میری نگاہیں مسلسل اپنے جسم پہ جمی ہوئی تھی جو موسم سرما کی وجہ سے یخ بستہ صبح میں یوں پھیلا ہوا تھا جیسے کسی لاش کو زمین کے اندر سے کھینچ کہ نکالا گیا ہو ۔عاشر تیزی سے چل رہا تھا جیسے کوئی انجانی قوت اسے تیزی سے اڑا رہی ہو۔وہ نیچے پہنچا اور فون کے پاس جا کھڑا ہوا اور پھر نمبر ڈائل کیا ڈاکٹر صاحب آپ بغیر سوال کیے گھر آ جائیں ۔
بوڑھا پستہ قد فربہ اندام ڈاکٹر آیا اور اس نے میری نبض کو جانچا پھر پنسل ٹارچ کی مدد سے میری آنکھوں کا معائنہ کیا میں نے آوازیں نکالنا چاہی لیکن ناکام رہی
کیا عینی؟ کیا وہ ؟ عاشر ہلکایا ڈاکٹر ادریس نے اپنے جملہ اوزار بیگ میں ڈالے اور گھمبیر لہجے میں بولا
ہاں یہ ایک حقیقت ہے کہ عینی اس دنیا میں نہیں رہی۔
میں نے تمہیں پہلے ہی خبر دار کر دیا تھا ۔
ہاں آپ نے کہا تو تھا یہ حادثہ کسی بھی لمحے ہو سکتا ہے ۔ ڈاکٹر ادریس نے جاتے وقت کہا " مجھے بے حد افسوس ہے عاشر! موت کا ایک وقت متعین ہے لیکن مجھے حیرت ہے کہ عینی اتنے طویل عرصے تک کیسے زندگی کی گاڑی کو گھسیٹنے میں کامیاب ہوئی
جواب میں عاشر نے دو آنسو بہائے ۔
میں نے اچانک اپنے اندر ایک نئی لہر محسوس کی اور اپنے جسم کو حرکت دینے میں کامیاب بھی ہوئی اور سوچا
"موت درحقیقت کیا شے ہے" ؟
میں دراصل گناہ کو گناہ نہیں سمجھتی تھی میں بس اس زندگی کو قانون قدرت سمجھتی رہی لیکن رفتہ رفتہ میری عقل کہہ رہی تھی میں غلطی پہ ہوں
عاشر اک بار پھر ٹیلی فون کی طرف لپکا اور نمبر ڈائل کیا ۔
"کرن ! سب کچھ ٹھیک ہو گیا ہے ، تم ابھی مت آنا ذرا سی بے احتیاطی سے تمام کام چوپٹ ہو جائے گا"
عاشر کے یہ الفاظ میرے ذہن پر ہتھوڑے کی طرح برس رہے تھے میں نے خود کو تسلی دی کہ میں خواب دیکھ رہی ہوں
میں تو دائمی مریض ہوں اب سوچتی ہوں کہ زندگی کا اتنا طویل عرصہ گزارنا اور عاشر کا میرے ساتھ رہنا کتنا مشکل ہوا ہو گا۔ اب میرا جنازہ تابوت میں اٹھایا گیا سب رشتے دار موجود تھے دور کھڑی کرن بھی دیکھ رہی تھی تمام کاروائی مکمل ہونے کے بعد عاشر نے فورا اس دوائی کو گڑھا کھود کہ دفن کیا ۔ کوئی میری آواز نہیں سن رہا تھا ۔ میں زندہ تھی یہ فقط خواب تھا پھر خیال آیا میں شاید غلطی پہ ہوں اور دنیا نے جو فیصلہ کیا ہے وہ حقیقت ہوگا ۔
۔۔۔" />