اﷲ ربّ العزت عادل اور قرآن مجید میں متعدد مقامات پر
اپنے بندوں کو عدل کرنے کاحکم فرماتے ہیں۔احکامات الٰہی اور اسلامی تعلیمات
سے انسانیت کو روز مرہ کے معاملات میں سچائی تک رسائی یقینی بناتے ہوئے
انصاف کی فراہمی اورفراوانی کا درس ملتا ہے۔ہم میں سے ہر کوئی مصنف اور
منصف ہے۔ ہماری تقدیر قادر مطلق نے لکھی ہے لیکن اپنے اپنے اعمال کا رجسٹر
ہم خود تحریرکرتے ہیں۔ ہم عدلیہ سے تو انصاف کے خواہاں ہیں لیکن ہمیں
دوسروں کے ساتھ عدل کرناگوارہ نہیں ، اسلئے میں کہتا ہوں " پاکستان میں
انصاف اچھی "قسمت" یا اچھی "قیمت" سے ملتا ہے۔انصاف ان کوملتا ہے جودوسروں
کے ساتھ عدل کرتے ہیں۔انصاف اوراحتساب کے بغیر معاشرے مردہ ہوجاتے ہیں
اورپھر اس مردہ معاشرے کی میت کسی نشتر ہسپتال کی چھت پرچیل کوؤں کے طعا م
کیلئے رکھ دی جاتی ہے۔جہاں قومی چورشاہراہ دستور پر دندناتے ہوں اورنیب
کو"این آراو" کاآسیب نگل جائے وہاں عوام زندہ اورمردہ دونوں صورتوں میں اس
کی قیمت چکاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں ان دنوں بریت اور برات کا موسم ہے اور
حالیہ دنوں میں جس طرح سے بریت کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں،اس کے
بعدپاکستانیوں کیلئے" بریت" اور" بربریت" میں فرق کرنا بہت دشوار ہوگیا
ہے۔عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے منصب سے سبکدوشی، شریف خاندان کے چندافراد
کی عجلت میں بریت اورپاکستان کے جوہری ہتھیاروں بارے جو بائیڈن کے بیان کی
TimingیقیناAlarmingہے، جومخصوص طبقہ اب بھی" رجیم چینج "کو محض کپتان
کاسیاسی بیانیہ سمجھتا ہے اسے نیند سے جاگنا ہوگا کیونکہ جوبائیڈن کے حالیہ
بیان سے ایک بار پھر واشنگٹن کاخبث ِباطن ظاہرہوگیا ہے ۔محبان وطن یادرکھیں
آئندہ عام انتخابات میں امریکا کے" مہروں" کے مقدراورسیاسی مستقبل پرشکست
کیـ" مہر" ثبت کرنا ہوگی۔ماضی میں بھی جو"زر یازور" کے بل پر" بری" ہوتے
رہے ان کے ساتھ عام انتخابات میں عوام کے ہاتھوں بہت" برُی" ہوئی کیونکہ
عوامی عدالت سے آج تک کسی قومی چور کوبریت اوربرات ملی نہ ملے گی۔عوام نے
عمران خان کونظام کی تبدیلی اوراحتساب کے نام پرمینڈیٹ دیا تھا لیکن اس کام
کیلئے اس نے جس طرح شہزاداکبر،اسد عمر،شہبازگل اورعثمان بزدارسے سیاسی
بونوں پرانحصار اوراعتماد کیا وہ اس کی مجرمانہ غلطی تھی،آنیوالے امتحان
میں کپتان کی کامیابی نوشتہ دیوار ہے لہٰذاء اس بار اسے ڈیلیورکرنے کیلئے
ماہرین اورصالحین کی ٹیم بنانے کی ضرورت ہے،جس کے ممبر بزدار نہیں بردبار
ہوں ۔عمران خان کی سیاسی حماقتوں اوربدترین انتظامی غلطیوں سے زرداریوں
سمیت حواریوں نے این آراو ٹوکی صورت میں بھرپور فائدہ اٹھایاتاہم کپتان کی
ضمنی الیکشن میں حکمران اتحاد کے غرورکوچکناچورکرتے ہوئے چھ سیٹوں پرتاریخی
کامیابی تازہ ہوا کاجھونکا ہے ۔میں ایک بار پھر کہتاہوں بیرونی سازش اور
مداخلت کے نتیجہ میں عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد عمران خان کاایوان کی
بجائے میدان کاانتخاب کرنا ہرگز درست نہیں ،وہ "ایوان "میں متنازعہ حکومت
کیخلاف راست اقدام کیلئے جوآئینی کرداراداکرسکتے ہیں وہ "میدان" میں نہیں
