ربیع الاول میں جشن منانا،اور چراغاں کرنا، رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی مناسبت سے گھروں کو سجانا اسلامی تعلیمات کا
حصہ نہیں ہے، بلکہ یہ سب کرنا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ حضورِ اکرم ﷺ نے
نبوت ملنے کے بعد اپنی حیاتِ دنیاوی (جس کی مدت 23 سال ہے) میں ایک مرتبہ
بھی اپنی ولادت کے دن جشن نہیں منایا اور صحابہ کرامؓ، تابعین، تبع تابعین،
ائمہ مجتہدین نے بھی اس کو کبھی نہیں منایا، خیر القرون اور تقریباً
ابتدائی چھ صدیوں کے علماء صلحاء اور اولیاءِ کرام نے اسے نہیں منایا،
ساتویں صدی ہجری میں ایک بادشاہ نے اپنی حکم رانی بچانے کے لیے عیسائیوں کی
جانب سے کرسمس منانے کے مقابلے میں یہ سلسلہ ایجاد کیا، لہذا ربیع الاول
میں ثواب سمجھ کر اہتمام سے چراغاں کرنا بدعت ہے۔ نیز ان ایامِ مخصوصہ میں
خاص طور پر کھانے پینے کی اشیاء بنانا اور تقسیم کرنا بھی بدعت ہے، لہذا
ایسے کاموں سے اجتناب کرنا شرعاً لازم ہے جن کو عبادت و ثواب کی امید کے
ساتھ نہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بذاتِ خود کیا ہو اور نہ ہی صحابہ
کرام و خیر القرون میں کسی نے کیا ہو، باوجود یہ کہ یہ حضرات نیکیوں کے
معاملے میں ہم سے زیادہ حریص تھے، اور اس زمانے میں بھی اس کا وجود ممکن
تھا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ثواب پہنچانا اگر مقصود ہو تو اس کے لیے
کسی مہینے یا دن کا انتظار نہیں کرنا چاہیے، بلکہ کسی بھی دن جومیسر ہوصدقہ
کرکے اس کا ثواب بخش دیاجائے۔
لہذا ہمیں اپنے آپ کو اور دیگر مسلمانوں کو ان بدعات و خرافات سے بچانے کی
کوشش کرنی چاہیے، اس ماہ مبارک میں ہمیں اپنی زندگی اور اعمال پر غور کرنا
چاہیے کہ ہماری زندگی سنتوں کے مطابق بسر ہورہی ہےیا نہیں؟ جن جن اعمال میں
ہم سنت سے دور ہیں ان اعمال میں ہمیں سنتوں کی پیروی کی کوشش کرنی چاہیے۔
رسول اللہ ﷺکے ارشاد کے مطابق جو شخص فساد کے زمانے میں سنتوں کے احیاء کی
کوشش کرتاہے تو اسے سو شہیدوں کا ثواب ملتاہے؛ لہذا ہمیں نبی کریم ﷺکی
سنتوں اور آپ کی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنے کی فکر کرنی چاہیے۔
مشکوۃ المصابیح میں ہے:
"عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " من
تمسك بسنتي عند فساد أمتي فله أجر مائة شهيد."
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی
اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:میری امت کے بگڑنے کے وقت جس آدمی نے میری
سنت کو مضبوطی سے تھاما اس کو سو شہیدوں کا ثواب ملے گا۔
تشریح: "ایسے عظیم اجر کے ملنے کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح ایک شہید دین اسلام
کو زندہ رکھنے اور اس کی شان و شوکت کو بڑھانے کی خاطر دنیا کی تمام
مصیبتیں جھیلتا ہے؛ یہاں تک کہ اپنی جان بھی قربان کر دیتا ہے، اسی طرح جب
کہ دین میں رخنہ اندازی ہونے لگے اور فتنہ فساد کا دور دورہ ہو تو سنت کو
رائج کرنے اور علوم نبوی کو پھیلانے میں بے شمار مصائب و تکالیف کا سامنا
ہوتا ہے بلکہ بسا اوقات اس سے بھی زیادہ مشقتیں اٹھانی پڑتی ہیں؛ اس لیے اس
عظیم اجر کی خوش خبری دی جا رہی ہے۔" (مظاہر حق)
وفیه أیضًا:
"و عن بلال بن الحارث المزني قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من
أحيا سنة من سنتي قد أميتت بعدي فإن له من الأجر مثل أجور من عمل بها من
غير أن ينقص من أجورهم شيئًا، و من ابتدع بدعة ضلالة لايرضاها الله و رسوله
كان عليه من الإثم مثل آثام من عمل بها لاينقص من أوزارهم شيئًا. رواه
الترمذي."
ترجمہ : حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم
صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس آدمی نے میری کسی ایسی سنت کو زندہ
کیا (یعنی رائج کیا) جو میرے بعد چھوڑ دی گئی تھی تو اس کو اتنا ہی ثواب
ملے گا جتنا کہ اس سنت پر عمل کرنے والوں کو ملے گا بغیر اس کے کہ اس (سنت
پر عمل کرنے والوں) کے ثواب میں کچھ کمی کی جائے۔ اور جس آدمی نے گم راہی
کی کوئی ایسی نئی بات (بدعت ) نکالی جس سے اللہ اور اس کا رسول خوش نہیں
ہوتا تو اس کو اتنا ہی گناہ ہوگا جتنا کہ اس بدعت پر عمل کرنے والوں کو
گناہ ہوگا بغیر اس کے کہ ان کے گناہوں میں کوئی کمی کی جائے۔ (جامع ترمذی )
اس حدیث کی تشریح میں صاحبِ مظاہر حق لکھتے ہیں :
"مطلب یہ ہے کہ سنت پر عمل کرنے والوں کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوتی اور
سنت کو رائج کرنے والے کو بھی اس کے برابر ثواب ملتا ہے ، اسی طرح بدعت پر
عمل کرنے والوں کے گناہوں میں کچھ کمی نہیں ہوتی اور بدعت پیدا کرنے والے
کے نامہ اعمال میں اس کے برابر گناہ لکھا جاتا ہے۔ یہاں سنت سے مراد مطلق
دین کی بات ہے خواہ وہ فرض ہو یا واجب وغیرہ جیسے کہ نماز جمعہ کہ لوگوں نے
اسے چھوڑ رکھا ہو اور اسے تبلیغ وارشاد کے ذریعہ قائم کیا جائے یا ایسے ہی
مصافحہ اور دیگر مسنون چیزیں جو متروک العمل ہو چکی ہوں، ان سب کو رائج
کرنا بے شمار حسنات کو موجب ہے۔"
فقط واللہ اعلم
|