اساتذہ وہ ہستی ہیں جنہیں روحانی باپ کا درجہ حاصل ہے اور
انہی ہستیوں کے نام 5اکتوبر کا دن کیا جاتا ہے ہر سال اس دن ''اساتذہ کا
عالمی دن'' یا ''ورلڈ ٹیچرزڈے'' منایا جاتا ہے یوم اساتذہ منانے کا مقصد
معاشرے میں اساتذہ کے اہم کردار کو اجاگرکرنا ہے 1994 سے منایا جانے والا
یہ عالمی دن 1966 کے یونیسکو/آئی ایل او کی سفارشات پر دستخط کی یاد میں
مناتے ہیں جو ہمیں معلمین کی تعریف، تشخیص اور بہتری'' پر توجہ مرکوز کرنا
اور اساتذہ اور تدریس سے متعلق مسائل پر غور کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے
اساتذہ کا عالمی دن منانے کے لیے یونیسکو اور ایجوکیشن انٹرنیشنل (EI) ہر
سال ایک مہم چلاتے ہیں تاکہ دنیا کو اساتذہ کی بہتر تفہیم اور طلبہ اور
معاشرے کی نشوونما میں ان کے کردار کے بارے میں آگاہی فراہم کرے کیونکہ
تربیت یافتہ اور قابل اساتذہ کے بغیر تعلیم حاصل نہیں کی جا سکتی اس وقت
تقریبا دنیا کے 100 سے زیادہ ممالک عالمی یوم اساتذہ مناتے ہیں یہ دن عام
طور پر آسٹریلوی اسکولوں کی تعطیلات کے دوران آتا ہے آسٹریلوی ریاستیں اور
علاقے یہ دن ہر سال اکتوبر کے آخری جمعہ کو مناتے ہیں پچھلے سال 2021 میں
یہ دن 29 اکتوبر بروز جمعہ کو منایا گیاتھا اساتذہ تو جو محنت کرواتے ہیں
انکے ساتھ ساتھ ہر بچے کو بنیادی تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے اور شرح
خواندگی میں اضافے کے لیے ہم سب کو ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہوئے اپنا
بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے والدین کو بھی چاہیے کہ وہ کسی صورت اپنے بچوں
کو تعلیم کے بنیادی حق سے محروم نہ رکھیں نہ صر ف ہمارے ہاں بلکہ دنیا میں
پرائمری تعلیم کی بہت اہمیت ہے کیونکہ بچے کو اسی عرصہ کے دوران تعلیم سے
رغبت یا پھر بے زاری ہوجایا کرتی تھیں آجکل کے استاد بچوں کی نفسیات کے
مطابق پڑھاتے ہیں اور جب سے مار نہیں پیار کا سلسلہ شروع ہوا ہے تب سے بچوں
کے پڑھنے کا ماحول بھی تبدیل ہوچکا ہے بچے اب خود سکول جانے کی باتیں کرتے
ہیں پہلے ایک دور ہوا کرتا تھاہائی سکولوں میں ہیڈ ماسٹر سے لیکر پی ٹی
ٹیچر تک ڈنڈا ہاتھ میں لیے گھوم رہے ہوتے تھے سکول ٹائم شروع ہونے سے چھٹی
تک مرغے عام ملتے تھے اور ہاتھوں پر ڈنڈے مارنے کے ساتھ ساتھ استاد انگلیوں
میں پنسل پھنسا کر دباتے تو طالبعلم کی چیخیں نکل جاتی تھیں ہم آج کا زمانہ
دیکھتے ہیں تو رشک آتا ہے خیر میں بات کررہا تھا پرائمری کی جہاں بچے کی
بنیاد بنتی ہے اور اس وقت پاکستان میں ان ٹیچروں کی تعدا 4لاکھ 44ہزار 6سو
کے قریب ہے جو انتہائی کم تنخواہوں میں بچوں پر بہت زیادہ محنت کررہے ہیں
اس وقت مقابلے کی فضا ہے دنیا میں تعلیم کے میدان میں بہت جدت آچکی ہے مگر
ہم دنیا کا مقابلہ نہیں کرپا رہے کیونکہ ہمارے اساتذہ اپنے گھر کا چولھا
چلانے کے لیے پڑھانے کے علاوہ کسی اور جگہ میں نوکری کرتا ہے کیونکہ
مہنگائی کے مقابلے میں اسکی تنخواہ انتہائی کم ہے اسکے ساتھ ساتھ اساتذہ کو
ایک اور پریشانی بھی ہے کہ سنیارٹی کی بنیاد پر ترقی نہیں ہوتی 10سال پہلے
جو ٹیچر جس پے سکیل پر بھرتی ہوا تھا وہ آج بھی ہیں پر ہے وقت پر پرموش نہ
ہونااور کم تنخواہ پر پڑھانے والے استاد ہی ہمارے اصل ہیرو ہیں سکولوں کی
فیسوں کی عدم ادائیگی کے سبب بہت بچے تعلیمحاصل نہ کرسکے اور کسی نہ کسی
