مخلص وکامیاب استاذ، طلبہ کے ہمدرد اور انسانیت کے علم
بردار جناب مقصود حسن صاحب کی زندگی ہم سب کے لئے سبق آموز ہے کہ 72 سال کی
عمر کے باوجود آج بھی وہ دن ورات اسی کے لئے کوشاں رہتے ہیں کہ قوم وملت کے
بچے کس طرح پڑھ جائیں، کونسا کورس کرکے بچے تابناک مستقبل بنانے والے اور
اچھی ملازمت حاصل کرنے والے بن جائیں اور وہ کس طرح قوم وملت اور ملک کی
خدمت کرنے والے بن جائیں۔ شہر سنبھل اور قرب وجوار میں موصوف کے سینکڑوں
شاگرد بھی ان کے تعلیمی مشن کو آگے بڑھارہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ موصوف کو صحت
وتندرستی کے ساتھ لمبی عمر عطا فرمائے۔ آمین۔
کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ امروہہ کے ”سنورہ جلال آباد“ گاؤں میں جناب
عبد الصمد صاحب کے گھر 9 ستمبر 1949 کو پیدا ہونے والا مقصود حسن طلبہ کا
منزلِ مقصود بن جائے گا۔ دستاویز میں موصوف کی تاریخ ولادت 4 جنوری 1952
تحریر ہے۔”سنورہ جلال آباد“ گاؤں امروہہ شہر سے 10 کیلومیٹر اور جویا سے
مرادآباد شاہ راہ پر 6 کیلومیٹر کے فاصلہ پر ”ڈھکیہ چمن“ گاؤں کے سامنے
واقع ہے۔ موصوف کی ابتدائی تعلیم ”کنپورہ“ گاؤں کے پرائمری اسکول میں ہوئی
تھی، جو ”سنورہ جلال آباد“ سے ڈیڈھ کیلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔ موصوف روزانہ
اسکول پیدل آتے جاتے تھے۔ اُس وقت اِس اسکول میں صرف 100 بچے زیر تعلیم
تھے، جو آس پاس کے مختلف دیہاتوں سے تعلیم حاصل کرنے آتے تھے۔ اسکول کے
پرنسپل مولوی بہار حسین صاحب وقت کے بہت پابند تھے، وہ 4 کیلومیٹر کے فاصلہ
سے روزانہ پیدل آتے تھے، حقیقت میں پیدل آنے جانے کا راستہ بھی نہیں تھا،
مگر نیک استاذ ومخلص طالب علم کے لئے راستہ کا موجود نہ ہونا درس وتدریس سے
مانع نہیں بنا۔ جناب مقصود حسن صاحب نے 1957 سے 1961 تک ”کنپورہ“ گاؤں کے
اسی اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ یہ اردو میڈیم اسکول تھا۔ ہندی زبان چوتھی
جماعت سے اور انگریزی زبان چھٹی جماعت سے پڑھائی جاتی تھی۔ ابتدا میں تختی
اور تیسری جماعت سے کاپی کا استعمال ہوتا تھا۔ پانچویں جماعت کے بھی بورڈ
کے امتحان ہوتے تھے۔ ڈپٹی صاحب (SDI) تانگے پر بیٹھ کر اسکول کا معاینہ
کرنے کے لئے آتے تھے۔ اسکول کی طرف سے نہ کھانا ملتا تھا اور نہ ڈریس، سارا
انتظام بچوں اور اُن کے والدین کو خود ہی کرنا ہوتا تھا۔ 90 فیصد بچے اور
صرف 10 فیصد بچیاں یہاں تعلیم حاصل کرتی تھیں۔ ظاہر ہے کہ اُس زمانہ میں
بچیوں میں تعلیم کا رجحان بہت کم تھا۔ 1961 میں جناب مقصود حسن صاحب نے
امام المدارس انٹر کالج (آئی ایم انٹر کالج)، امروہہ میں چھٹی جماعت میں
داخلہ لیا اور بارہویں جماعت تک وہیں تعلیم حاصل کی۔ 1966 میں ہائی اسکول
اور 1968 میں انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں کامیابی حاصل کی۔ موصوف امروہہ میں
ایک کرایہ کے مکان میں رہ کر تعلیم حاصل کرتے تھے اور اپنا کھانا خود بناتے
تھے۔ اُس وقت آئی ایم انٹر کالج امروہہ کے پرنسپل جناب شریف الحسن نقوی
