#العلمAlilmعلمُ اکتابسُورَةُالفجر ، اٰیت 1 تا 30
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
والفجر 1
ولیال عشر 2
والشفع والوتر 3
والیل ذا یسر 4 ھل فی
ذٰلک قسم الذی حجر 5 الم
تر کیف فعل ربک بعاد 6 ارم ذات
العماد 7 التی لم یخلق مثلھا فی البلاد 8
وثمود الذین جابوا الصخر بالواد 9 وفرعون ذی
الاوتاد 10 الذین طغوا فی البلاد 11 فاکثروا فیھا
الفساد 12 فصب علیھم ربک سوط عذاب 13 ان ربک
لباالمرصد 14 فامالانسان اذا ما ابتلٰه ربهٗ فاکرمه ونعمه
فیقول ربی اکرمن 15 واما اذا ما ابتلٰه فقدر علیه رزقه فیقول
ربی اھانن 16 کلا بلا تکرمون الیتیم 17 ولآ تحٰضون علٰی طعام
المسکین 18 وتاکلون التراث اکلا لما 19 وتحبون المال حبا جما 20
کلا اذا دکت الارض دکا دکا 21 وجاء ربک والملک صفا صفا 22 وجائ
یومئذ بجھنم یومئذ یتذکر الانسان وانٰی له الذکرٰی 23 یقول یٰلیتنی قدمت
لحیاتی 24 فیومئذ لایعذب عذابه احد 25 ولا یوثق و ثاقه احد 26 یٰایتھا
النفس
المطمئنة 27 ارجعی الٰی ربک راضیة مرضیة 28 فادخلیفی عبٰدی 29 وادخلی جنتی
30
اے ہمارے رسول ! کیا صُبحِ نَو کے طلوع ہونے ، ہر ماہ کی تین دھائی راتوں
کے اپنا اپنا مقررہ عمل کرنے ، جفت و طاق راتوں کے اپنی اپنی ترتیب کے ساتھ
آنے اور اہلِ مُشکل پر ہمارے رات کو آسان بنانے کے جُملہ اعمال اِس بات کے
اِثبات کے لیئے کافی نہیں ہیں کہ ہمارے اِس عالَمِ فطرت کی ہر چیز ہمارے
ساتھ کیئے ہوۓ اپنے معاہدہِ فطرت کے مطابق عمل کر رہی ہے ، کیا آپ نے دیکھا
نہیں ہے کہ عادِ اُولٰی اور اُس کے بے مثل ستون ساز جدِ اَمجد اِرم اور اُس
کے سنگ تراش جانشینوں کے بعد جب زمین سے اللہ کے اقتدار کو اُکھاڑنے اور
اپنے اقتدار کے کِلّے گاڑھنے والے فسادی فرعون کا فساد حد سے بڑھ گیا تو
ہمارے عذاب کے ایک ہی کوڑنے اُن سارے فسادیوں کا نام و نشان تک کو مٹادیا
اور کیا آپ نے انسان کی اِس اُفتادِ طبع پر بھی غور نہیں کیا ہے کہ جب اِس
کا رب اِس کو انعام و اکرام دیتا ہے تو وہ کہتا ہے میرے رب نے میرے ساتھ
مہربانی کی ہے لیکن جب وہ اِس کی روزی میں کُچھ کمی کرتا ہے وہ کہتا ہے
میرے رب نے مُجھے ذلیل کر دیا ہے اور وہ اپنے اِس جُرم کا کبھی جائزہ تک
نہیں لیتا کہ اُس نے اپنے معاشرے کے ہر یتیم کو نظر انداز اور ہر مسکین کو
فراموش کیا ہوا ہے اور اُس نے مُردوں کا کُچھ مال سمیٹ کر اپنے پیٹ میں اور
کُچھ مال اپنی تجوری کے پیٹ میں ڈال لیا ہے کیونکہ وہ یہ بات یَکسر بُھول
چکا ہے کہ جب یہ زمین کُوٹ کُوٹ کر برابر کی جائے گی تو اُس کے مال سے
اُبھرے ہوۓ حصے سب سے پہلے اُس کی سب سے پہلی کوٹائی میں آئیں گے اور وہ تو
یہ بھی بُھول گیا ہوا ہے کہ جب رب کا تختِ انصاف قائم کر دیا جاۓ گا تو رب
کے صف بستہ اہلِ کار زمین کے ہر خطا کار کو کھینچ کھینچ کر جہنم کی اُس
دہکتی ہوئی آگ کے سامنے لے جائیں گے تو اُس وقت کے اُس بے وقت اور بے وقعت
موقعے پر اُس کو دُنیا میں اپنے کرنے کے کام نہ کرنے پر رَنج ہوگا مگر اُس
وقت اُس کے لیۓ اللہ کی سخت پکڑ اور اُس کے سخت عذاب میں آچکا ہو گا اور
پھر جب ہر اَچھے انسان کو بُرے انسان سے الگ کر کے کہا جائے گا کہ آج تیرا
رب تُجھ سے راضی ہے اور تُو بھی اپنے رب سے راضی ہے اِس لیئے اَب تُو اُس
کی اُس خاص جنت میں داخل ہو جا جو اُس نے اپنے اَحکام پر عمل کرنے والے خاص
بندوں کے لیۓ بنائی ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
سُورَةُالفجر اپنی تعدادِ اٰیات کے اعتبار سے قُرآن کی 30 اٰیات پر مُشتمل
وہ آخری طویل سُورت ہے جس کے پانچ مرکزی مضامین میں پہلا مضمون ریاضی کا
ایک سادہ سا قاعدہ ہے جو اِس کی پہلی 5 اٰیات میں بیان ہوا ہے ، اِس سُورت
کا دُوسرا مضمون جو اِس سُورت کی اٰیت 6 سے اٰیت 13 کی 8 اٰیات پر مُحیط ہے
وہ عہدِ مُستقبل کے اہلِ تاریخ کے لیئے ماضی کی انسانی تاریخ کا وہ ورقِ
عبرت و بصیرت ہے جو اِس سے پہلے بھی قُرآن نے کئی مقامات پر اہلِ عبرت و
بصیرت کو سنایا اور سمجھایا ہے ، اِس سُورت کا تیسرا مضمون جو اِس سُورت کی
اٰیت 15 سے لے کر اٰیت 20 تک کی 6 اٰیات میں آیا ہے اُس مضمون میں انسان کے
ظالمانہ انسانی ماحول میں بَسنے سے بَننے والی اُس ظالمانہ نفسیات کا جائزہ
لیا گیا ہے جو سب سے پہلے اپنے قرب و جوار میں رہنے والے مسکین و یتیم پر
اثر انداز ہوتی ہے اور قُرآن نے اپنا یہ مضمون بھی اپنے کئی مقاماتِ ہدایت
پر انسان کو سنایا اور سمجھایا ہے تاکہ جو انسان موت سے پہلے جس وقت بھی
خود کو شیطانِ رجیم کے مَنفی ماحول سے نکال کر قُرآنِ کریم کے مُثبت ماحول
میں لانا چاہے تو لا سکے ، اِس سُورت کی اٰیت 21 سے لے کر اٰیت 26 تک کا
مضمون جہنم کے ناگوار اور جنت خوش گوار ماحول کا ایک ملا جُلا وہ منظر ہے
جس منظر کو پڑھنے والا پڑھتے ہوئے اپنی چشمِ احساس سے دیکھتا ہے تو اُس کے
دل میں خود کو بدلنے کا وہ داعیہ پیدا ہوتا ہے جو ایک طرف اُس کو عذابِ
جہنم کی جراحتوں سے ڈراتا ہے تو دُوسری طرف اُس کو جنت کی راحتوں کی طرف