ہوٹل یا ورکشاپ میں چھوٹے کے نام کے ساتھ بڑے ہوتے تک کام کرتے ہیں حالانکہ
پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 25-A ریاست کو پابند کرتا ہے کہ وہ 5 سے 16 سال
کی عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی معیاری تعلیم فراہم کرے اس قانون کی عبارت
کچھ یوں ہے ''ریاست پانچ سے سولہ سال کی عمر کے تمام بچوں کو اس طریقے سے
مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرے گی جس کا تعین قانون کے ذریعے کیا جائے''
پاکستان میں تعلیمی نظام کو عام طور پر چھ درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے پری
اسکول (3 سے 5 سال کی عمر کے لیے) پرائمری (سال ایک سے پانچ) مڈل (چھ سے
آٹھ سال) ہائی (سال نو اور دس سال، سیکنڈری اسکول سرٹیفکیٹ یا ایس ایس سی،
انٹرمیڈیٹ (گیارہ اور بارہ سال یا ہائر سیکنڈری اسکول سرٹیفکیٹ یا ایچ ایس
ایس سی) یونیورسٹی کے پروگرام جو انڈرگریجویٹ اور گریجویٹ ڈگریوں کی طرف لے
جاتے ہیں پاکستان ہر سال تقریباً ساڑھے چار لاکھ یونیورسٹی گریجویٹس اور
تقریبا 30ہزار سے زائد کمپیوٹر سائنس گریجویٹس تیار کرتا ہے ان اعدادوشمار
کے باوجود پاکستان میں شرح خواندگی اب بھی کم ہے پاکستان کا نظام تعلیم
معیاری تدریس اور سیکھنے کے لحاظ سے دنیا میں سب سے نچلے درجے پر ہے متعدد
وجوہات کو ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے اور استاد ان عوامل میں سے ایک ہے
اور اسکی ذمہ دار بھی حکومت ہے جو وقت پر ترقیاں نہیں دیتی اور تنخواہیں نہ
ہونے کے برابر اور مراعات تو بلکل ہی نہیں ہوتی انکے مقابلے میں گریڈ 17کا
اسسٹنٹ کمشنر پورے پروٹوکول کے مزے لیتا ہے تعلیم کے شعبہ میں خواتین کو
بہت محنت کرنا پڑتی ہے خواتین نئی نسل کو احساسِ محرومی کے پنجرے سے نکال
کر آزاد فضا میں مثبت مقابلے کے جذبے کے ساتھ اڑان بھرنے کی ترغیب دیں
اساتذہ کرام کسی بھی معاشرے کے معمار ہوتے ہے اور اس کے مستقبل کو تشکیل
دینے میں مدد کرتے ہیں تعلیم و تربیت اساتذہ کی عظیم قومی خدمت ہے اساتذہ
کرام نہ صرف کسی بھی معاشرے کی اعلی اقدار کے پاسبان ہوتے ہیں بلکہ انہیں
آج کے دور میں ہر طرح کے منفی پروپیگینڈے سے نئی نسل کا دفاع بھی کرنا ہوتا
ہے اور مثبت سوچ کی ترویج اور اس کی حوصلہ افزائی ان کے فرائض میں شامل ہے
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہمار ماضی ہمارے سامنے روشن مثال بن کر کھڑا ہے
اسلام کی نشاۃ ثانیہ جدید علوم کے حصول سے ہی ممکن ہے جس کیلئے ضروری ہے کہ
نوجوانوں میں ایسی صحت مند سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے جن سے ان کی ذہنی
آبیاری ممکن ہو سکے اور وہ تفریح کے ساتھ ساتھ علم بھی حاصل کر سکیں۔
مسلمانوں نے اپنے عروج کے زمانے میں علوم دنیاوی کے تمام شعبوں خصوصاً
فلکیات، طب اور فزکس میں تحقیق کو بام عروج پر پہنچایا جسے بنیاد بنا کر
یورپ نے سائنسی ترقی کی منزلیں طے کیں ہمیں فرقہ اور تفرقہ بازیوں سے باہر
نکل کر تعلیم کے میدان میں آگے بڑھ کر اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل
کرنا ہوگاپنجاب حکومت اس وقت تعلیم کے شعبہ میں انقلابی تبدیلیاں لارہی ہے
تاکہ کوئی بھی بچہ اپنے اس حق سے محروم نہ رہے جو آئین نے اسے دے رکھا ہے
وزیر اعلی چوہدری پرویز الہی ویسے بھی تعلیم دوست انسان ہیں جو پہلے ہی اس
شعبہ میں تیزی سے کام کروا رہے ہیں۔ |