صاحب تھے جو ایئرفورس کے ریٹائرڈ افسر تھے اور وقت کے بہت پابند تھے۔ جس
وقت جناب مقصود حسن صاحب امروہہ میں زیر تعلیم تھے، وہاں چار کالج موجود
تھے۔ سرکاری کالج (لڑکے)، سرکاری کالج (لڑکیاں)، آئی ایم انٹر کالج (مسلم
کالج) اور ہندو کالج۔ آئی ایم انٹر کالج، امروہہ سے سائنس کے طلبہ کا
بارہویں جماعت کا پہلا بیچ 1967 میں نکلا جس میں صرف تین بچے پاس ہوئے تھے،
جبکہ 1968 کے سائنس کے دوسرے بیچ میں 39 میں سے 13 طلبہ پاس ہوئے تھے، جن
میں ایک نام جناب مقصود حسن صاحب کا بھی تھا۔ موصوف کو ابتدا سے ہی پڑھنے
کا ذوق وشوق تھا، اسی وجہ سے وہ کامیابی کے منازل طے کرتے رہے۔ دشواریاں
ضرور آئیں، مگر اخلاص کے ساتھ عزمِ مصمم اور جہد مسلسل نے اُن دشواریوں اور
صعوبتوں کو زیر کیا۔ دنیا میں نظامِ الٰہی یہی ہے کہ محنت کبھی ضائع نہیں
ہوتی ہے۔
1969۔1970 میں موصوف نے میرٹھ کالج، میرٹھ (جو میرٹھ یونیورسٹی کا مشہور
کالج ہے) سے B.Sc کی جس میں آپ کے پاس Physics, Chemistry اور Maths جیسے
تین اہم سبجیکٹ تھے۔ ایک سال کرایہ کے مکان میں رہنے کے بعد مسلم ہوسٹل میں
منتقل ہوگئے تھے جہاں جناب لیاقت علی خان صاحب وارڈن تھے۔ B.Sc کے دوران
بھی جناب مقصود حسن صاحب اپنے کام خود کیا کرتے تھے۔ میرٹھ کالج کی B.Sc
میں اس وقت 14 سیکشن صرف سائنس کے تھے۔ موصوف G سیکشن میں تھے۔ مغربی
اترپردیش کا یہ سب سے بڑا کالج تھا۔ دو شفٹوں میں کلاسیں لگتی تھیں۔
Chemistry کی صبح 7 بجے کی کلاس میں موصوف سردیوں میں بھی پابندی سے شریک
ہوتے تھے۔ ستیہ پال ملک جو اِن دِنوں میگھالیہ کے گورنر ہیں وہ اُس وقت
میرٹھ کالج اسٹوڈینس یونین کے صدر تھے۔ اُس وقت میرٹھ کالج کے پرنسپل ڈاکٹر
وی پوری تھے جو Botany کے عالمی پروفیسر تھے۔ اس کے بعد جناب مقصود حسن
صاحب نے مرادآباد کا رخ کیا اور ہندو کالج، مرادآباد سے (1971-1973) کے
دوران Maths میں M.Sc کی۔ اُس دور میں Maths میں M.Sc کرنے والے گنتی کے
چند افراد ہوا کرتے تھے۔ 1971 میں مرادآباد شہر میں فساد برپا ہونے کی وجہ
سے موصوف کا ایک سال ضائع بھی ہوگیا تھا۔ اُس وقت ہندو کالج آگرہ یونیورسٹی
سے ملحق تھا کیونکہ روہیل کھنڈ یونیورسٹی کا قیام بعد میں ہوا تھا۔ ڈاکٹر
آر این گپتا پرنسل تھے جو گرمیوں میں سفید کپڑے اور سردیوں میں نیلے کپڑے
پہنا کرتے تھے۔ 1974 سے 1975 تک مولانا اسحاق سنبھلی (سابق ممبر آف
پارلیمنٹ) کے فلیٹ پر رہائش اختیار کرکے موصوف نے مقابلہ جاتی امتحان کی
تیاری بھی کی، مگر اپنے اصل ذوق وشوق کی طرف لوٹ کر گورمنٹ رضا ڈگری کالج،
رامپور سے 1976 میں B.Ed. کیا۔ یہ کالج کا دوسرا بیچ تھا۔ اُس وقت ڈاکٹر گی
گرس کالج کے پرنسپل تھے۔
اُس زمانے میں B.Ed. کرنے والے افراد بہت کم تعداد میں ہوتے تھے، چنانچہ
فوراً ہی شہر سنبھل کے مشہور کالج (ہند انٹر کالج) میں Assistant Teacher
کی حیثیت سے 19 اگست 1976 کو ملازمت مل گئی۔ اسی وقت سے آپ نے شہر سنبھل کو
اپنا وطن بنالیا۔ اپنی عادت کے مطابق محنت سے بچوں کو پڑھایا۔ بچوں کے ساتھ
شفقت کا معاملہ کرنا آپ کی فطرت میں تھا۔ ہمیشہ بچوں کے مفاد کے لئے کام
کیا، چنانچہ 5 مئی 2005 کو اُسی کالج میں Maths کے لیکچرار کی حیثیت سے
ترقی ملی، اور 30 جون 2014 میں رٹائرمنٹ تک ہند انٹر کالج میں تدریسی خدمات
انجام دیتے رہے۔ ہند انٹر کالج میں سب سے پہلے 10B کے کلاس ٹیچر بنے، اس کے
بعد 9B کے کلاس ٹیچر رہے۔ 2002 میں 11B کی کلاس لی۔ زیادہ تر B سیکشن میں
پڑھا اور عموماً B سیکشن میں ہی پڑھایا۔ غرضیکہ معاشرہ کو موصوف نے عملی
طور پر بتایا کہ A سیکشن ہی میں اُن کا بچہ پڑھے یہ سوچ صحیح نہیں ہے۔ ہند
انٹر کالج میں موصوف نے متعدد پرنسپلوں کے ساتھ کام کیا۔ ہند انٹر کالج میں
ہمیشہ امتحانات کے نگراں اور ٹائم ٹیبل جیسی اہم ذمہ داریاں جناب مقصود حسن
صاحب ہی نبھاتے تھے۔ جناب محمد راشد صاحب، جناب عبدالصمد صاحب، جناب راجیش
چندر گپتاصاحب، جناب اندریش کمار گپتاصاحب، جناب وقار احمد نعمانی صاحب،
جناب محمد عثمان صاحب اور جناب ونور کمار کھنہ سب پرنسپلوں کے ساتھ مل کر
آپ نے ہمیشہ درس وتدریس کے ساتھ انتظامی امور کی ایسی خدمات پیش کیں کہ نہ
صرف طلبہ بلکہ اساتذہ بھی ان کو ہمیشہ یاد رکھتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ جس شخص نے اپنی زندگی میں محنت، جدجہد، کوشش اور لگن سے کام کیا
ہو وہ ریٹائرمنٹ کے بعد کیسے گھر پر بیٹھ سکتا ہے۔ چنانچہ ریٹائرمنٹ کے
فوراً بعد مولانا ابوالکلام آزاد اردو یونیورسٹی میں B.Ed. کے Maths کے
ممتحن بنے۔ نیز آپ نے B.Ed. کی کوچنگ بھی کرائی۔ 2016، 2017 اور 2018 میں
ایس ایم جونیئر اسکول اور علامہ اقبال پرائمری اسکول میں بغیر معاوضہ کے
طلبہ وطالبات کو Maths پڑھایا۔ 2019 اور 2020 میں النور پبلک اسکول، نخاسہ
میں ہائی اسکول کی طالبات کو Maths پڑھایا اور اُن بچیوں کی مکمل سرپرستی
کی یہاں تک کہ سبھی بچیاں جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی سے سیکنڈری اسکول
کے امتحانات میں کامیاب ہوئیں۔ 2022 میں القلم پبلک اسکول میں بھی طالبات
کو Maths پڑھایا۔
جناب مقصود حسن صاحب کی خدمات صرف اسکول وکالج تک محدود نہیں ہیں بلکہ
موصوف نے سماج کے لئے بھی اپنی گرانقدر خدمات پیش کیں، چنانچہ مولانا اسحاق
سنبھلی ٹرسٹ کے ذریعہ بے شمار بچوں کے مستقبل کو سنوارا، جن بچوں کی فیس
والدین کے لئے ادا کرنا مشکل ہوا تو آپ نے اسی ٹرسٹ کے ذریعہ ان کی مدد کی۔
اس کے علاوہ موصوف نے طلبہ وطالبات کے درمیان متعدد کمپٹیشن بھی منعقد
کرائے۔ 1984 اور 1985 میں راجیو گاندھی کے زمانہ میں نئے تعلیمی نظام میں
موصوف نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ملک کے مختلف سینٹروں پر جاکر ٹریننگ لی۔
1985 میں یوپی ایجوکیشن ڈائرکٹر کی مسوری میں منعقد ہونے والی میٹنگ میں
شرکت کی۔ 1988۔1989 میں جناب مقصود حسن کو ان کی تدریسی خدمات کے پیش نظر
شیروانی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ 1988 میں ہند انٹر کالج کے 12ویں جماعت کے
ایک طالب علم نے اردو میں پورے صوبے اترپردیش میں ٹاپ کیا، جس کے ساتھ
ایوارڈ دلانے کے لئے موصوف ہی الہ آباد گئے تھے۔ 1978 میں اساتذہ کی تحریک
کے لئے موصوف کو 4 روز مرادآباد جیل میں رہنا پڑا۔ اور 1998 میں بھی بریلی
کی سینٹرل جیل کے جواہر لال نہرو وارڈ میں 4 روز کے لئے جیل میں رہے۔ اُس
وقت سخت سردی تھی اور رمضان کا مہینہ تھا، مگر موصوف نے کوئی روزہ نہیں
چھوڑا۔ اس تحریک کی وجہ سے اساتذہ کی تنخواہ میں اضافہ ہوا۔ جناب مقصود حسن
صاحب 1980 سے 2020 تک یوپی بورڑ کے ممتحن رہے، یعنی آپ نے تقریباً 40 سال
کاپیاں چیک کیں۔
اُن کی سماجی زندگی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ لڑکے اور لڑکیوں کا رشتہ
کرانے میں بھی کافی فعال نظر آتے ہیں، جو یقیناً سماج کے لئے بڑی خدمت ہے۔
اس نوعیت کی وہ خدمات لوجہ اللہ انجام دیتے ہیں۔ موصوف کی ہمیشہ یہ کوشش
رہی ہے کہ بچیاں تعلیم ضرور حاصل کریں تاکہ آنے والی نسلیں اپنی تعلیم
یافتہ ماؤوں سے فائدہ اٹھائیں۔ ماہرین تعلیم کا اتفاق ہے کہ بچوں کی عمدہ
تربیت کے لئے ماں کا تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے۔ ہاں ان کی یہ خواہش بھی
رہتی تھی کہ بچیاں تعلیم کے ساتھ گھر خاص کر باورچی خانہ کے امور سے بخوبی
واقف رہیں تاکہ شادی کے بعد کسی طرح کی دشواری سامنے نہ آئے۔ موصوف کہتے
ہیں کہ لڑکی کتنی بھی تعلیم یافتہ ہوجائے اسے ہی گھر کے تمام اندرونی نظام
کو چلانا ہوتا ہے۔
جناب مقصود حسن صاحب کی زندگی بہت سادہ مگر صاف وشفاف ہے۔ النور پبلک اسکول
اور القلم پبلک اسکول کے متصل ہی آپ کی رہائش ہے جہاں وہ اور اُن کی اہلیہ
(اسماء بیگم) رہتی ہیں۔ موصوف کی دو بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ سب کی شادیاں
ہوگئی ہیں۔ بڑے بیٹے جناب محسن حسن دہلی میں Pathology Lab چلا رہے ہیں۔
چھوٹے بیٹے ڈاکٹر واصل حسن علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے میڈیکل کالج میں
اسسٹینٹ پروفیسر ہیں، وہ Bio+Chemistry سے Phd ہیں۔ اُن کی بڑی بیٹی ڈاکٹر
عظمہ مقصود کی شادی ڈاکٹر ذیشان کے ساتھ ہوئی ہے، جن کا تعلق سنبھل سے ہی
ہے، مگر دونوں دہلی میں مقیم ہیں۔ چھوٹی صاحبزادی ڈاکٹر ہما مقصود (MD) کی
شادی ڈاکٹر شانِ رب کے ساتھ ہوئی ہے جو اِس وقت سنبھل کے مشہور ڈاکٹروں میں
سے ایک ہے۔ بڑی خوشی کی بات ہے کہ آپ کی چاروں اولاد نے علی گڑھ مسلم
یونیوسٹی سے تعلیم حاصل کی ہے۔ موصوف نے اپنے دونوں بیٹوں کی بیویوں (شبلی
پروین اور ممتاز عابدہ) کو بھی شادی کے بعد پڑھایا اور وہ اب الحمد للہ
برسر روزگار ہیں۔ غرضیکہ جناب مقصود حسن صرف اسکول یا کالج کیمپس میں ٹیچر
نہیں تھے بلکہ انہوں نے اسکول وکالج میں تدریسی خدمات کے ساتھ اپنی تمام
اولاد کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرکے اُن کی بہترین تربیت فرمائی ہے، جو
مخلص وکامیاب استاذ کی علامت ہے۔ جناب مقصود حسن صاحب کی تدریسی خدمات کا
سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔ الحمد اللہ النور پبلک اسکول میں بھی وقتاً فوقتاً
حاضری دے کر طلبہ وطالبات کی سرپرستی فرماتے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ
جناب مقصود حسن صاحب کو لمبی عمر عطا فرمائے۔ آمین۔
|