سلطنت عثمانیہ کبھی بھی ٹکڑے نہ ہوتی اگر اس میں
گھر سے بغاوت اور ریاست کے اندر خاموش ریاستیں نہ بنتی۔ تاریخ گواہ ہے کہ
جب بھی کسی ریاست میں بادشاہ کے حکم کے بعد مشیر و وزیر اور مہتممین اپنے
مفاد کی غرض سے احکامات جاری کئے وہ ریاست ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی ۔ قائداعظم محمد
علی جناحؒ اور ان کی ساتھی اس ملک کے بانی تھے۔ بڑے بڑے خاندانوں کے لوگ ،
نواب، افسران بیرسٹرز جن میں ہر قوم وزبان و طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ
شامل تھے ۔ جنہوں نے تحریک پاکستان کو منظم کرنے کے لیے ہر سطح پر قربانی
دی ۔ اور پاکستان کے بننے کے بعد کسی بھی استحقاق کا مطالبہ نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہماری قومی زبان اردو ہوگی اور ہماری قومی پہچان پاکستا نی
ہوگی ۔ پاکستان کا مطلب کلمہ طیبہ ہوگا ۔ مگر افسوس کہ ان کے بعد آنے والی
نسلوں نے انہی راستوں کو اپنا یا جن راستوں پر سلطنت عثمانیہ میں موجود
مختلف زبانوں اور قومیت کی پہچان رکھنے والوں نے سفر کر کے اپنے ہی ہاتھوں
سے اپنی پہچان مسنح کی تھی۔ پاک سر زمین آزاد ہونے کے ان 75سالوں میں آج تک
اپنے باسیوں سے یہی سوال کر رہی ہے کہ جب مجھے عملی طور پر تسلیم ہی نہیں
کرنا تھا ، تو پھر میرے نام پر حق کیوں جتلارہے ہو ، تم سب پنجابی ، بلوچی
، پشتون، سرائیکی ، مہاجر ، سندھی ، چوہدری ، سیال ،مہر ، ملک ، تھانیدار ،
ڈی سی او ، ڈی پی او ، پٹواری ، سیکرٹریز ، کونسلرز ، چیئرمین ، ایم پی اے
، ایم این اے اور سب کے سب اپنا اپنا ملک بنا کر اس پر حکومت کرو ، میرے نا
م پر میری زمین میں اتنے ظلم کیوں کر رہے ہو ۔اب بھی موقع ہے کہ عوام الناس
اور ادارے سمجھ جائیں کہ کسی بھی ملک کی دائمی حقیقت اس پر حکومت کا ہونا
ہے ، اور حکومت بھی وہ جو 73کے آئین کے مطابق بالاوبرتر حاکمیت اﷲ تعالیٰ
کی سمجھے ۔ ملک کے تمام عہدیدار اور افسران اس بات پر مکمل طور پر ایمان
رکھیں کہ یہ سا ری عزتیں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ہیں اور وہی چاہے تو
ان عہدوں کو ان سے چھین کر کسی ایسے شخص کو جھولی میں ڈال دے جسے وہ ہم سے
زیادہ پسند کرتا ہو ، ویسے تو پاکستان کے تمام اداروں کی اس وقت حالت اس بے
لگام بد مست بیل کی سی ہے جس نے خون دیکھ لیا ہواور اسے ہانکنے یاجوتنے کے
لیے کوئی مالک موجود نہ ہو ۔ لیکن میں یہاں تذکرہ پولیس محکمہ جھنگ کی کر
نا چاہوں گا ۔
جب سے وفاق اورصوبائی حکومت کے درمیان ٹھنی ہے اور ملک سیاسی عدم استحکام
کا شکار ہوا ہے تب سے محکمہ پولیس جھنگ کی من مانیا ں بھی زور پکڑ گئی ہیں
۔کچھ سیاسی منتخب نمائندے ذاتیات کیلئے استعمال کر رہے ہیں تو زیادہ خود
پولیس افسران ذاتی عناد پر کاروائیاں کرتے نظر آتے ہیں۔ منشیا ت فروشوں کے
ٹھکانے اور قحبہ خانے انہیں تھانیداروں کی زیر سر پرستی کا م کر رہے ہیں ۔
تھانہ سیٹلائٹ ٹاؤن میں تعینا ت ایس ایچ او ان تمام کرپٹ گروہوں کی سر
پرستی کرتا ہے جو احساس پروگرام یا کسی بھی مد میں کرپشن کے بادشاہ ہیں۔
سیاستدانوں کی چاپلوسی میں قومیت اور لسانی تعصب کی بنا پر جعلی کاروائیاں
