بھرت پور کی مہابھارت - دوسری قسط

بھرت پورمیں فقرو فاقہ کا دور دورہ تھا۔اس علاقے کے بھولے بھالے باشندے امبر کو آسمانی باپ اور دھرتی کو ماتا کہہ کر پکارتے تھے اس لئے کہ آسمان پانی برساتا اور زمین اسے اپنے پاس جمع کر کے رکھتی تا کہ عوام اسے وقتِ ضرورت استعمال کر سکیں لیکن فی الحال یہ لوگ بھوک اور پیاس کی چکی میں بے دریغ پس رہے تھے ۔آسمان اس قدر بے رحم ہو گیا تھا کہ وہ لوگوں کو روتا بلکتا دیکھتا لیکن اس کی آنکھ نم نہ ہوتی تھیں اس نے نہ جانے کیوں بارش برسانے کے کام کوہی تج دیا تھا۔ دھرتی کا حال یہ تھا کہ وہ پانی کومحفوظ کرکے تقسیم کرنے کے بجائے خود اسے جذب کرنے لگی تھی ہر روز نہ جانے کتنے ہزار لیٹر پانی وہ عوام کی نظروں میں دھول جھونک کرنگل جاتی اور اسے نہ جانے کس پاتال میں پہنچا دیتی جہاں تک کسی اور کی تو کجا خود اس کی اپنی رسائی بھی مشکل تھی ۔بچا کچھا پانی ہر صبح آسمان پر نمودار ہونے والا سورج بھاپ بنا کرچوس لیتااور بے یار و مددگار لوگ لوٹ کھسوٹ کے اس گرم بازار کوحسرت و یاس سے خاموش تماشائی بنےدیکھتے رہتے تھے ۔ایک ایک کرکے بستی کے سارےندی نالے،تالاب اور چشمے خشک ہو گئے تھے محل کے اندرموجود راج تال کو اس معاملے میں استثنا ء حاصل تھاکہ اس کا پانی سوکھنے کا نام لیتا تھا ۔

راج محل کے اندر بنے اس راج تال پر سخت پہرا لگا ہواتھا درباریوں کے سواکسی کو اس کے قریب پھٹکنے کی اجازت نہیں تھی ۔راج درباریوں کے گھروں میں لگے ہوئے خودکار نلکوں سے راج تال کا پانی ان کی کو ٹھیوں تک پہنچ جایا کرتا تھا وہ سارے قحط سالی کی اس مہا ماری (وبا) کے باوجود خوشحال اور شادمان تھے ان کی عیش مستی پر اکال (قحط ) کا کوئی منفی اثر نہیں پڑا تھا بلکہ لوگوں کو حیرت اس بات پر تھی کہ دن بدن ان کے نام نہاد نمائندوں کی ٹھاٹ باٹ میں بتدریج اضافہ نظر آتا تھا اس کے باوجود کسی کی مجال نہ تھی کہ ان کی جانب نظر اٹھا کر دیکھنے کی جرأت کرے ۔ جگو وہ پہلا شخص تھا جو اپنی جان کو جوکھم میں ڈال کرمحل میں داخل ہو گیا تھا لیکن اس کے باوجود وہ اپنے بچوں کیلئے ایک گھڑاپانی تک حاصل نہ کر سکا تھا۔ محل سے ناکام و نامراد لوٹنے کے بعد جگو یوں تو سو گیا تھا لیکن پردادا نے خواب میں آکر اسے خوابِ غفلت سے بیدار کر دیا تھا۔ اب وہ اپنے حالات کا موازنہ پراچین کال(قدیم زمانے) سے کر رہا تھا۔

