اترپردیش انتخاب سے قبل ایک نغمہ خوب چلا تھا ’یوپی میں
کابا‘؟ وقت آگیا ہے کہ اسی طرز پر ’گجرات ما سوں چھے‘ کے مصرع پر نیا نغمہ
بنایا جائے ۔ وزیر اعظم مودی کی جب صدر اوبامہ سے پہلی ملاقات ہوئی تو یہ
خبر اڑائی گئی کہ انہوں نے گجراتی میں پوچھا ’کیم چھو‘۔ امریکہ کی بدنام
زمانہ سی آئی اے اگر اس کی سچائی معلوم کرنا شروع کرے تو یقیناً اس کو بی
جے پی کے آئی ٹی سیل سے رجوع کرنا پڑے گا۔ اس لیے کہ ایسی افواہوں کی
گنگوتری( مرجع اور منبع) بھگتوں کا وہی مقدس مقام ہے جہاں سے آنے والے ہر
جھوٹ پر وہ آنکھ موند کر یقین کرلیتے ہیں۔اس سال کی ابتداء میں مودی اور
شاہ کی جوڑی کے لیے گجرات کا انتخاب انگریزی محاورہ ’کیک واک‘ کی مانند تھا
لیکن جب سے اس راستے پر عام آدمی پارٹی کا جھاڑو چلنا شروع ہو یہ ’بریک
واک ‘ میں بدل گیا ۔ اب حال یہ ہے کہ ہرمہینے اس راہ کوہموار کرنے کی خاطر
وزیر اعظم کو دہلی سےگجرات آنا پڑتا ہے اور جب وہ کسی مجبوری کے تحت نہیں
پاتے تو اپنے دستِ راست امیت شاہ کو بھیج دیتے ہیں ۔ فی الحال ملک کے وزیر
اعظم اور وزیر داخلہ کو خود اپنی کرم بھومی میں پسینے چھوٹ رہے ہیں ۔
اروند کیجریوال نے بی جے پی پر دو طرفہ حملہ کررکھا ہے۔ ایک تو وہ نہ صرف
کمل دھاری شہری رائے دہندگان میں سیندھ مار رہے ہیں بلکہ وہ ہندوتوا کے نام
پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اروند کیجریوال اپنے ہر دورے کے وقت بہت بڑا تلک لگا
کر پہلے کسی مندر میں جاکر پوجا پاٹ کرتے ہیں اور باہر آکرجئے شری رام کا
لگانے کے بعدہنو مان چالیسا سناتے ہیں ۔ اس حکمت عملی کی وجہ ہندوتوا کے
حامیوں کا دل جیتنا ہے ۔ اروند کیجریوال ان رائے دہندگان کو بلا واسطہ ایک
بہتر اور تیز طرارہندوتوا کی دعوت دے رہے ہیں۔ یہ بی جے پی کے لیے بہت بڑی
مصیبت ہے کیونکہ گجرات کی نوجوان نسل مودی اور شاہ کو دیکھ دیکھ کر پک گئی
ہے۔ ان کو تبدیلی کے لیے جس چہرے کی ضرورت ہے وہ انہیں اروند کیجریوال میں
نظر آرہا ہے۔ اس صورتحال نے بی جے پی کو بوکھلاہٹ کا شکار کردیا اور اس کا
اظہار گجرات کی انتخابی مہم کے دوران مختلف انداز میں ہونے لگا ہے۔
اروند کیجریوال کو گھیرنے کی خاطر بی جے پی نے سب سے پہلے آئی ٹی سیل امیت
مالویہ کو ان کے پیچھے چھوڑا۔ ان کا ہدف اروند کیجریوال کو ہندووں کا مخالف
ثابت کرنا تھا ۔ اس کے لیے عام آدمی پارٹی کی دہلی سرکار میں وزیرسماجی
فلاح بہبود راجندر پال گوتم کا سہارا لیا گیا ۔ انہوں نے ایک تقریب میں
ڈاکٹر امبیڈکر کے ذریعہ بودھ مذہب اختیارکرتے وقت کیے جانے والے عہد کا
اعادہ کیا تھا۔ اس دوران رام ، کرشن اور دیگر ہندو دیوتاوں کی عبادت نہیں
کرنے کی بات کی گئی تھی۔ ہندووں کےکئی فرقے رام اور کرشن وغیرہ کی عبادت
نہیں کرتے ۔ شیو اور وشنو پنتھی فرقوں کے درمیان اختلاف جگ ظاہر ہیں ۔ ان
