اپنے پیروں سے وہیل چئير تک کا سفر بہت مشکل تھا، سال میں دو بار اپنی سالگرہ منانے والی بہادر ماں ایسا کیوں کرتی ہے؟ جانیں

image
 
اکثر نعمتوں کی قدر انسان کو ان کے چھن جانے کے بعد ہوتی ہے اگر آپ صبح اٹھ کر اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر روزمرہ کی ضروریات سے فارغ ہو سکتے ہیں تو یہ بھی ایک بہت بڑی نعمت ہے مگر اس کا احساس ان لوگوں سے پوچھیں جن سے یہ نعمتیں چھن گئی ہیں-
 
پولیس کانسٹبل عائشہ ناز کا اپنے پیروں سے وہیل چئیر تک کا سفر
27 سالہ عائشہ ناز جو سال 2018 سے سندھ پولیس میں بطور کانسٹبل اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہی تھیں ان کی کہانی ایسے تمام لوگوں کے لیے ہمت و حوصلہ کا ایک سبق ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں پر شکر ادا کرنے کے بجائے شکوہ کرتے نظر آتے ہیں-
 
عائشہ ناز اپنی کہانی سناتے ہوئے کہتی ہیں کہ یکم جون 2020 کو وہ اپنی ڈیوٹی پر جانے کے لیے نکلیں وہ بائک پر سوار تھیں ان کی بائک کو ایک واٹر ٹنکر نے ہٹ کیا جس سے وہ سڑک پر گر گئیں اور تیز رفتار ٹنکر ان کی دونوں ٹانگوں کو کچلتے ہوئے گزر گیا-
 
پہلی ٹانگ نے ایک ہفتے بعد ساتھ چھوڑ دیا
عائشہ ناز اس حادثے کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ ان کی دونوں ٹانگیں بری طرح کچلی گئی تھیں پہلا آپریشن 24 گھنٹوں پر محیط تھا جس کے بعد ڈاکٹروں نے فیصلہ کیا کہ ان کی دائيں ٹانگ کی نسیں اس بری طرح کچلی جا چکی ہیں کہ اگر اس کو نہ کاٹا گیا تو زہر پورے جسم میں پھیل سکتا ہے اس وجہ سے ان کی ایک ٹانگ پہلے ہفتے میں ہی کاٹ دی گئی-
 
 
دوسری ٹانگ بھی کاٹنی پڑی
اس کے بعد ڈاکٹروں نے ان کی بائيں ٹانگ اس امید پر چھوڑ دی کہ وقت کے ساتھ اس میں دوران خون جاری ہو جائے گا مگر ایک مہینے تک اس کی حالت میں بہتری نہ آنے پر مجبوراً ڈاکٹروں کو اس ٹانگ کو بھی کاٹنے کا فیصلہ کرنا پڑا- اور اس طرح سے صرف ایک مہینے کےعرصے میں عائشہ ناز اپنے پیروں سے وہیل چئير پر منتقل ہو گئيں۔
 
اپنے پیروں سے وہیل چئیر کا سفر
عائشہ کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے پہلی بار وہیل چئیر کو دیکھا تو اس کو دیکھ کر بہت رونا آیا ان کا کہنا تھا کہ ان کو یہ محسوس ہوا کہ یہ چیز تو بوڑھے لوگوں کے لیے ہوتی ہے میں صرف 27 سال کی عمر میں اس کو کیسے استعمال کروں گی؟ مگر پھر وقت نے ثابت کیا کہ یہ ہی چیز ان کا سب سے بڑا سہارا ثابت ہوئی-
 
دوبارہ زندگی کو حوصلہ دینے کا سبب
عائشہ ناز کا اس حوالے سے یہ بھی کہنا تھا کہ ان تمام حالات میں ان کا سب سے بڑا سہارا ان کا پانچ سالہ بیٹا ثابت ہوا جس کی اس حادثے سے قبل بھی وہ بطور سنگل مدر پرورش کر رہی تھیں ان کے بیٹے نے ان کو دوبارہ زندگی کی طرف لوٹانے میں بہت اہم کردار ادا کیا-
 
اس نے ماں کو محتاجی کا احساس دلانے کے بجائے اس کا بہت ساتھ دیا یہی وجہ تھی کہ حادثے کے ایک سال بعد ہی عائشہ نے دوبارہ سے نہ صرف پڑھائی شروع کر دی بلکہ انہوں نے صرف اس لیے ہمت کی کہ وہ اپنے بچے کو زندگی کی وہ ساری آسائشیں دے سکیں جس کی اس کو آنے والی زندگی میں ضرورت ہو سکتی ہے-
 
image
 
سال میں ایک کے بجائے دو بار سالگرہ منانا
اپنی زندگی کے سفر کے حوالے سے عائشہ کا کہنا ہے کہ وہ ایک کے بجائے دو بار سالگرہ مناتی ہیں ان کو دوسری زندگی یکم جون کو ملی جو کہ ان کی زندگی کا ایک بڑا وقت تھا جس نے ان کی پوری زندگی اور سوچ کو بدل کر رکھ دیا-
 
معذوری کے ساتھ زندہ رہنے کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ معذوری کو اگر انسان اپنی کمزوری بنانے کے بجائے حوصلہ بنا لے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت آپ کو شکست نہیں دے سکتی ہے-
 
عائشہ ناز کی زندگی ان تمام لوگوں کے لیے ایک سبق ہے جو اپنی معذوری کو بہانہ بنا کر ہاتھ پھیلا دیتے ہیں-
 
YOU MAY ALSO LIKE: