حرم کے مُورثِ اَعلٰی اور حرم کے وارثِ اَعلٰی !!

#العلمAlilmعلمُ الکتاب سُورَةُالبلد ، اٰیت 1 تا 20 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
لا
اقسم
بھٰذالبلد 1
وانت حل بھٰذ
البلد 2 ووالد و ما
ولد 3 لقد خلقناالانسان
فی کبد 4 ایحسب ان لن
یقدر علیه احد 5 یقول اھلکت
مالا لبدا 6 ایحسب ان لم یرهٗ احد
7 الم نجعل لهٗ عینین 8 ولسانا و شفتین
9 وھدینٰه النجدین 10 فلا اقتحتم العقبة 11
و ما ادرٰک ماالعقبة 12 فک رقبة 13 او اطعٰم فی
یوم ذی مسغبة 14 یتیما ذا مقربة 15 او مسکینا ذا
متربة 16 ثم کان من الذین اٰمنوا وتواصوب الصبر وتوا
صوا بالمرحمة 17 اولٰئک اصحٰب المیمنة 18 والذین کفروا
باٰیٰتنا ھم اصحٰب المشئمة 19 علیھم نار مؤصدة 20
اے ہمارے رسول ! میں اِس شہرِ حرم کی حرمت کا یقین نہیں دلاتا کہ اِس شہر کے اہلِ شہر اِس کی حُرمت کو بخوبی جانتے ہیں اور میں آپ کے اِس شہر کے شہری ہونے کا یقین بھی نہیں دلاتا کہ اِس شہر کے سارے اہلِ شہر بخوبی جانتے ہیں کہ آپ اِس شہر کے شہری ہیں لیکن میں اِس بات کا مُکمل یقین دلاتا ہوں کہ مُورث کی وراثت اُس کے وارث کے حصے میں آتی ہے لیکن اِن کُھلے کُھلے حقائق کے باوجُود بھی انسان اپنے ناقابلِ شکست ہونے کے وہم میں اِس لیئے مُبتلا ہے کہ ہم نے اِس کی تخلیق میں وہ مُشکل رکھ دی ہے جس مُشکل کی وجہ سے اِس کو مُشکل ہی سے اپنی شکست کا یقین آتا ہے ، اِس وقت اِس کو صرف اِس بات کا یقین ہے کہ اِس نے جس زمین میں سرمایہ کاری کی ہے وہ اِس سرمایا کاری کی بنا پر اِس زمین کا مالک بن گیا ہے اور اِس نے اِس زمین سے جس طرح سرمایہ بنایا ہے اور اِس نے اِس زمین پر جو سرمایا لگایا ہے اُس کو ہم نے نہیں دیکھا ہے اِس لیئے وہ یہ حقیقت بھی فراموش کر بیٹھا ہے کہ اُس کو اِس عالَم کے دیکھنے کے لیئے ہم نے جو آنکھیں دی ہیں ، اہلِ عالَم سے بولنے کے لیئے جو زبان و لَب دیئے ہیں اور اِس عالَم کے نیک و بد کی پہچان کے لیئے جو وجدان دیا ہوا ہے ہم اُن میں سے ایک ایک چیز کے استعمال کو دیکھ رہے ہیں لیکن یہ مُشکل پسند انسان تو ابھی اُس مُشکل گھاٹی سے گزرا ہی نہیں ہے جس سے اِس کو گزرنا ہے اور اُس گھاٹی سے گزرنے سے پہلے ہر غلام کو اپنی غلامی سے آزاد کرنا ہو گا ، زَرپرستی کے بجائے ہر بُھوکے ننگے کی سر پرستی کرنی ہو گی ، ہر غریب و نادار رشتے دار اور ہر یتیم و خاکسار کا حق اُس کو واپس کرنا ہو گا ، اِن میں سے جو لوگ اللہ کے اِن اَحکام پر عمل کریں گے اور نتائجِ عمل کا صبر و استقامت کے ساتھ انتظار کریں گے وہ اہلِ سعادت ہوں گے اور جو اہلِ شقاوت اللہ کے اِس فرمان کے نافرمان ہوں گے وہ اُس آتشِ نار میں ڈالے جائیں گے جو انکار ہی کا ایک نتیجہ ہوگی !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قَسم ایک لفظِ یقین ہے جو اُس مُشکل بات پر یقین کرانے کے لیئے بولا جاتا ہے جس مُشکل بات پر عام حالات میں انسان کو مُشکل سے یقین آتا ہے اور اِس سُورت کے اِس مقام پر اللہ تعالٰی کی طرف سے اُٹھائی گئ جس قَسم کا ذکر ہوا ہے وہ شہرِ مکہ کی اُس صورتِ حال کے پَس منظر میں اُٹھائی گئی وہ قَسم ہے کہ جب اہلِ مکہ اِس بنا پر اللہ تعالٰی کے رسول کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوۓ تھے کہ اللہ تعالٰی کا وہ رسول اُن کو شرک سے باز آنے اور توحید پر ایمان لانے کی دعوت دے رہا تھا اور وہ شرک سے باز آنے اور توحید پر ایمان لانے کے بجاۓ اُس رسول کی جان کے دشمن بن گئے تھے اور اللہ تعالٰی نے اپنی اُس قَسم کے ذریعے کے حق کے اُن دشمنوں پر اُن کے مُستقبل کا وہ فیصلہ صادر کیا تھا جس فیصلے میں اُس نے اپنے نبی سے خطاب کرتے ہوۓ ارشاد فرمایا تھا کہ میں اِس بات کا تو اپنی قَسم کے ذریعے یقین نہیں دلاتا کہ مکہ ایک حُرمت والا وہ شہر ہے جس کے شہر و نواحِ شہر میں انسان کے علاوہ اِس شہر کے حیوانات و نباتات تک کی حرمت کا قانون موجُود ہے اور میں اِس بات کی قَسم اُٹھا کر اِس لیئے اِس کا یقین نہیں دلاتا کہ اِس شہر کی اِس حرمت کا سارے اہلِ شہر کو پہلے سے علمِ یقین حاصل ہے اور میں اپنی اِس قَسم کے ذریعے اِس بات کا بھی یقین نہیں دلاتا کہ آپ اِس شہر کے شہری ہیں کیونکہ یہ بات بھی اِس شہر کے سارے اہلِ شہر بخوبی جانتے ہیں کہ آپ اِس شہر کے شہری ہیں لیکن اگر وہ اِس شہر کی ہر حرمت پر متفق ہونے کے باوجُود بھی اِس شہر میں آپ کی جان کے دشمن بنے ہوۓ ہیں تو میں آپ کو اِس بات کا یقین دلاتا ہوں کہ باپ جو اَولاد کا ایک مُورث ہوتا ہے اُس کی وارثت کا وارث صرف اُس کا بیٹا ہوتا ہے اور ابراہیم جو اِس شہر کا مُورث و مَعمار ہے اُس کے تنہا وارث آپ ہیں جو اُس کے دینِ توحید کے علَم بردار ہیں اور یہ لوگ چونکہ دینِ ابراہیم کے علَم بردار نہیں ہیں بلکہ شرک کے پرستار ہیں اِس لیئے اِس شہر کا مُستقبل اِن کے ہاتھ سے لے کر آپ کے قبضے میں دے دیا جاۓ گا اور جس وقت یہ شہر آپ کے قبضے میں دیا جاۓ گا تو اُس وقت وقتی طور پر اِس شہر کی قدیم زمانے سے قائم کی گئی حرمت آپ کے لیۓ بھی معطل کر دی جاۓ گی اور یہ آپ کی اپنی مرضی ہوگی کہ آپ اپنی جان اور اہلِ ایمان کی جان و ایمان کے اِن دشنوں سے اِن کی کیئے کا بدلہ لیں یا نہ لیں ، قُرآن نے فتحِ مکہ کی یہ پیش گوئی اُس وقت کی تھی جب شہرِ مکہ میں اِس پیش گوئی کے پُورے ہونے کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا اور فتحِ مکہ کے موقعے پر جب یہ پیش گوئی سچ مُچ پُوری ہوگئی تو آپ نے اپنے بدلے کے اُس خُدائی اختیار سے فائدہ نہیں اُٹھایا جو اختیار برسوں پہلے اللہ تعالٰی نے آپ کو دیا تھا بلکہ آپ نے اُس وقت اللہ تعالٰی کی صفتِ رحم و کرم کو اپنی اُس فتح کا معیار بناتے ہوئے اپنے اُن دشمنوں کو ٹھیک ٹھیک وہی تاریخی فیصلہ { لا تثریب علیکم الیوم } سنا دیا جو یوسف علیہ السلام نے اپنے دشمن بھائیوں کو اُس وقت سنایا تھا جس وقت وہ مصر ایک طاقت ور