ارشد شریف شہید سے عہدِ وفا

Arshad Sharif Shaheed ( Acclaimed Pakistani Journalist)

ارشد شریف شہید۔۔ان چند لوگوں میں سے ایک جس سے ملنے کی مجھے شدید خواہش تھی، جو کہ پوری نہیں ہو سکی۔ رپورٹنگ سے اپنی صحافت کا آغاز کرنے والا ارشد شریف صحافت کی دنیا کا درخشاں ستارہ بن گیا۔ ظالم کے خلاف کلمۂ حق بلند کرنا اور آزادی کا خواب دیکھنا اس کا اتنا بڑا جرم بن گیا کہ اس کے لیے پاکستان کی زمین تنگ کر دی گئی اور اسے یہاں سے چلے جانے پر مجبور کر دیا گیا۔ دیار غیر میں بھی اسے چین نا لینے دیا گیا اور وہ ایک سے دوسری جگہ بھٹکتا رہا۔ ریاست تو افراد کی محافظ ہوا کرتی ہے مگر اس کے لیے تو اس کی ریاست ہی جانی دشمن بن گئی تھی۔ اس کے باپ اور شہید بھائی کی وطن کے لیے دی گئی قربانیوں کو بھی فراموش کر دیا گیا۔ وہ موت کے خوف سے اپنے ملک سے نہیں گیا بلکہ اس لئے گیا کیونکہ آزادی اور جہاد کے سفر میں اس کی ابھی بہت ضرورت تھی اور دوسرا وہ وطنِ عزیز میں برہنہ کیے جانے کی نئی رسم سے گھبرا گیا تھا۔ وہ بزدل اور موت کے خوف کا شکار ہوتا تو ملک چھوڑ کر جانے کی بجائے ظالم آقاؤں کے آگے جُھک جاتا اور آج نا صرف زندہ ہوتا بلکہ عیاشی کی زندگی گزار رہا ہوتا۔ مگر وہ خودار، نڈر، اور جی دار شخص تھا جسے پاکستان سے عشق تھا۔ سو اپنے ملک کی 22 کروڑ عوام کی خاطر وقت کے فرعونوں اور یزیدوں سے لڑ گیا۔ حق کی اس لڑائی میں لڑتے لڑتے شہدا کا وہ وارث جس پر اسی کے لوگوں نے غداری اور بغاوت کے ناجائز مقدمے کیے تھے جامِ شہادت نوش کر گیا۔

میرا ارشد شریف سے کوئی ذاتی تعلق نہیں ہے سواۓ اس کے کہ اس کا اور میرا تعلق ایک ہی قبیلے سے ہے مگر اس کے جانے سے یوں لگ رہا کہ زندگی ویران ہو گئی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے میرے جسم کا حصّہ کسی نے کاٹ کر ایسا زخم دیا ہے جس میں ساری زندگی درد کی ٹیسیں اٹھتی رہیں گی۔ آنسو ہیں کہ رکتے ہی نہیں۔ کہتے ہیں کہ رشتے خون کے ہوتے ہیں یا احساس کے۔ لیکن میرا ارشد شریف کے ساتھ صرف احساس کا نہیں بلکہ وطن پرستی کا، نظریے کا، بھائی چارے کا اور سب سے بڑھ کر لا الہ الا اللہ کا رشتہ تھا۔ جو آزادی کا خواب اس کی آنکھوں چمکتا تھا وہی خواب مجھ سمیت کروڑوں پاکستانیوں کا بھی ہے۔ میں نہیں جانتا تھا کہ وہ میرے لئے اتنا زیادہ خاص ہے مگر اس خواب کی تعبیر ارشد شریف کے بغیر تو سوچی بھی نہیں تھی۔ یہی گمان تھا کہ جلد پاکستان کرپشن اور فسطائیت سے آزاد ہو جائے گا، کپتان عمران خان کی قیادت میں حالات بہتر ہو جائیں گے اور ارشد شریف سمیت بہت سے پاکستانی جو اپنی مقدس سرزمین سے دور ہیں وہ واپس لوٹ آئیں گے اور ارشد شریف پھر سے اپنا شو کرتے ہوئے ٹی وی اسکرینز پر نمودار ہو کر اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ کہا کرے گا "پاکستان اور دنیا بھر میں لاکھوں دیکھنے اور سننے والوں کو ارشد شریف کا سلام" اور روزانہ نئے سے نئے ٹاپکس لا کر تہلکہ مچایا کرے گا۔ آزادی تو ابھی نہیں ملی لیکن ارشد شریف لوٹ آیا مگر سب کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ جانے کے لیے۔ وہ اپنے ضمیر کا سودا کیے بغیر آزاد اور مسکراتا ہوا یہاں سے گیا تھا اور آزاد ہی واپس آیا مگر اس کا آنا سب کے دلوں کو چیر گیا۔