میں بڑی بڑی لڑائیاں بھی ہوچکی ہیں ۔ ہندو سماج میں ایک بڑا طبقہ ملحد ہے
وہ بھی ان دیوی دیوتاوں کو نہیں مانتا ۔ مسلمان، عیسائی ، سکھ ، جین ،
پارسی کوئی بھی ان کی پرستش نہیں کرتا ایسے میں راجندر پال گوتم کے اس
اعلان میں کوئی حیرت انگیز بات نہیں تھی لیکن اس پر ہنگامہ کھڑا کر کےایسا
دباو بنایا گیا کہ کیجریوال کو ان سے استعفیٰ لینا پڑا لیکن اپنی اس حماقت
سے بی جے پی نے خود کو دلت مخالف ثابت کرکے اپنا نقصان کرلیا ۔
اس احمقانہ حکمت عملی کے بعد آئی ٹی سیل نے اروند کیجریوال کی ٹوپی اور
رومال کے ساتھ تصویر شائع کرکے انہیں مسلمانوں کا حامی بتانے کی کوشش کی۔
امیت مالویہ یہ بھول گئے کہ مسلمانوں کے سارے حامی ہندووں کے دشمن نہیں
ہوتے۔ بی جے پی کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی ٹوپی اور رومال کے
ساتھ نہ جانے کتنی تصاویر انٹر نیٹ پر موجود ہیں۔ تو کیا انہیں بھی ہندو
مخالف مان لیا جائے ۔ جس دن یہ ہنگامہ برپا تھا امیت شاہ بہار میں جئے
پرکاش نارائن کو کے مجسمہ کا افتتاح کررہے تھے ۔ کوئی پاگل ہی ہوگا جو جے
پی کو مسلمان مخالف کہے۔ اتفاق سے اسی دوران ملائم سنگھ یادو کا انتقال
ہوگیا۔ ان کی موت پر مودی اور یوگی دونوں نے تعزیت کی بلکہ وزیر دفاع
راجناتھ سنگھ نے تو ان کے جنازے میں بھی شرکت کی ۔ ملائم سنگھ یادوہی رہنما
جنھوں نے بابری مسجد کے اوپر چڑھنے والوں پر گولی چلانے کا حکم دیا تھااور
یوگی کو جیل کی سیر کرائی تھی ۔ ایک طرف ملائم سنگھ یادو کی موت پر مگر مچھ
کے آنسو بہانا اور دوسری جانب اروند کیجریوال کو ہندو مخالف ثابت کرنے کی
کوشش کیونکر کامیاب ہوسکتی ہے؟ اس طرح یہ حربہ بھی ناکام رہا ۔
اس کے بعد امیت مالویہ گجرات میں بی جے پی کے ناظم گوپال اٹالیہ کی ایک
ویڈیو نکال کر لے آئے جس میں انہوں نے وزیر اعظم کو نوٹنکی باز اور نیچ
جیسے القاب سے یاد کیا تھا ۔ اس پر ہنگامہ ہوا تو عام آدمی پارٹی نے اس کا
ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے ان القابات کی فہرست جاری کردی جن سے بی جے پی
کے رہنما دوسروں کو نوازتے رہے ہیں ۔ اس طرح پھر سے بی جے پی کو لینے کے
دینے پڑ گئے اس لیے گالی گلوچ میں ان کو کوئی ثانی نہیں ہے۔ جہاں تک آئینی
عہدے کا سوال ہے تو وزیر اعظم کی مانند وزیر اعلیٰ کو بھی وہی تقدس حاصل
ہے۔ اس کے بعد گوپال اٹالیہ کا ایک اور ویڈیو کو وائرل کیا گیا جس میں وہ
خواتین کو مندر میں جاکر ناچنے گانے کے بجائے اپنے حقوق کی خاطر تعلیم حاصل
کرنے کا مشورہ دیتے ہیں ۔ اس کو خواتین کی توہین قرار دے کر انہیں دہلی میں
امیت شاہ کی پولیس نے گرفتار کرلیا لیکن تین گھنٹے کے اندر چھوڑنا پڑا
کیونکہ عآپ نے اسے ذات برادری کا معاملہ بنادیا۔ اس نے کہا چونکہ گوپال
