مہم کمیٹی کا سربراہ بنایا گیا تو انہوں نے اس فیصلے کے خلاف بھی تمام عہدوں سے استعفیٰ دے دیا مگر ان کی ایک نہیں چلی۔ پارٹی کے صدر اور اڈوانی کے وفادار سمجھے جانے والے راجناتھ سنگھ نے مذکورہ فیصلہ بدلنے سے صاف انکار کردیا۔ اڈوانی جی منہ تکتے رہ گئے اور کچھ نہیں کرسکے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی عادت کے مطابق اڈوانی سے سود سمیت انتقام لیا اور انہیں ’’مارگ درشک منڈل‘‘ کا راستہ دکھا دیا۔ اس وقت تو خیر وہ رکن پارلیمان تھے لیکن آگے چل کر ان کا ٹکٹ بھی کاٹ دیاگیا ۔ سیاسی جماعتوں میں اپنے صدور کے ساتھ یہ سب تو ہوتا ہے لیکن بی جے پی کا حال اس معاملے میں کچھ زیادہ ہی خراب ہے۔

آزادی کے بعد کانگریس نے 1970؍ میں پہلی بار بابو جگجیون رام نامی دلت رہنما کو اپنا صدر بنایا تھا اس کے بعد اب ملک ارجن کھڑگے پر داوں کھیلا جارہا ہے ۔ بی جے پی بھی آندھرا پردیش کے بنگارو لکشمن نامی دلت رہنما کو پہلی اور آخری بار صدر بنا چکی ہے ۔ اس وقت پارٹی پر اڈوانی جی قابض تھے اس کے باوجود وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے اپنے عہدے کا استعمال کرکے بنگارو لکشمن کو صدر بنا دیا۔ یہ بات یقیناً نائب وزیر اعظم لال کرشن اڈوانی کو ناگوار گذری ہوگی ۔ یہ ان کے سیاسی مستقبل کے لیے بھی خطرناک فیصلہ تھا اس لیے بنگارو کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کا تصور محال ہے۔ ان کو تہلکہ نامی جریدے کے نامہ نگار نے رشوت کی پیشکش کرکے ویڈیو بنالی۔ اس کے بعد ان پر مقدمہ چلا اور چار سال کی سزا بھی ہوئی ۔ بی جے پی کے زیر اقتدار وقوع پذیر ہونے والے ان واقعات کر دیکھ اس بات کا گمان گزرتا ہے کہ انہیں اس کیس میں جان بوجھ کر پھنسایا گیا ہو کیونکہ اڈوانی کے سیاسی حریف جارج فرنانڈیس پر بھی اسی طرح کی بدعنوانی کا الزام لگا اور انہیں بھی بنگارو کی مانند استعفیٰ دینا پڑا۔ ان دونوں کے انجام میں یہ فرق ہے کہ عدالت کا فیصلہ آنے سے قبل جارج فرنانڈیس دارِ فانی سے کوچ کرچکے تھے لیکن اسی معاملے میں جیا جیٹلی مجرم پائی گئیں یعنی اگر وہ حیات ہوتے تو انہیں بھی سزا ہوتی۔بنگارو لکشمن کے بعد جانا کرشنا مورتی بی جے پی کے صدر نشین ہوئے ۔دلت صدر کے بعد نامبیار برہمن اٹل کی نہیں بلکہ اڈوانی کی پسند تھی ۔ اس طرح پارٹی پر پھر ایک بار شکنجہ مضبوط ہوگیا تھا۔

بی جے پی کی گولڈن جوبلی کے موقع پر اٹل جی نے کھلے عام حکومت اورپارٹی کے درمیان ترسیل کی کھائی کا ذکر کیا تھا اور کرشنا مورتی نے بھی ’میں ‘ کو’ ہم‘ میں ضم کرنے کی بات کہہ کر اٹل جی پر نشانہ سادھا تھا ۔ پندرہ ماہ کے بعد ان کو صدارت سے ہٹا کر مرکزی وزیر بنایا گیا اور ایک سال کے بعد وہ عہدہ بھی چھین لیا گیا ۔ جاتے جاتے اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے اپنے دل کا درد بیان کردیا تھا ۔ ان کے بعد بھی اڈوانی کے وفادار وینکیا نائیڈو نے پارٹی کی کمان سنبھالی اور ہنوز اپنے گرو کے عقیدتمند ہیں ۔ انہیں اس وفاداری کی جو قیمت چکانی پڑی اس کی تفصیل بھی کم دلچسپ نہیں ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے ابتداء میں ان کو انسانی وسائل کا وزیر بنایا لیکن بہت جلد انہیں نائب صدر بناکر عملی سیاست سے باہر کاراستہ دکھا دیا گیا ۔ اس کے بعد توقع تھی کہ صدر مملکت بنایا جائے گا لیکن لال کرشن اڈوانی کی وفاداری کے سبب ان کے بجائے دروپدی مرمو کو ملک کا صدر بنایا گیا ۔ اس طرح نائیڈو کی سیاسی زندگی کا خاتمہ ہو گیا۔