بادشاہ تھے اور اُن کے ظالم بھائی گداۓ بے نوا بن کر اُن کے سامنے کھڑے تھے تاہم آپ نے فتحِ مکہ کے بعد حرمِ مکہ سے اُن وہ بُت ضرور نکال باہر کیئے تھے جو بُت مسجدِ حرام کے وسطِ صحن میں بنے ہوۓ بیتِ حرم میں اُنہوں نے اپنی پُو جا پاٹ کے لیئے جمع کر رکھے تھے ، اُن بتوں کو اُس بیتِ حرم سے نکالنے کی وجہ اگرچہ اُن پُوجے جانے والے بتوں کا بُت ہونا ہی کافی تھا لیکن آپ نے اُن کو محض بُت ہونے کی وجہ سے اُس بیتِ حرم سے باہر نہیں نکالا تھا بلکہ اِس بنا پر نکالا تھا کہ جس طرح شہرِ حرم پر مُشرکینِ عرب کا قبضہ ایک ناجائز اَمر تھا اسی طرح اُس بیتِ حرم پر اُن بتوں کا موجُود رہنا بھی ایک ناجائز اَمر تھا اِس لیئے جب حرم سے حرم کے اُن ناجائز قابضین کو نکالا تھا تو اُن کے اُس ناجائز مال کو بھی نکال دیا تھا تاکہ حرم مشرکوں کے شرک اور اُن کے اُن ذرائع شرک دونوں سے پاک کر دیا جاۓ اور پھر فتح مکہ کے بعد شہرِ مکہ کے اُن مُشرکینِ شہر کو رجوع الی الحق کا جو موقع دیا گیا ہے اُس کی شرائط و تفصیل کی وہ پُوری تفصیل اِس سُورت کے اُس آخری حصے میں موجُود ہے جس میں اُن کو اِس اَمر کا پابند بنایا گیا تھا کہ وہ اِس شہرِ حرم کے اندر اور باہر رہنے والے ہر مجبور و غلام انسان کو آزاد کریں گے ، اپنے ہر غریب و نادار رشتے دار و غیر رشتے دار کی مالی و اخلاقی مدد کریں اور وہ ہر ایک جگہ اور ہر ایک مقام پر ہر یتم و مسکین اور ہر بُھوکے اور ہر مفلوک الحال انسان کی نصرت و اعانت کریں گے تاکہ اِس جہان میں اُن کی تلافیِ مافات کا کُچھ امکان پیدا ہو سکے اور اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو اِس پر اُن کی گرفت کی جائے گی اور رجوع الی الحق کا یہی عملی پروگرام تھا جس نے اُن کی زندگی میں وہ انقلاب برپا کیا تھا جو اُس کے بعد کے ہر زمانے کے اہلِ زمین کے لیئے ایک ناقابلِ فراموش مثال بن گیا تھا لیکن عہدِ اَوّل کے بعد جب ملاءِ اعلٰی کے اُس اعلٰی دین پر مُلاءِ ادنٰی کا غلبہ و تسلط قائم ہو گیا تو اُس دین کی وہ علمی اور عملی پیمانے اتنے بدل گئے کہ اُن پیمانوں کے بدلنے کے نتیجے میں اہلِ اسلام دوبارہ عہدِ نبوت سے پہلے کے اُس مُشرکانہ دور میں داخل ہو گئے ہیں جس دور میں ہر مُشرک اپنا ہر مشرکانہ عمل دینِ ابراہیم کے نام پر کرتا تھا تاہم عہدِ نبوت کے اُس مُثبت انقلاب کے اِس اُمت میں جو مَنفی انقلاب برپا ہوا ہے اُس سے اہلِ اسلام کو اِس اَمر کا یقین ہو گیا ہے کہ اِس اُمت کو قُرآن کا وہی انقلاب دوبارہ راہِ ہدایت پر لاسکتا ہے قُرآن کا جو انقلاب مُشرکینِ عرب کو راہِ ہدایت پر لایا تھا ، قُرآن کے اِس ایک آسمانی نُسخے کو چھوڑ کر زمین کے جو نُسخے بھی اِس بیمار اُمت کو دیئے جائیں گے وہ اِس کی ہدایت کے بجائے اِس کی ہلاکت کا باعث بنیں گے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558822 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More