ہوسکتا۔محض کامیاب عوامی اجتماعات سے عام انتخابات کاراستہ ہموار نہیں
ہوگا، اس کیلئے کپتان کو ایوان میں بھرپور مزاحمت کرنا ہوگی۔اسلام آباد
ہائیکورٹ سے پارلیمنٹ ہاؤس زیادہ دور نہیں ،پی ٹی آئی کی پارلیمنٹ میں
واپسی سے متنازعہ حکمرانوں کے کئی مذموم ارادوں پرپانی پھر جائے گا۔
دین فطرت اسلام میں منصف کیلئے بہت سے انعامات کی نوید ملتی ہے تو پھر
سوچیں جو انصاف نہیں کرتے اور جو انصاف کے نام پر اخلاقیات اورعدل کا قتل
عام کرتے ہیں روز محشر ان کا کیا حشر ہوگا۔جومقتدر عناصراپنااثرورسوخ
استعمال کرتے ہوئے چوروں کیلئے راہ ہموارکرتے اور جوان کی بریت کاجشن مناتے
ہیں ، ان کایہ اقدام یقینا گناہ بے لذت کے زمرے میں آتا ہے ۔اگر ہمارے ملک
میں کوئی چور نہیں توپھر قومی وسائل کی چوری میں کون لوگ ملو ث ہیں ،ان
قومی چوروں کامحاسبہ کون کرے گا۔دوبڑے سیاسی خاندان جوجمہوریت کے نا م
پرہمارے ملک کے مختار ومالک تھے وہ چنددہائیوں میں معاشی طورپرزمین سے
آسمان پرجابیٹھے جبکہ بیرونی قرض کے بوجھ سے ہماری قومی معیشت زمین بوس
ہوگئی ،اس کے باوجود اصلاحات کے نام پرنیب کے پرکاٹ دینا" چوری اوپرسے سینہ
زوری" کے مصداق ہے ۔جس طرح حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے اپنے زیراستعمال
دوچادروں کااطمینان بخش حساب دیا تھا اس طرح تمام سرمایہ داربھی جوابدہ
ہیں،ان سے کوئی بھی سوال پوچھ سکتا ہے۔ انہیں اپنے اثاثوں کے حق میں ناقابل
تردید شواہد پیش کرناہوں گے ۔یادرکھیں یہ بریت عارضی برات ہے ،روز محشر
کوئی ڈیل اورڈھیل نہیں ہوگی ۔سمجھوتہ ایکسپریس میں سوار اشرافیہ کو ان کی
مرضی ومنشاء کے مطابق انصاف کا ملنا کوئی بڑی بات نہیں لیکن" عفت و
رفعت"اورعافیت کسی شاپنگ مال سے نہیں ملتی ۔ یادرکھیں عزت اورشہرت میں زمین
آسمان کافرق ہے۔شہزادہ کونین حضرت امام حسین علیہ السلام کے مقدس خون سے
ہولی کھیلنے پرملعون اور پلید یذید کو نجاست اورغلاظت سے بھرپور شہرت کے
ساتھ ساتھ بدترین شکست ملی جبکہ عزت ونصرت تاابد فرزندعلی رضی اﷲ عنہ کے
مزار انوار کی دہلیز پرسربسجود رہے گی ۔ یادرکھیں کسی کی شخصیت کوشہرت کی
بنیاد پرتولنا یاپرکھنا درست نہیں ۔پاکستان کومقبول نہیں معقول اورمتعدل
سیاسی قیادت کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم تو شہبازشریف بھی بن گیا لہٰذاء اس
بارعمران خان کووزیراعظم نہیں نجات دہندہ بنناہوگا۔ عمران خان کی ٹیم میں
باصلاحیت ،پرجوش اورخوش اخلاق میاں اسلم اقبال سے انتھک ممبر کاوجود بیش
قیمت ہے۔عثمان بزدار کے ایکسپوزہونے اورعبدالعلیم خان کی سیاسی بیوفائی کے
بعد پنجاب میں وزارت اعلیٰ کیلئے میاں اسلم اقبال کاراستہ ہموار ا ورو ہ اس
منصب کیلئے موزوں ترین امیدوار ہے۔عمران خان اورپی ٹی آئی کے ساتھ میاں
اسلم اقبال کی وابستگی اورورافتگی سودوزیاں سے بے نیاز ہے ، یہ گوہرنایاب
اپنی جہدمسلسل،خندہ پیشانی ،جانفشانی،قابل قدر کمٹمنٹ اوراوصاف حمیدہ کے بل
پراپنے کپتان اورووٹرز کابھرپوراعتمادحاصل کرنے میں کامیاب رہا۔وہ اپنے
مخصوص اورمنظم اندازمیں عوام کااحساس محرومی دورکرتے ہوئے لاہور سمیت پنجاب
کوکپتان کابیس کیمپ بنائے گا۔میاں اسلم اقبال کواس کے حلقہ انتخاب سے ابھی