راجناتھ سنگھ کو دو مرتبہ پارٹی میں صدر بننے کا موقع ملا ۔ راجناتھ کی خوبی یہ ہے کہ انہیں اٹل اور اڈوانی دونوں کا اعتماد حاصل تھا مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انہوں نے اپنے گرواڈوانی کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر وزیر اعظم نریندر مودی کا ایک ایسے وقت میں ساتھ دیا جب وہ بری طرح پھنس گئے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ مودی جی کو انہیں اپنی پہلی مدت کار میں وزیر داخلہ بنانا پڑا۔ پہلے پانچ سالوں تک کسی طرح برداشت کرنے کے بعد دوسری بار انتخابی کامیابی کے بعد مودی جی اس اہم ترین عہدے پر اپنے وفادار امیت شاہ کو لے آئے۔ اس طرح گویا راجناتھ کو وزیر دفاع بناکر دفاع کردیا گیا۔ نتن گڈکری بی جے پی کے سب سے کم عمر صدر تھے۔ ان کی جڑیں آر ایس ایس میں بہت گہری تھیں ۔ ان پر بدعنوانی کے سنگین الزامات لگے اور بنگارو لکشمن کے بعد رشوت خوری کے سبب ان کو بھی استعفیٰ دینا پڑا۔

نتن گڈکری کی ذاتِ والا صفات سنگھ کی تربیت کا بہترین نمونہ بن کر قومی سیاست میں ابھری ۔ آر یس ایس تو انہیں مودی کے متبادل کے طور پر دیکھتا تھااسی بل بوتےپر وہ وقتاً فوقتاً مودی پر تنقید کرنے کی بھی جرأت کرتے رہتے تھے۔ وزیر اعظم مودی نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے انہیں وزیر سڑک اور مواصلات بناکررکھا ہوا ہے لیکن ابھی حال میں ان کے بھی پر کتر دئیے گئے ۔ نتن گڈکری کو نہ صرف پارٹی کی مجلس عاملہ سے نکال باہر کیا گیا ہے بلکہ بی جے پی کے اسٹار پرچارک کی فہرست میں سے بھی ان کا نام غائب کردیا گیا ہے۔ بی جے پی کے اندر یہ سارے فیصلے اگر نامزدگی کے بجائے رائے شماری سے ہوتے تو ایسا ممکن نہیں تھا لیکن مودی جی کو انتخاب کروا کر ان عہدوں کو پرُ کرنے کا مشورہ دینے والے کو کالے پانی سے کم سزا نہیں ملے گی ۔ اس لیے آمریت کے اثرات پارٹی یا ملک پر یکساں پڑتے ہیں ۔

نتن گڈکری کے ساتھ کیا جانے والا یہ ناروا سلوک در اصل اس بات کا اشارہ تھا کہ اپنی چونچ قابو میں رکھیں ورنہ بنگارو لکشمن کی مانند بدعنوانی کے الزام میں انہیں بھی جیل کی ہوا کھانی پڑسکتی ہے۔ ایسے میں آر ایس ایس کا آشیرواد بھی کسی کام نہیں آ سکے گا ۔ فی الحال تو مودی جی کا یہ نسخہ کارگر ثابت ہوا ہے کیونکہ تازہ رسوائی کے بعد وہ اپنے من کی بات کہنے کی ہمت نہیں جٹا پارہے ہیں۔ بی جے پی میں اب جگت پرشاد نڈا پارٹی کے صدر ہیں ۔ وہ اس قدر غیر مقبول ہیں کہ ملک کی اکثریت ان کا پورا نام بھی نہیں جانتی۔ نڈا کی حیثیت کا اندازہ لگانے کے لیے یوٹیوب پر ایک ویڈیو دیکھ لینا کافی ہے۔ اس بات کا علم نڈا کو تھا کہ پارٹی میں سب سے اعلیٰ عہدہ صدر کا ہوتا ہے لیکن وہ بیچارہ بھی وزیراعظم کے آگے نہیں جاسکتا ۔ اس لیے وہ مودی کے پیچھے چل رہے تھے یہ بات وزیر اعظم کے دست راست امیت شاہ کو ناگوار گذری تو انہوں گریبان پکڑ کر پارٹی کے صدر جے پی نڈا کو بیچ سے ہٹا کر پیچھے کردیا ، بدقسمتی سے یہ منظر ویڈیو میں قید ہوگیا۔ اس کے بعد نہ تو مودی جی نے امیت شاہ کی سرزنش کی اور نہ اس ویڈیو کو یوٹیوب سے ہٹایا گیا تاکہ دوسروں کے لیے باعثِ عبرت بنی رہی اور کوئی ایسی غلطی نہ دوہرائے۔ اپنے صدور کے ساتھ ایسی بدسلوکی کرنے والی بی جے پی کو دوسروں پر تنقید کرنے حق نہیں ہے۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449122 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.