زمانے میں انقلاب اور زمانے کا انقلاب !!

#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَةُالنازعات ، اٰیت 1 تا 26 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
والنٰزعٰت
غرقا 1 والنٰشطٰت
نشطا 2 والسٰبحٰت
سبحا 3 فالسٰبقٰت سبقا 4
فالمدبرٰت امرا 5 یوم ترجف
الراجفة 6 تتبعاالرادفة 7 قلوب
یومئذ واجفة 8 ابصارھا خاشعة 9
یقولون ءانا لمردودون فی الحافرة 10
ءاذا کنا عظاما نخرة 11 قالوا تلک اذا کرة
خاسرة 12 فانما ھی زجرة واحدة 13 فاذاھم
بالساھرة 14 ھل اتٰک حدیث موسٰی 15 اذنادٰہ ربه
بالوادالمقدس طوٰی 16 اذھب الٰی فرعون انه طغٰی 17
فقل ھل لک الٰٓی ان تزکٰی 18 واھدیک الٰی ربک فتخشٰی 19
فارٰه الاٰیة الکبرٰی 20 فکذب و عصٰی 21 ثم ادبر یسعٰی 22 فحشر
فنادٰی 23 فقال انا ربکم الاعلٰی 24 فاخذہ اللہ نکال الاٰخرة والاولٰی 25
ان فی ذٰلک لعبرة لمن یخشٰی 26
اے ہمارے رسول ! جب کسی قوم کی جان پر جاں کنی کا عالَم طاری ہو جاتا ہے اور اُس قوم کی زندگی کے دھاگے پر موت کی ایک سخت گرہ لگنے لگتی ہے تو ہم اُس قوم میں انقلاب برپا کرنے کے لئے اُس میں اپنے کسی نبی کو ما مُور کر دیتے ہیں جو زمامِ اقتدار اُس قوم کے ظالموں کے ہاتھ سے چھین کر اُس قوم کے مظلموں کے ہاتھ میں دے دیتا ہے اور پھر جب اِنقلاب کے اِس پہلے جَھٹکے کے بعد اُس قوم کو دُوسرا جَھٹکا لگتا ہے تو اُس قوم کا طاقت ور طبقہ اُوپر سے نیچے اور کم زور طبقہ نیچے سے اُوپر آجاتا ہے اور زمانے میں آنے والے اِس انقلاب سے اُس قوم کو زمانے کے اُس انقلاب کا کُچھ اندازہ ہو جاتا ہے جس انقلاب نے آنا ہے اور زمین و آسمان کے اِس سارے نظام کو زیر و زبر کر جانا ہے ، جب انقلابِ عالَم کا وہ دن آۓ گا تو سرکشوں کے دل خوف سے دھڑک رہے ہوں گے اور اِن کی آنکھیں شرم سے جُھکی ہوئی ہوں گی حالانکہ اُس انقلاب سے پہلے جب اُن کے ساتھ اُن کے مکافاتِ عمل کی بات کی جاتی ہے تو وہ اِس بات کو سن کر ایک طنز بھری ہنسی ہنستے ہوۓ ایک دُوسرے سے کہتے ہیں کہ اگر سچ مُچ ہی اِن کم زور لوگووں سے چھینی ہوئی ہماری یہ جاہ و حشمت ہم سے چھین لی گئی تو یہ واقعی ہمارے لئے ایک گھاٹے کا سودا ہو گا اور ہم دوبارہ اُسی پہلی جگہ پر پُہنچ جائیں گے اور کھوکھلی ہڈیاں بن کر رہ جائیں گے ، آپ اِس بے خبر قوم کے اِن بے خبر اَفراد کو آگاہ کردیں کہ جس کام کو تُم ہمارے لئے بہت مُشکل تصور کرتے ہو وہ کام ہمارے لئے بہت آسان کام ہے جو ہماری دل ہلا دینے والی ایک جھڑکی ہوگی جو تُم سب کو اُس میدان میں لے آۓ گی جس میں تُم سب کے سب فیصلے ہو جائیں گے ، کیا تُم تک انسانی تاریخ کا وہ اَحوال نہیں پُہنچا جب فرعون نے ہمارے بندوں کو اپنا طویل مُدتی غلام بنا لیا تھا تو ہم نے مُوسٰی کی تحریکِ آزادی کے صدیوں پر محیط ہونے والے انقلاب کو ایک لَمحے میں سمیٹ کر مُوسٰی کو اَچانک ہی فرعون کے پاس جانے اور اُس کو راہِ راست پر لانے کا ایک فوری حُکم جاری کیا تھا اور مُوسٰی نے ہمارے حُکم پر