کرتا ہے۔ معززین علاقہ کو ہراسا ں کرتاہے ۔ جبکہ موصوف کی پچھلے پندرہ برس
سے سکونت اور پیپکو پائپ لائن جس کے تیل چوری سکینڈل میں ملوث بھی جس تھانے
کی حدود میں موجود ہے اسی میں موصوف کو تعینات کیا گیا ہے۔جس پر علاقہ
مکینوں کو ضلعی پولیس آفیسر کے اس فیصلہ میں تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ اس کے
تمام ساتھی جن کا سرغنہ سابقہ ڈی ایس پی تھا ، آج بحال ہو کر اپنی سیٹوں پر
براجمان ہیں ۔ ایسی مثالیں پورے جھنگ کے تھانے جات کے علاقوں میں عام ملتی
ہیں۔ یہاں پر ڈی پی او جھنگ سے چند سوالات جنم لیتے ہیں جو عام طور پر
عوامی آراء بھی ہیں۔ ایس ایچ او کے اختیارات بڑھا کر جس طرح کی کاروائیا ں
عمل میں لائی جارہی ہیں کیا یہ درست ہیں! کیا قانون توڑنے والے قانون کے
محافظ ہو سکتے ہیں ! اگر آپ عملی طور پر جھنگ میں جرائم کی شرح کو روکنے کی
کوشش کر رہے ہیں تو شرح میں اضافہ کیوں دیکھنے میں آرہا ہے ؟کیا آپ نہیں
سمجھتے کہ مہتممین کی زیادہ تر کاروائیاں بوگس اور جعلی ہیں جو آ پ کی آشیر
باد حاصل کرنے کے لئے عمل میں لائی گئی ہیں ۔کیا جھنگ قومیت ، لسانیت ،
سیاست اور فرقہ واریت کے تعصبات کامتحمل ہو سکتاہے !سماجی و معاشرتی معززین
کو ہراسا ں کرنے سے کیا عوام کا پولیس پر اعتماد بحال ہوسکتا ہے ؟آپ کیا
سمجھتے ہیں کہ جو لوگ ماضی میں کسی نہ کسی طرح سے کرپشن سمیت سنگین جرائم
میں ملوث رہے ہوں وہ اختیارات میں اضافے سے ان سے تجاوز کر کے مزید کرپشن
کے متحمل نہیں ہورہے ہونگے ؟کیا آپ نہیں جانتے کہ قحبہ خانے انسانی سمگلنگ
، منشیات کے دھندے اور معاشرتی و سماجی بگاڑکا گڑھ ہوتے ہیں اور ان کی سب
سے زیادہ تعداد تھانہ سٹی ، تھانہ کوتوالی اور تھانہ سیٹلائٹ ٹاؤن کی حدود
میں ہے؟ کیا ڈی پی او صاحب ان پولیس ملازمین جو ناکوں پر موجود لوگوں کی دو
اور چار پہیوں والی گاڈیوں کے کاغذات چیک کر رہے ہیں کی ذمہ داری لے سکتے
ہیں کہ ان کے اپنے فیملی ممبران افسران کے نام پر قوانین کی حرمت کو داغدار
نہیں کرتے ؟؟ یہ چودھویں سکیل کے افسران کی زندگی اتنی پرتعیش اور انکی
جائیدادوں اور کارباروں میں بے پناہ اضافہ ، ان کی اولادوں کو حاصل مراعات
اور طرز زندگی ان کے تنخواہ کے ساتھ میل کھاتاہے ؟ ضلعی مہتمم کے گوش گزار
کرتا چلوں کہ جب تک آپ عملی طور پر ثابت نہیں کرتے تب تک آپ عوام الناس کا
اعتماد حاصل نہیں کرسکتے ، اگر میرے سوالات کا جواب ہا ں ہے تو اس کا مطلب
یہی ہو ا کہ تمام تر تھانیداروں نے اپنے اپنے علاقے کو ایک ریاست سمجھ رکھا
ہے اور خود کو اس کا بادشاہ ۔ یاد رہے کہ اس بے یقینی اور ہراسگی کی فضا
میں لوگ یہی کہتے ہیں کہ ضلعی پولیس افسر کی آشیر یاد سے ہی تھانیدار اس
طرح دلیری کے ساتھ قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہیں۔ اس وقت جھنگ کے حالات اور
امن کو بحال رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ضلع بھر میں موجود تھانیداروں کی
لابی کو توڑ ا جائے اور میرٹ پر افسران کی تعیناتی کی جائے ۔خفیہ سروے سے
معلوم کر سکتے ہیں کہ تھانہ جات میں SHO'sکی پی آر کیا ہے؟ !فانی بد ایونی
نے کیا خوب کہا ہے!
موجوں کی سیاست سے مایوس نہ ہو فانی
گرداب کی ہر تہہ میں ساحل نظر آتا ہے
|