تک شکست نہیں ہوئی کیونکہ وہ اپنے ووٹرز کواپنے خاندان کافرد سمجھتا ہے ۔
سراپاخدمت میاں اسلم اقبال سے سیاستدان قومی سیاست کاحسن ہیں۔
ملک عزیز کا ممتازقانون دان،ماہرآئین اورنڈرسیاستدان اعتزاز احسن "جاٹ "
اوراس کے لہجے میں "کاٹ" ہے ،ضیائی آمریت سے پرویزی آمریت تک وہ شروع سے
آمروں کوللکارتا ، لتاڑتا اورپچھاڑتا آیا ہے۔حسن اِتفاق سے وہ زمان پارک
میں عمران خان کا پڑوسی ہے،اب یہ زمان پارک کی فضاؤں اورکپتان کی اداؤں کا
اثر ہے یا اعتزاز احسن کے اس دبنگ انداز کوضمیریابینظیر کی صحبت کی تاثیر
کہاجائے۔احتساب اوراین آر او سمیت متعدد موضوعات پر زمان پارک کا
ہردلعزیزکپتان اورپرجوش قانون دان دونوں ہمسائے ایک پیج پر ہیں،شاید دونوں
کے درمیان مزید قرب کاوقت آپہنچا ہے ،عمران خان اپنے ہم خیال اعتزازاحسن سے
براہ راست رابطہ کرنے میں مزید دیرنہ کریں۔باوفا اورباصفااعتزازاحسن زندہ
ضمیر اورمثبت سیاسی روایات کا امین ہے۔وہ بینظیر بھٹو کا بھائی اوربازو تھا
،آصف زرداری کا حامی وہمنوا ہرگز نہیں ۔پیپلزپارٹی کیلئے اعتزازاحسن کادم
غنیمت تھا ، اس کے بغیر زرداری لیگ کی سیاسی ساکھ پوری طرح راکھ کاڈھیر بن
جائے گی ۔عمران خان اوراعتزازاحسن کے مابین نظریاتی ہم آہنگی ہے لہٰذاء اگر
یہ دودیوانے مل بیٹھے توان کی خوب گزرے گی۔
پچھلے دنوں شہبازشریف ایک پریس کانفرنس میں اپنے حق میں صفائیا ں
اوردوہائیاں دے رہا تھا ،اس کاکہنا ہے عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس
(ریٹائرڈ)میاں ثاقب نثار نے اسے 56کمپنیوں کے معاملے میں بدنام کیا، موصوف
نے اپنے مخصوص سیاسی مفادات کیلئے یہ تاثردیا لیکن عوام نے اس کی باتوں
پرکان نہیں دھرے کیونکہ وہ میاں ثاقب نثار کے عدل وانصاف اورافکار وکردار
کے مداح ہیں، شہبازشریف سمیت سیاستدانوں کی منظم سیاسی مہم جوئی اوردروغ
گوئی کے باوجودقدآورقانون دان میاں ثاقب نثار خاموش ہیں کیونکہ ان کاکام
بولتا ہے۔شہبازشریف کومعلوم تھا میاں ثاقب نثار کی طرف سے تردید یاوضاحت
نہیں آئے گی لہٰذاء اس کا بیان قابل اعتماد نہیں۔اچھا ہوتا اگر شہبازشریف
کے اس شکوہ کے ساتھ میاں ثاقب نثار کا موقف بھی اخبارات کی زینت بنتا ۔کیا
شہبازشریف نے بحیثیت وزیراعلیٰ پنجاب56کمپنیاں نہیں بنائی تھیں اوروہاں
جوکچھ ہوتا رہاوہ حقیقت تو بچے بچے کے علم میں ہے،شہبازشریف کے اقتدارمیں
ہوتے ہوئے اس کافرزندسلمان شہبازاورداماد وطن واپس کیوں نہیں آرہے۔نیب
زدگان کی بدنامی یقینا ان کی بدانتظامی اوربدنیتی کاشاخسانہ ہے لہٰذاء کسی
نیک نام منصف پرانگلی اٹھانا مناسب نہیں ۔میاں ثاقب نثار کو ملک میں جاری
بلیم گیم اورپراگندہ سیاست کاحصہ بنناہرگز پسند نہیں لہٰذاء ان پربار
بارسیاسی حملے کرتے ہوئے انہیں طویل خاموشی توڑنے اورسیاسی بونوں کے چہروں
سے نقاب اتارنے پرمجبورنہ کیاجائے ۔میاں ثاقب نثار اپنے منصب سے ریٹائرمنٹ
کے بعد سے اپنے وطن میں موجوداوراہل خانہ کے ساتھ متحرک اورمسرت سے بھرپور
زندگی بسرکررہے ہیں ،ان کی بیرون ملک منتقلی کاپروپیگنڈا کرنیوالے کوتاہ
اندیش عناصرپاکستانیوں کوگمراہ کرنے میں ناکام رہے ۔میں مستقبل میں مادروطن
کے جانثار میاں ثاقب نثار کو اپنے ہم وطنوں کی فلاح کیلئے اہم کرداراداکرتے
ہوئے دیکھ رہا ہوں۔
|