فرعون کو حق پرستی کی تلقین کی تھی جو اُس نے رَد کرنے کے بعد اپنی قوم کے سامنے اپنی ربوبیت کا اعلان کیا تھا اور اپنی قوم کو مُتحد کر کے مُوسٰی کے مقابلے میں کھڑا کر دیا تھا اور جب وہ اپنی سرکشی کی اِس انتہا پر پُہنچ گیا تھا تو ہم نے اُس کو اُس کے اُن جرائم میں پکڑ لیا تھا جو جرائم اُس نے مُوسٰی کی دعوت سے پہلے اور بعد کیئے تھے ، انسانی تاریخ کا یہ واقعہ ہر اُس انسان کے لیئے ایک عبرت ہے جو صاحبِ عبرت ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کا مقصدی موضوع بھی یومِ قیامت و حسابِ یومِ قیامت اور سزائے یومِ قیامت ہے ، عُلمائے تفسیر نے اِس سُورت کی پہلی پانچ اٰیات سے اگرچہ موت کے وہ فرشتے مُراد لیئے ہیں جو انسان کی جان لینے کے لئے انسان کے پاس آتے ہیں اور انسان کی جان لے کر واپس چلے جاتے ہیں لیکن زندہ انسانوں کے جسم سے جان نکالنا موت کے فرشتوں کے روزہ مرہ معمول کا وہ عام سا عمل ہے جس عمل کا قیامت کے اِس مضمون کے ساتھ کوئی بھی تعلق نہیں ہے اور اُن فرشتوں کے انسانی جان میں ڈوب جانے اور جان لینے کے بعد اُبھر آنے کا جو روایتی ترجمہ کیا جاتا ہے وہ بھی اِن اٰیات کے اُس مقصدی مفہوم سے مطابقت نہیں رکھتا جو مقصدی مفہوم اِن اٰیات کا عام طور پر بیان کیا جاتا ہے کیونکہ انسانی جان انسانی جسم کے ساتھ کُچھ اِس مضبوطی کے ساتھ جکڑی ہوئی تو بہر حال نہیں ہوتی کہ پہلے بہت سے فرشتے اجتماعی زور لگا کر انسانی جسم میں داخل ہوں ، پھر اجتماعی زور لگاکر جان کو جسم سے کھینچتے ہوئے انسانی جسم سے باہر آئیں اِس لئے اُن کے اِس ڈوبنے اور اُبھرنے کا بھی انسانی موت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے تاہم اِن کے اٰیات کے نفسِ مضمون سے جو بات قرینِ قیاس معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اِن اٰیات سے مُراد اللہ تعالٰی کے وہ اَنبیاء و رُسل ہیں جن کو اللہ تعالٰی وقتا فوقتا اُس انقلابی مشن کے ساتھ اِس زمین پر مو مُور کرتا رہا ہے جس انقلابی مشن کی تکمیل اُس کو اپنے نبی سے جس زمانے میں مطلوب تھی اور اللہ تعالٰی کے وہ تمام اَنبیاء و رُسل اپنے اپنے وقت پر اللہ تعالٰی کے اُس حُکم کے مطابق اپنی عملی جد و جُہد سے اِس زمین پر وہ عملی انقلاب برپا کرتے رہے ہیں جس انقلاب سے انسانی معاشرے کے کم زور اور پسے ہوۓ طبقات نیچے سے اُوپر آجاتے تھے اور اُن کو ظلم کی چکی میں پیسنے والے طاقت ور طبقات اُوپر سے نیچے چلے جاتے تھے اور اُن کے اُس عملی انقلاب کو دیکھ کر اُن کے زمانے کے انسان کو یہ عقلی دلیل ملتی رہی تھی کہ جس طرح اللہ تعالٰی کے اِن اَنبیاء و رُسل کا یہ انقلاب قابلِ یقین ہے جو اُنہوں نے اپنی عملی جد و جُہد سے برپا کیا ہے اسی طرح قیامت کے بارے میں اُن کا وہ انقلابی اعلان بھی قابلِ یقین ہے جس کی اللہ تعالٰی کے اِن اَنبیا ء و رُسل نے اُن کو اپنی زبان سے اطلاع دی ہے ، اِن اٰیات سے اللہ تعالٰی کے اَنبیاء و رُسل کو مُراد لینے کی دُوسری وجہ یہ بھی ہے کہ سُورَةُ الجن کی اٰیت 27 کے مطابق زمین پر جب اللہ تعالٰی کے نبی اور رسول مبعوث ہوتے ہیں تو وہ ہمیشہ ہی اللہ تعالٰی کے فرشتوں کے ایک مضبوط حفاظتی حصار میں ہوتے ہیں اِس لئے اگر اِن اٰیت سے اللہ کے نبی اور رسول مُراد لئے جائیں تو وہ فرشتے خود بخود ہی اُن کے ساتھ موجُود ہوں گے جو اِس خُدائی ضابطے کے مطابق اُن کے ساتھ ہوں گے اور اگر اِن اٰیات سے مُطلقا فرشتے مُراد لئے جائیں تو ظاہر ہے کہ اللہ تعالٰی کے انبیاء و رُسل اُن کے ساتھ موجُود نہیں ہوں گے حالانکہ زمین پر اصل کردار اللہ تعالٰی کے نبیوں اور اُس کے رسولوں کا کردار ہے جو انسانی ہدایت پر مامور ہوتے ہیں لیکن اللہ تعالٰی کے فرشتے چونکہ انسانی ہدایت پر مامور نہیں ہوتے اِس لئے زمین پر انسانی ہدایت کے حوالے سے اُن کا کوئی عملی کردار بھی نہیں ہوتا اور اِس ضمن میں تیسری قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اِس مضمون کے اِس سلسلہِ کلام میں اللہ تعالٰی نے مُوسٰی علیہ السلام کی دعوتِ نبوت اور اُن کی تحریکِ آزادی جو ذکر کیا ہے وہ بھی اِس اَمر کی ایک قوی دلیل ہے کہ اِس سُورت کے آغازِ کلام میں انسانی معاشرے میں ڈوب کر اُس معاشرے سے انقلاب کا گوہر نکالنے والے جن اہلِ قوت اَفراد کا ذکر کیا گیا ہے اُس ذکر سے اُس کے وہ اہلِ قوت انبیاء و رُسل مُراد ہیں جنہوں نے اپنی عملی جد و جُہد سے زمین پر ایک محدُود انقلاب برپا کیا ہے اور اِس محدُود انقلاب کے بعد اُنہوں نے انسان کو اِس عالَم پر آنے والے اُس بڑے انقلاب کی خبر بھی دی ہے جس کا نام قیامت ہے ، قُرآن نے قیامت کے اِس مضمون میں سُورَہِ طٰهٰ کی اٰیت 12کے بعد دُوسری بار اِس سُورت کی اٰیت 16 میں کوہِ طُور کی ایک مُقدس وادی طُوٰی میں مُوسٰی علیہ السلام کو اَچانک بلانے اور اَچانک ہی منصبِ نبوت پر فائز کر کے اَچانک ہی فرعون کی طرف بہیجنے کا جو حُکم صادر کیا ہے اُس حُکم سے اِس اَمر کا اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی کو انسان کی آزادی اتنی عزیز ہے کہ جب کوئی جابر انسان اپنے علاقے کے کم زور انسانوں پر عرصہِ حیات تنگ کر دیتا ہے تو اللہ تعالٰی اُن مجبور انسانوں کی مدد کے لئے اپنے کسی بندے کو اِس طرح اَچانک ہی کھڑا کر دیتا ہے کہ اُس بندے کے ذریعے اُن کو ملنے والے اُس انقلابِ آزادی کا کوئی وہم و گمان بھی نہیں ہوتا اور اُن مظلوم و مجبور انسانوں کو اتنی جلدی وہ آزادی مل جاتی ہے کہ اُس آزادی کا اَچانک آنے والا وہ لَمحہ اپنی جاگتی آنکھوں سے دیکھا ہوا ایک خواب محسوس ہوتا ہے اور قیامت کے اِس ذکر میں اِس واقعے کا ذکر اِس اَمر کا اشارہ ہے کہ قیامت بھی اسی طرح اَچانک وارد ہوگی کہ قیامت کے مُنکر اُس کے آنے پر اسی طرح حیران ہوجائیں گے جس طرح قومِ مُوسٰی اَچانک ملنے والی اُس لَمحہِ آزادی پر حیران ہوگئے تھے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558499 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More