دوستی ہو یا دشمنی دونوں ہمیشہ نہیں رہتے۔۔ اگر آج عمران خان اور شہباز شریف ہاتھ ملا لیں تو پاکستان کے کونسے 5 کام ہوسکتے ہیں؟

image
 
عمران خان کو وزارت عظمیٰ سے ہٹانے کے بعد ملک میں جاری سیاسی ہیجان کسی صورت کم ہونے میں نہیں آرہا، عمران خان کسی بھی طرح شہباز شریف کو وزیراعظم ماننے کیلئے تیار نہیں کیونکہ شائد انہیں ملک بھی کرکٹ ٹیم کی طرح لگتا ہے۔ ملک میں جاری سیاسی رسہ کشی کی وجہ سے معیشت انتہائی مشکل حالات سے دوچار ہے اور ڈار کی واپسی کے بعد ڈالر بھی تھوڑا بہت واپس آیا لیکن ابھی بھی بہت دور ہے۔
 
کہتے ہیں کہ سیاست میں کوئی بھی بات حرف آخر نہیں ہوتی اور دوستی اور دشمنی مفادات کا کھیل ہے جیسا کہ ہم نے ماضی کے دیرینہ دشمن نواز شریف اور آصف زرداری کو بغلگیر ہوتے ہوئے دیکھا اور عمران خان کو مولانا فضل الرحمان کے پیچھے کھڑے بھی دیکھا۔
 
یہ حقیقت ہے کہ ماضی میں عمران خان خود کرسی چھوڑنے کے دعوے کرتے رہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ کرسی جانے کے بعد عمران خان تاحال صدمے سے باہر نہیں نکل سکے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ گھوڑا گھاس سے دوستی نہیں کرسکتا ہے ویسے سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ عمران خان اور شہباز شریف کبھی دوست نہیں بن سکتے۔
 
image
 
ویسے خان صاحب ماضی میں کسی کو دوستی کے لائق تو کیا چپڑاسی بنانے کیلئے بھی تیار نہیں تھے لیکن پھر چشم فلک نے دیکھا کہ چپڑاسی کیلئے نا اہل شخص خان صاحب کا معتمد خاص رہا۔ مشرف اور زرداری کی لوگ سے اتر کرٹی وی پر بیٹھ کر خان صاحب کی رنگین زندگی کی سنگینیاں لوگوں کو بتانے والا شخص عمران خان کی اطلاعات لوگوں تک پہنچاتا رہا اور تو اور پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو اپنا سینہ تان کر خان صاحب کی عزت میں چار چاند لگاتا رہا۔
 
کسی کو یاد ہو کہ نہ یاد ہو لیکن ہمیں یاد ہے زرا زرا کہ عمران خان نے کراچی سے اپنا پہلا الیکشن لڑا گو کہ خاص کامیابی نہ ملی لیکن کراچی نے پھر بھی عمران خان کا مان رکھا لیکن عمران خان کے کراچی سے وعدے کبھی وفا نہ ہوئے۔
 
عمران خان نے اپنی سب سے ناپسندیدہ پارٹی جسے کبھی وہ دہشت گرد جماعت کہتے تھے اس سے بھی ہاتھ ملا تو کیا ہوا کیا آپ بھول گئے کہ عمران خان نے ماضی میں اقتدار کی سیڑھی پر چڑھنے کیلئے کیا نواز شریف، پرویز مشرف، مولانا فضل الرحمان، قاضی حسین احمد، طاہرالقادری اور یہاں تک کہ پیپلزپارٹی کا ساتھ نہیں دیا تھا؟۔
 
image
 
جی ہاں بالکل!۔ خان صاحب نے ہر جماعت اور ہر سیاستدان کے پیچھے کھڑے ہوکر نعرے لگائے۔ آج خان صاحب طاقت کے نشے میں چور ہوکر کبھی ججوں کو گالیاں دیتے ہیں کبھی جرنیلوں کو دھمکیاں دیتے ہیں۔
 
ملک میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معیشت بھی شدید مشکلات سے دوچار ہے لیکن اگر عمران خان شہبازشریف سے ہاتھ ملا لیتے ہیں تو شائد ملک میں سیاسی عدم استحکام آجائے جس سے یہ پانچ کام یعنی، معاشی استحکام آسکتا ہے، ڈالر سستا ہونے سے مہنگائی کم ہوسکتی ہے، ملک میں انتشار کی فضاء ختم ہوسکتی ہے، ملک میں پھیلتی نفرتوں میں کمی آسکتی ہے اور خان صاحب کے دوبارہ اقتدار کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ ہونے کو تو بہت کچھ ہوسکتا ہے لیکن خان صاحب اقتدار کیلئے جب پرویز الٰہی کے گھٹنوں کو ہاتھ لگا سکتے ہیں تو شہباز شریف سے ہاتھ ملانے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
YOU MAY ALSO LIKE: