ارشادِ ربانی ہے :’’کہو! خدایا! مُلک کے مالک! تو جسے
چاہے، حکومت دے اور جس سے چاہے، چھین لے ‘‘۔ اس کائنات ہستی میں آئے دن
لوگ تختِ سلطنت سے معزول کیے جاتے ہیں اور ان کی جگہ دوسروں کو فائز کردیا
جاتا ہے۔ اس کے باوجود جو ایک بار اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوجائے وہ
سمجھنے لگتا ہے کہ ہمیشہ کے لیے حکمراں بن گیا ہے حالانکہ جن کو جیتے جی
اقتدارمحروم نہیں کیا جاتا ان سے موت کا فرشتہ تخت و تاج چھین لیتا ہے۔ اس
لیے کہ:’’ ہر نفس کی موت کا مزہ چکھنا ہے‘‘۔ ملک الموت ایک طے شدہ وقت پر
بلا تفریق راجہ اور رنک اپنا فرض منصبی ادا کردیتا ۔ اس پر کسی کو کوئی
اختیار نہیں ہے۔ اس حقیقت سے غافل حکمراں اپنی طاقت کا بے دریغ استعمال
کرکے بے قصور لوگوں کو مظالم کا نشانہ بناتے ہیں۔ اس کی ایک مثال رواں سال
جون میں آلٹ نیوز کے صحافی محمد زبیر کی گرفتاری تھی۔ ان کو سال 2018 کی
ایک ٹویٹ کی پاداش میں گرفتار کیا گیا تھا۔ دہلی پولیس کی ایف آئی آر کے
مطابق وہ انتہائی اشتعال انگیز اور دو مذاہب کے درمیان نفرت کو ہوا دینے
ٹویٹ والا تھا۔ موجودہ حکومت کا یہ حال ہے کہ غاصب چین کے آگے تو ان زبان
نہیں کھلتی لیکن اپنے لوگوں پر دھونس جماتے ہیں بقول ڈاکٹر عاصم واسطی(مع
ترمیم)؎
غیروں سے دبی ہوئی حکومت
اپنوں پہ دلیر ہوگئی ہے
دہلی پولیس نے ایک ایسے فرد کی شکایت پر محمد زبیر کو گرفتار کیا جو خود
روپوش ہوگیا تھا۔ اس سے بات چیت تک کرنے کی زحمت کیے بغیرزبیر کو حراست میں
لے کر بنگلورو لے جایا گیا اور بدنام زمانہ اترپردیش پولیس کے حوالے کردیا
گیاجس نے ان پر کئی مقدمات جڑ دیئے۔ ان میں سے ایک مسلم خواتین کی
آبروریزی کے لیے ابھارنے والا بجرنگ منی کی ہتک عزت کا مقدمہ بھی تھا ۔
حیرت کی بات ہے کہ اترپردیش سرکار کا وکیل اس بدمعاش کی حمایت میں محمد
زبیر کو سزا دلوانا چاہتا تھا۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی مقدمات میں انہیں
پھنسا دیا گیا لیکن اللہ تعالیٰ ان دشمنانِ حق کو عدالتِ عظمیٰ میں رسوا
کردیا۔ مودی اور یوگی حکومتوں کو زبردست پھٹکار لگا کرعدالت محمد زبیر
ضمانت دے دی گئی ۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ نوپور شرما کو نہ صرف بی جے پی
نے پارٹی سے معطل کرکے ذلیل کیا بلکہ اسے میں بھی معافی مانگنی پڑی لیکن
محمد زبیر نے افسوس کا اظہار تک نہیں کیا اس سے ظاہر ہوتا ہے؎
کاندھے پہ تو ہر کوئی لیے پھرتا ہے سر کو
سردار تو وہی ہے کہ جو سر ، دار پہ لائے
نوپور شرما کی ذلت و رسوائی اور محمد زبیر عزت افزائی پر آیت کا اگلا حصہ
صادق آتا ہے ۔اس میں فرمان خداوندی کا مطالبہ ہے کہ ہم کہیں اے رب
ذوالجلال :’’(تو) جسے چاہے، عزت بخشے اور جس کو چاہے، ذلیل کر دے بھلائی
تیرے اختیار میں ہے بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔ ملک میں برسرِ اقتدار
جماعت کے ذلت کی وہ پہلی قسط کے وقت کوئی نہیں جانتا تھا کہ محمد زبیر کو
آگے چل کر نوبل امن انعام کے لیے نامزد کیا جائے گا ۔ اس خبر کی روشنی میں
مذکورہ آیات کے معنیٰ اور مفہوم کی نئی جہت سامنے آتی ہے ۔ ٹائم میگزین
نے محمد زبیر کو اس مؤقر انعام کے نامزد کیے جانے کی وجہ ان کی گرفتاری کے
بعد دنیا بھر کے صحافیوں کی یکجہتی و احتجاج اور حکومت کی مذمت بتایا ۔
زبیر کی گرفتاری کو ساری دنیا نے حقائق کی جانچ کے خلاف انتقامی کارروائی
بتایا ۔ ایک ماہ تک جیل کی صعوبت نے انہیں اظہار رائے کی آزادی کے حوالے
سے ایک عالمی علامت بنادیا ۔
نوبل انعام 2022کے لیے نامزدگی نے محمد زبیر اور پرتیک سنہا کوانعام کی دوڑ
میں شامل 251؍اہم ترین شخصیات کی صف میں کھڑا کردیا ہے۔ اس فہرست میں ان کے
علاوہ بیلاروسی حزب اختلاف کے رہنما سویتلانا سخانوسکایا ، ماحولیاتی کارکن
گریٹا تھنبرگ، پوپ فرانسس ، توالو کے وزیر خارجہ سائمن کوفے ، یوکرین کے
صدر ولودمیر زیلینسکی اور ولادمیر پوتن کے ناقد ایلیکسی نولنی جیسی نامور
ہستیاں شامل ہیں ۔2022 کے نوبل امن انعام کے فاتحین کا اعلان 7؍ اکتوبر کو
اوسلو میں ناروے کی نوبل کمیٹی کے 5؍ اراکین کریں گے۔یہ انعام اگر محمد
زبیر کے حصے میں آجائے تو یہ ملک فسطائی حکومت کی بہت بڑی رسوائی ہوگی مگر
ان کا نامزد ہوجانا بھی کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ رب کائنات کی جانب سے
محمد زبیر کی پامردی و بے خوفی کے عوض اس مقام و مرتبہ نوازہ گیا ہے ۔
ابتلاء و آزمائش سے گھبرا کر باطل کے مصالحت کا راگ الاپنے والوں کو محمد
زبیر سے سبق سیکھنا چاہیے۔ اس موقع پر ایڈوکیٹ صادق کے یہ اشعار ان پر من و
عن صادق آتے ہیں ؎
تو سمجھتا ہے حوادث ہیں ستانے کیلئے
یہ ہوا کرتے ہیں ظاہر آزمانے کیلئے
تندیِ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کیلئے
|