اٹالیہ کا تعلق پٹیل برادری سے ہے اس لیے پٹیل سماج کے لوگ بی جے پی سے
الیکشن میں انتقام لیں گے۔
بی جے پی آئی ٹی سیل نے دیکھا کہ جب اس سے دال نہیں گل رہی ہے تو ٹائمز
ناو نے ایک انتخابی جائزہ کروا کے نشر کردیا۔ بی جے پی کی خوشنودی حاصل کی
خاطر اس میں سروے میں فسطائی جماعت کو 125 سے 130کے درمیان پہنچا دیا گیا
ہے حالانکہ ابھی تک بی جے پی گجرات میں 127 کے عدد سے آگے نہیں جاسکی ہے۔
مودی جی خود وزیر اعلیٰ کے طور پر اس مقام پر نہیں پہنچ سکے تو پھوپندر
پٹیل کے کندھے پر سوار ہوکر وہاں کیسے پہنچیں گے یہ تو ٹائمز ناو والے ہی
بتا سکتے ہیں ۔ اس کے باوجود وہ امیت شاہ کے دعویٰ کے ڈیڑھ سو سیٹ سے بہت
دور ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے اس جائزے میں باقی ماندہ سیٹوں کو عام آدمی
پارٹی و کانگریس میں تقریباً برابرب تقسیم کیا گیا ہے۔ حقیقت پسندی کا رنگ
بھرنے کی عآپ کو کانگریس سے دو فیصد زیادہ ووٹ اور دو عدد کم سیٹوں کی
پیشنگوئی کی گئی ہے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مودی اور شاہ کو اس جائزے
پر اطمینان نہیں ہے اس لیے انہوں نے ہماچل پردیش کے ساتھ گجرات الیکشن کی
تاریخوں کا اعلان نہیں کروایا۔
امیت مالویہ اور امیت شاہ کے ڈھیر ہوجانے پر خود مودی جی نے کمان سنبھالی
اور اروند کیجریوال کو اربن نکسل قرار دے دیا۔ اس الزام کے دو پہلو ہیں اول
تو یہ کہ اس سے اربن نکسل کی شبیہ میں سدھار ہوا۔ فی الحال ملک میں وزیر
اعظم کے عہدے کی خاطر دوسرے نمبر کے مقبول ترین رہنما کا اربن نکسل ہونا
یقیناً ان کی توصیف ہے۔ دوسرے یہ کہ اگر ایک اربن نکسل وزیر اعلیٰ ہے تو
یلغار پریشد کے بعدجن لوگوں پر اربن نکسل ہونے کا الزام لگایا گیا ہے انہیں
بھی رہا کیا جانا چاہیے۔ وزیر اعظم نے ملک کے ایک وزیر اعلیٰ پر ایسا سنگین
الزام لگا کر ایک معنیٰ میں گوپال اٹالیہ کے الزام کی توثیق کردی۔ نریندر
مودی نے ایک عوامی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ بی جے پی والے
کانگریس کے حوالے سے غفلت میں رہیں ۔ وہ دیہاتوں میں بغیر کسی شور شرابے کے
خاموشی سے کام کررہی ہے۔کانگریس کی اس تعریف نے کانگریسیوں کو بھی چونکا
دیا کیونکہ وہ انتخاب میں کہیں بھی نظر نہیں آرہی ہے ۔ ویسے اگر یہ بات
درست ہو اور کانگریس دیہات کے اندر بی جے پی جنازہ اٹھائے نیز شہروں میں اس
کو کیجریوال اکھاڑ کر پھینک دیں تو گجرات میں شکست کے بعد مودی اور شاہ کی
ہوا اکھڑ جائے گی ۔ اس کا امکان تو کم ہے لیکن سیاست میں کچھ بھی ناممکن
نہیں ہے ۔ نریندر مودی جیسا سیاست جسے کیشو بھائی پٹیل نے گجرات سے نکال
باہر کیا تھا وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم بن سکتا ہے تو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔
|