جگو کو لگا بظاہر تو سب کچھ بدل گیا ہے ۔ساری راجنیتک ویوستھا (سیاسی نظام) بدل گئی ہے ۔راج شاہی (بادشاہت)کی جگہ پرجا تنتر(جمہوریت ) آگیا ہے ۔ لیکن زمینی حقائق نہیں بدلے۔راجہ کی جگہ راشٹر پتی(صدرمملکت) نے لے لی اور راج پردھان کی پردھان منتری براجمان ہوگئے۔راج پروہت کا کام بھی بند نہیں ہوا ان کاکردار پکش ادھیکش(ہائی کمانڈ) نے ادا کرنا شروع کر دیا۔پراچین کال (قدیم زمانے)میں یہ ہوتا تھا کہ ہرسال ایک بہت بڑی سرکاری تقریب کا اہتمام ہو تا اس سے قبل مختلف جاتیوں اور پرانتوں کے لوگ کل ُدیوتا بانگڑ بابا کی بھانت بھانت کےمختلف دیو ہیکل مجسمے بنواتے اورانہیں قلبِ شہر میں موجود بڑے سے میدان میں نسب کر دیتے تھے۔دس دنوں کی جترا میں ان کی پوجا پاٹ ہوتی چڑھاوے چڑھائے جاتے ۔ہر گروہ اپنی طاقت اور شان و شوکت کا مظاہرہ مختلف انداز میں کرتا۔اس سیاسی اتھل پتھل میں کئی نئے رشتے عالمِ وجود میں آتے اور کئی پرانے ہمنوا ایک دوسرے سے بر سرِ پیکار ہوجاتے ۔ ناچ رنگ کی محفلوں کی آڑ میں موقع پرستی اور ابن الوقتی کی بنیاد پر بولیاں لگتیں ، سودے بازیاں ہوتیں گویا چہار جانب جشن کا ماحول ہوتا اور پھر دسویں دن گاؤں والے ان مورتیوں کوجلوس کی شکل میں اپنے اپنے رتھ میں سوار کر کے راج محل کی جانب ناچتے گاتے چل پڑتے۔اس رتھ کی خصوصیت یہ ہو تی کہ اسے کھینچنے کیلئےازخود عوام اپنی خدمات پیش کرتے لیکن اس پر سواری کا شرف کل دیوتا اور سردار ہی کو پراپت (حاصل)ہوتا ۔

سال میں ایک مرتبہ راج محل کے دروازے عوام کیلئے کھول دئیے جاتے اور جب مختلف راج رتھ راج تال کے کنارے پہنچ جاتے تواس کے بعد راج پروہت مقدس کتاب کے اشلوک پڑھنے لگتا اور لوگ خاموشی سے انہیں سننےلگتے لیکن جیسے ہی وہ خاموش ہوتا ہر ہر مہا دیو کا فلک شگاف نعرہ بلند ہوجاتا اوراس شور شرابے میں راجہ کا پھرایکبار راج ابھیشیک(رسمِ تاجپوشی)عمل میں آ جاتا راجہ کے سر پر سجے تاج کو دیکھ کرعوام خوشی سے پاگل ہو کر ناچنے گانے لگتے۔اس کے بعدراج پروہت کو یہ دیکھنا ہوتا تھاکہ میدان میں موجود کس رتھ کے ساتھ سب سے زیادہ لوگ ہیں ۔ اس موقع پراپنی تعداد بڑھانے کی خاطر مختلف گروہ آپس میں اشتراک اور واتحاد بھی کر لیتے تھے ۔اپنا معائنہ ختم کرنے کےبعد راج پروہت سب سے کثیر حامیوں والے رتھ پر چڑھ کر اس پر سواربت کو تالاب میں دھکیل دیتااوراس پر مسرت ماحول میں راجہ اپنی جگہ سے اٹھ کرایک چمچماتی ہوئی تلوار اس رتھ کے سردار کو تھما کر اسے راج پردھان گھوشت(اعلان)کر دیتااور جیسے ہی راج پر دھان اس تلوار کو ہوا میں اوپر اٹھاتا لو گوں کاجوش و خروش آسمان سے باتیں کرنے لگتاانہیں ایسا محسوس ہوتا گویا ان میں سے ہر ایک کو ایک تلوار سونپ دی گئی ہے ۔یہ ایک ایسااحساس تھا جس کا حقیقت سے کوئی دور کا بھی واسہا نہ تھا ۔ سچ تو یہ تھا جس تلوار کو دیکھ کر لوگ خوش ہو رہے ہوتے وہی تلوارسال بھر ان کے سروں پر لٹکتی رہتی اور وقت ضرورت جس کا سر چاہتی گردن سے الگ کر دیتی ۔اس طرح کے واقعات سے لوگ وقتی طور پر غمگین ہوتے ضرور تھے لیکن پھر جب سالانہ جشن کا موقع آتا تو سارے گلے شکوے بھول کر رتھ یاترا کے شبھ(مقدس) کام میں جٹ جاتے۔