مجھ سمیت لاکھوں یا کروڑوں لوگوں کو ارشد شریف کی عادت ہو گئی تھی اور کہتے ہیں نا کہ عادتیں بہت جان لیوا ہوتی ہیں۔ ٹکوں کے عوض بکتے صحافیوں کی منڈی میں کوئی اس کی قیمت نا لگا سکا۔ اس کے جانے سے ہمارا اور پاکستان کا بہت بڑا اور ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے۔ اس کے جانے سے کم از کم میرے نزدیک پاکستانی صحافت یتیم ہو گئی ہے۔ آزادی کا سفر تو جاری ہے اور امید ہے جلد پاکستان آزاد ہو جائے گا اور وہ ملک بنے گا جو عمران خان کا خواب ہے اور جس کے لیے ارشد شریف لڑتے ہوئے شہید ہوا۔ اس پاکستان میں ارشد شریف کی کامیابیاں اور جرات کی کہانیاں تو ہوں گی مگر ارشد وہاں نہیں ہو گا۔ لیکن ارشد اور اس کے مشن کو وہاں زندہ رہنا ہو گا، اور ہم اس کے نقش قدم پر چل کر ایسا کر سکتے ہیں کیونکہ یہ اس کا حق ہے۔ وہ واپس آیا تو اپنے ہیرو کے جسد خاکی کو ہزاروں لوگوں نے اسلام آباد ائیر پورٹ سے بہت سی مشکلات کے باوجود خود پہنچ کر رسیو کیا۔ منوں پھول اس پر نچھاور کیے اور اللہ اکبر کے ساتھ "ارشد تیرے خون سے انقلاب آئے گا" کے فلک شگاف نعرے دشمن پر لرزا طاری کرتے رہے۔ زندہ ارشد سے تو دشمن خوفزدہ تھے ہی مگر اس کے جسد خاکی سے بھی وہ خوف کا شکار تھے. طاقتور حلقے سمجھے تھے کے ارشد کی شہادت سے وہ اسکی آواز بند کروا لیں گے اور لوگ ڈر جائیں گے مگر یہاں تو سب کے سب ارشد بن کر کھڑے ہو گئے۔ لاکھوں لوگوں نے اس کی نماز جنازہ میں شرکت کر کے اس کی تدفین کی اور ملک بھر میں اسکی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔ پاکستان تو کیا دنیا کی تاریخ میں کسی صحافی کو اتنے اعزاز اور اتنی عزت نہیں حاصل ہوئی جو ارشد شہید کے حصّے میں آئی۔ لوگ اس کا جسد خاکی لے جانے والی ایمبولینس سے لپٹ کر زار و قطار رو رہے تھے۔ اس کی شہادت سے ہر گھر میں کہرام مچ گیا جیسے سب نے اپنے گھر کا فرد کھو دیا ہو۔ ایک دفعہ خود پر غداری کے کیس کی پیشی میں وہ عدالت گیا اور لوگوں کی خود سے محبت اور سپورٹ دیکھ اپنا پروگرام کرتے آبدیدہ ہو گیا اور اس نے عہد کیا کہ وہ اپنا کام مزید ذمہ داری سے کرے گا۔

ارشد شہید نے تو اپنا عہد پورا کیا اور اپنا فرض اور ذمےداری نبھاتے آزادی کے اس سفر میں شہادت کا رتبہ پاتے ہو ئے وہ اپنے حصّے کی شمع جلا گیا مگر ہم پر بہت بڑی ذمہ داری چھوڑ گیا۔ اس نے بہت بڑی قربانی دی ہے اس قوم کی خاطر جو کہ انقلاب کا آغاز کرے گی۔ وہ جا کر بھی وطن کے دشمنوں کے لیے خوف کی علامت بنا رہے گا کیونکہ وہ امر ہو گیا۔ لیکن اب ارشد سے عہدِ وفا کرنے اور اس عہد کو پورا کرنے کی باری ہماری ہے۔ ہمیں اسے اور اس کے مشن کو زندہ رکھنے اور اپنے آزادی کے خواب کو پورا کرنے کے لیے عہد کرنا ہو گا کہ ہم ہمیشہ سچ کا ساتھ دیں گے، کبھی ظالم آقاؤں کے آگے نہیں جھکیں گے، وطن پرستی کو خودپرستی پر فوقیت دیں گے، کبھی اپنے ضمیر کا سودا نہیں کریں گے، اپنے ہم وطنوں کی ہر مشکل اور ضرورت کے وقت میں مدد کریں گے، اپنی مٹی سے وفا کریں گے اور کبھی پاکستان کے خلاف بات نہیں کریں گے، ظالم اور ظلم کے خلاف بلاخوف آوازِ حق بلند کریں گے، ہمارا جس بھی پیشے سے تعلق ہو ہم اپنا کام ایمانداری سے کریں گے، اور اس سب کے ساتھ ارشد کے خون کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔ آئیں یہ عہد کریں کہ ہم سب ارشد شریف بنیں گے اور اپنے تمام وعدے وفا کر کے اپنے شہید کی لاج رکھیں گے۔ پاکستان زندباد!
 

Malik Abdullah Awan
About the Author: Malik Abdullah Awan Read More Articles by Malik Abdullah Awan: 8 Articles with 18478 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.