بھی بلاتا ہے اور اِس سُورت کی اٰیت 27 سے اٰیت 30 کا آخری ایک مضمون اِن
سارے مضامین کا وہ نتیجہِ کلام ہے جس نتیجہِ کلام میں انسان کو یہ عظیم خوش
خبری دی گئی ہے کہ جو انسان اللہ تعالٰی کے اَحکامِ نازلہ کی علمی و عملی
مدد سے شیطان کے بتائے ہوۓ مَنفی راستوں سے بچ کر رحمٰن کے دکھاۓ ہوۓ مُثبت
راستے پر آۓ گا تو وہ انسان راحت کی اُس زمین میں جانے اور رہنے کا حق دار
بن جاۓ گا جس کا نام جنت ہے اور جو انسان اِس مُثبت راستے پر نہیں آۓ گا تو
وہ اپنے اِس بُرے کردار و عمل کے باعث اُس بُری جگہ پر پُہنچ جاۓ گا جس کا
نام جہنم کے اور چونکہ اِس سُورت کے اِن سارے مضامین کا مقصد انسان کی
نجاتِ عُقبٰی ہے اِس لیئے عُلماۓ تفسیر نے اِس سُورت کی دُوسری اٰیت میں
ذکر کی گئی دس راتوں سے ماہِ رمضان کی پہلی یا آخری دس راتیں مُراد لی ہیں
اور پھر اپنی اِس فکری مُراد سے یہ فکری نتیجہ بھی اخذ کیا ہے کہ جو انسان
ماہِ رمضان کی پہلی یا آخری دس راتوں میں اللہ تعالٰی کے ساتھ توبہ و اطاعت
کا تعلق قائم کرے گا تو وہ انسان قُرآن کی اِس اٰیت کی رُو سے نجاتِ عُقبٰی
کا حق دار قرار پاۓ گا لیکن اِنہی عُلماۓ تفسیر کی ایک دُوسری جماعت کا
کہنا ہے کہ اِن دس راتوں سے ماہِ ذی الحج کی وہ پہلی دس راتیں مُراد ہیں جن
کے دنوں میں فریضہِ حج ادا کیا جاتا ہے اور اُن کے نزدیک بھی اِس اَمر کا
مقصد یہی ہے کہ جو انسان ماہِ ذی الحج کے اِن اَیام میں اَرکانِ حج اَچھے
طریقے سے ادا کرے گا تو وہ قُرآن کی اِس اٰیت کی رُو سے نجاتِ آخرت کا حق
دار ہو جاۓ گا کیونکہ اُس نے حج کے اُن دنوں میں وہ دس راتیں اپنے اعلٰی
اعمال و خیال کے ساتھ بسر کی ہیں وہی عملی طور پر اِس سُورت کی اِس اٰیت کا
مصداق ہیں ، ماہ رمضان و ماہِ ذی الحج کی اِن راتوں کی اہمیت کتنی بھی اہم
کیوں نہ ہو لیکن اِن سے اَبدی نجات کے یہ راستے نکال کر انسان کو قُرآن کے
اَحکامِ نازلہ سے آزاد کرنا وہ خطرناک راستہ ہے جو اِن راتوں کے بعد سارا
سال انسان کو قُرآن کے کسی حُکم پر عمل کرنے سے بے نیاز کر دیتا ہے اور
عُلماۓ تفسیر نے اپنی اِس طرح کی بے طرح تفسیروں سے معصیت و مغفرت کے جو
چور دراوازے کھول دیئے ہیں اُن چور دروازوں میں ایک بار جو انسان داخل
ہوجاتا ہے وہ مرتے دم تک اِن سے باہر نہیں آسکتا بلکہ وہ اِن چور دروازوں
کے اندر رہ کر معصیت و مغفرت کی کی اِس جُھوٹی آس و اُمید پر ایک بخشا
بخشایا چور ڈاکو ہونے کا دعوے دار تو شاید بن سکتا ہے مگر نجاتِ عُقبٰی کا
حق دار ہر گز نہیں بن سکتا کیونکہ قُرآن جو تمام عالَم کا ایک خُدائی مُعلم
ہے اُس مُعلم کے تعلیمی مقاصد زندگی کی دس بیس راتوں تک محدُود نہیں ہیں
بلکہ اُس کے مقاصدِ اعلٰی میں ہر سال کا ہر ماہ اور ہر ماہ کا ہر دن اور ہر
دن کے بعد آنے والی ہر ایک رات شامل ہے اور اِس سُورت کی اِن ابتدائی اٰیات
میں وہ وہ مُعلمِ عالَم اپنے اِس عالمگیر حوالے کے ساتھ انسان سے یہ کہنا
چاہتا ہے کہ تُم دیکھتے ہو کہ ہر ماہ کی پہلی دس راتیں وہ ہیں جن میں چاند
چڑھتے چڑھتے چڑھتا ہے تو دُوسری دس راتیں وہ ہیں جن میں چاند بڑھتے بڑھتے
بڑھتا ہے اور اُس کی آخری دس راتیں وہ ہیں جن میں چاند گھٹتے گھٹتے گھٹتا
ہے اور پھر آسمان سے رُو پوش ہو جاتا ہے اور اِس کے اِس معمول میں آج تک
کوئی بھی فرق نہیں آیا ہے اور تُم یہ بھی دیکھتے ہو کہ ہر طاق رات کے بعد
ایک جُفت رات اور ہر جُفت رات کے بعد ایک طاق رات اپنی اپنی ایک ترتیب کے
ساتھ آتی ہے اور اِن کے اِس معمول میں بھی آج تک کوئی فرق نہیں آیا ہے اور
پھر تُم یہ بھی بچشمِ خود دیکھتے ہو کہ ہم اپنی اِس زمین کے ہر ایک خطے کی
موسمی ضروریات کے مطابق اُس کی رات کے اوقات کو کبھی بڑھا کر اور کبھی گھٹا
کر اُس خطے کے اُس انسان کے لیئے اُس کی اِس موسمی رات کو آسان بنادیتے ہیں
اور ہمارے اِس معمول میں بھی آج تک کبھی کوئی فرق نہیں آیا ہے تو پھر تُم
کو اِس اَمر میں کیوں شُبہ ہے کہ ہم قیامت کے وقت پر قیامت قائم نہیں
کرسکیں گے ، اہل سزا کو سزا کے وقت پر زندہ کر کے اُن کو اُن کی سزاۓ عمل
نہیں دے سکیں گے اور اہلِ جزا کو جزا کے وقت پر زندہ کر کے اُن کے جزاۓ عمل
کی اُن کو جزا بھی نہیں دے سکیں گے ، اگر ہمارے اِس نظامِ فطرت کے دُوسرے
تمام کام اپنے اپنے وقت پر ہو رہے ہیں تو وقت کی یہ تصویر دیکھنے اور اپنے
بدلتے ماحول کی ہر تاثیر دیکھنے کے بعد تمہیں اِس بات کا بھی یقین ہو جانا
چاہیۓ جب ہماری تعزیر کا وقت آۓ گا تو ہماری تعزیر بھی آجاۓ گی اور ہماری
اُس تعزیر کے وقت مسکین کا کھایا ہوا اور یتیم کا دُبایا ہوا ہر حق بھی
تُمہارے اور تُمہاری تجوری کے پیٹ سے باہر آجاۓ گا اور یہ ہمارا وہ عظیم
انقلاب ہو گا جس میں اپنی جھوٹی عظمت کے دعوے کرنے والے ذلیل ہو کر جہنم
میں جائیں گے اور اُن کے ظلم و ستم سہنے والے اُن کے ظلم و ستم سے آزاد ہو
کر اللہ کی اُس اَبدی جنت میں داخل ہو جائیں گے جس کے وہ مُستحق ہوں گے !!
|