وہ سردارجوراج پر دھان بننے سے محروم رہ جاتے ان کو راج دربار کی رکنیت سے نواز کر مختلف ذمہ داریاں سونپ دی جاتیں اور پھر آخر میں پوتراسنان (مقدس غسل)کی رسم ادا کی جاتی ۔سب سے پہلے راجہ کے ساتھ راج پروہت اور راج پردھان مقدس تالاب میں ڈبکی لگاتے اور اور پھر سارے راج درباریوں کو اس کا موقع ملتا کہ وہ اپنے سارے پاپ اس تالاب میں انڈیل کر پاک صاف ہو جائیں۔ عوام کو اس کی اجازت نہیں تھی اور نہ ضرورت ہی تھے ان بے چاروں سےایسے بڑے گناہ کب سرزد ہوتے تھے کہ ان پر عظیم راج تال میں ڈبکی لگانے کی نوبت آئے ۔عوام کا راج دھرم تو صرف یہ تھا کہ جب ان کا سردار تالاب میں اترے تو وہ نعرے لگائیں اور جب وہ واپس لوٹے تو تالیاں بجائیں ۔

جگو کمہار نے جب سنجیدگی کے ساتھ ان واقعات پر غور و فکر شروع کیا اس کے ذہن میں بے شمار سوالات سر ابھارنے لگے مثلاً:
•راج تال میں ایسی کون سی خوبی تھی جس نے اسے مقدس بنا دیا تھا؟
•راج تال کے اندر ڈبکی لگا لینے سے آخر عوام اور ان کے سرداروں کو کون سے سرخاب کے پر لگ جاتے تھے؟
•اس کے آبا و اجداد اس بت کوکیوں بناتے تھے جو ان کے کسی کام نہ آتا تھا؟
•بتوں کو بنانا بجائے خود ایک لایعنی فعل تھا لیکن اسے تالاب میں ڈوبا کر خوش ہونا کیا معنیٰ رکھتا تھا ؟ یہ اسکی سمجھ میں نہیں آرہا تھا
•عوام اس رتھ کو کیوں کھینچتے جن پر سوار ہونا ان کیلئے ناممکن تھا؟یہ بات بھی اسکی سمجھ سے باہر تھی
•تلوار و اختیار دوسروں کو سونپ کر اپنے آپ کو محفوظ و مامون سمجھنے لینےکی منطق کو اس کی عقل قبول نہیں کر پارہی تھی
•اس کے آبا و اجدا کافی پڑھے لکھے اور سمجھدار لوگ تھے آخر ان کی سمجھ میں یہ باتیں کیوں نہ آتی تھیں؟
•وہ لوگ صدیوں تک اس فریب کا شکار کیوں رہے؟
•انہوں نے اس بے فائدہ نظام کا متبادل تلاش کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟
•ان لوگوں نے جو کیا سو کیا لیکن خود اس نے آج سے قبل ان بنیادی سوالات پر توجہ کیوں نہیں دی؟

آخری سوال سب سے زیادہ اہمیت کا حامل تھا اس لئے کہ وہ اس کے اپنے متعلق تھا۔ سچ تو یہ ہے اس سوال کا جواب سب سے آسان تھا اور اس نے سارے سولات کی دبیزچادرکو تار تار کر دیا تھااور جواب یہ تھا کہ اس نے ابھی تک کبھی سنجیدگی کے ساتھ ان پر غور کرنے کی زحمت ہی گوارہ نہ کی تھی ۔ بغیر سوچے سمجھے وہ بت بنانے،رتھ کھینچنے اور تالیاں بجانے کے کام میں غیر شعوری طور پر جٹ گیا تھا شاید دیگر عوام بھی اپنی عقل پر پٹی باندھ کران بیجا رسوم و رواج میں منہمک ہو گئی تھی اور پہلے والوں کا بھی وہی حال تھا کہ وہ بھیڑ چال کا شکار ہوگئے تھے ۔جگو کمہار نے عزم کیا کہ وہ اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھے گا جب تک ان معاملات کی طہ تک نہ پہونچ جاتا۔جگو کمہار کے دماغ کا چرکھا بڑی تیزی کے ساتھ گھومنے لگا تھاوہ کسی ایسی شخصیت سے ملنا چاہتا تھا جو اسکی رہنمائی کر سکے ان گتھیوں کو سلجھا سکے اورجن سوالات کے مایا جال میں وہ ایک محصورِ محض ہوکر رہ گیا تھا انکی گرفت سے اسے آزاد کر سکے ۔اس نے اپنی رہائی کیلئے مختلف پرانتوں کے پرمکھوں کا جائزہ لیا تو اسے محسوس ہوا اترّ پرانت کا وشوا ناتھ بڑا نیک آدمی ہے وہ برسوں تک راج دربار کی سیوا کر چکا ہے اور فی الحال سنیاسی کی سی زندگی گزار رہا ہے ۔ اس نے راج دربار کا کوئی ناجائز فائدہ پہلے بھی نہیں اٹھایا تھا جبکہ وہ راج پرددھان تھا اور اب تو اس اس سارے چکرویوہ سے اپنے آپ کو علٰحیدہ کر لیا ہے ۔جگو نے سوچا چونکہ اس کا کوئی ذاتی یا سیاسی مفاد اس نظام سے وابستہ نہیں ہے ۔اس نے اس راج تال کوئی توقع وابستہ نہیں کر رکھی ہیں اس لئے ممکن ہے وہ بلاخوف وخطر اپنے ضمیر کی آواز اوراپنے علم و تجربہ کی مدد سے اس کو مطمئن کر سکے ۔ویسے کسی پر پرانت کے پرمکھ سے ملاقات کر کے اس سے استفادہ کرنا مروجہ پرمپرا کے خلاف تھامگر فی الحال جگو کیلئے پر مپرا سے زیادہ اہمیت جواب حاصل کر نے کی تھی جو اس کا مقصدِ زندگی بن گئے تھے۔

جگو جب وشوناتھ کے گھر پہونچا تو وہ کوئی کتاب لکھ رہا تھا ۔بڑے دنوں کے بعد کوئی اجنبی اس سے ملنے آیا اسلئے وہ بہت خوش ہوا اس نے اپنا کاغذ قلم ایک طرف رکھا اور جگو کی جانب متوجہ ہو گیا۔وشوناتھ کی بیوی ان کے سامان چائے اور ناشتہ رکھ کر چلی گئی لیکن جگواس قدر جوش میں اپنے سوالات رکھ رہاتھا اور وشوناتھ اسقدر انہماک سے انہیں سن رہا تھا کہ ان دونوں کو اس کا پتہ بھی نہ چلا۔جب جگو اپنی بات ختم کر چکا تو وشوناتھ نے کہا جگو اس پہلے کہ میں تمہارے سوالات کے جواب دینے کی کو شش کروں ہم چائے پیتے ہیں اور دونوں کھانے پینے میں مصروف ہوگئے اس دوران انہوں نے ایک دوسرے کی خیریت معلوم کی اور جب وشوناتھ کو پتہ چلا کہ جگو کمل پرشاد اپادھیائے کا پوتا ہے تو وہ بہت خوش ہوئے اور بولے جگو تمہیں یہ جان کر حیرت ہوگی کہ میری اس کتاب کی ابتداء کمل جی کی اس گفتگو سے ہوتی جو انہوں نے آخری بار راج دربار میں کی تھی۔حقیقت تو یہ ہےکہ اگراس وقت کمل پرشاد کے بجائے راج پردھان کو سزا دی جاتی اور اس کمہار کی زمین لوٹا دی جاتی جس کیلئے انہوں نے صدائے احتجاج بلند کی تھی تو آج تمہارے سوالات کی فہرست اس قدر طویل نہ ہوتی خیر جو ہوا سو ہوا۔ان کے خلاف سارے راج درباری اور راج پروہت اسی طرح متحد ہو گئے جس طرح کے میرے خلاف ہوئے اور ان لوگوں نے ہمیں کہیں کا نہیں رکھا۔

لیکن آپ لو گوں کا قصور کیا تھا؟ جگو نے سوال کیا

ہمارا قصور ؟ ہمارا کوئی قصور نہیں تھا ۔ہم نے بھی اسی طرح کے سوالات اٹھائے تھے جیسے کہ تم اٹھا رہے ہو ۔ وشوناتھ نے جواب دیا

اچھا تو وہ لوگ ان کے جواب دینے کے بجائے چراغ پا کیوں ہو گئے؟

شاید اس لئے کہ ان کے پاس اس کا جواب نہیں تھا وشواناتھ نے کہا

لیکن اگر جواب معلوم نہ ہو تو اس سے ناراضگی چہ معنی دارد؟ ہونا تو یہ چاہئے کہ اسے معلوم کرنے کی کوشش کی جائے ۔ جگو نے اعتماد کے ساتھ کہا

جی ہاں جگو تمہاری منطق درست ہے ۔شاید وہ لوگ اس کا جواب جانتے تھے لیکن وہ جواب دینا نہ چاہتے تھے

اچھا ایسا کیوں؟

اس لئے کہ وہ جوابات ان کے اپنے مفادات کے خلاف تھے ان سے اقتدار کو خطرہ لاحق ہوتا تھا اور وہ کسی صورت اس سے دستبردار نہیں ہونے کیلئے تیار نہیں تھے ۔

[باقی آئندہ انشااللہ]
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1454177 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.