موجودہ حکومت تعلیم پر خصوصی توجہ دے رہی ہے۔جناب شہباز
شریف نے اپنے پنجاب کے سربراہی عہد میں بہت سے گورنمنٹ کالجوں کو یونیورسٹی
بنا دیا تھا۔ آج وہ سارے کالج ، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کہلاتے ہیں مگر
کمال یہ ہے کہ آج تک نہ وہ پورے کالج ہیں نہ ہی پوری طرح یونیورسٹی میں بدل
سکے ہیں۔ وہ بس بلاول بھٹو زرداری ہی کی طرح ٹو ان ون ہیں بلاول بھی اور
زرداری بھی۔ بس وہ کالج بھی ہیں او ر یونیورسٹی بھی ، کوئی مانے یا نہ
مانے۔شہباز شریف بڑے جدت پسند ہیں۔ اس دفعہ وہ ایک نیا تجربہ کرنے جا رہے
ہیں اور تختہ مشق ہے ہماری قائد اعظم یونیورسٹی۔ وہ کچھ ایسے انقلابی قدم
اٹھانے جا رہے ہیں کہ آنے والے وقتوں میں یونیورسٹی کو ہائی سکول میں بدل
دیا جائے اور نیا نام ہو قائد اعظم یونیورسٹی ہائی سکول ۔اچھی بات ہے ۔جگہ
جتنی چھوٹی ہو گی سکول اسی قدر نکھر کر سامنے آئے گا۔یونیورسٹی میں تین
مختلف حصوں کی موجودگی میں ہم تین سکول بھی بنا سکتے ہیں۔
اتنا روشن مستقبل ہونے کے باوجود میرے کچھ دوست بڑے عجیب لوگ ہیں وہ حکومت
کے پہلے قدم پر ہی احتجاج کر رہے ہیں کہ حکومت نے بارہ کہو بائی پاس کے نام
سے ایک سڑک کی تعمیر کا فیصلہ ہی نہیں کیا عملی اقدامات بھی شروع کر دئیے
ہیں۔ یونیورسٹی کی دیوار گرا دی ہے ،بوٹینکل گارڈن تیع تیغ کر دیا ہے۔بہت
سی جگہ ہموار کر دی ہے۔پوچھا بھی نہیں۔مگر اس پر احتجاج کیوں ۔ سی ڈی اے تو
ماؤزے تنگ قول کے مطابق یہ توڑ پھوڑ اس لئے کر رہی ہے کہ کوئی تعمیر توڑ
پھوڑ کے بغیر ممکن ہی نہیں۔تو تعمیر کی طرف جاتے تخریب تو ہو گی۔میرے دوست
کہتے ہیں کہ یہ ملک کی سب سے خوبصورت یونیورسٹی شمار ہوتی ہے اس لئے کہ
پہاڑوں میں گھری ایک خوبصورت وادی کے دامن میں دنیا کے ہنگاموں اور ٹریفک
کی گن گرج سے ہٹ کر بڑی پر سکون جگہ پر واقع ہے۔ایسا پر سکون ماحول جو
پڑھنے اور پڑھانے کے لئے انتہائی سازگار ہوتا ہے۔ایسا خوبصورت ماحول جو دور
دور سے آنے والے طلبا کے لئے بھی بے پناہ جاذبیت کا باعث ہے۔نئی سڑک
یونیورسٹی کے قدرتی حسن کو تباہ کر دے گی۔ یونیورسٹی اپنی جاذبیت کھو دے گی۔
میرے دوست کہتے ہیں کہ سڑک بننے سے یونیورسٹی دو حصوں میں بٹ جائے گی۔ طلبا
کے لئے ایک حصے سے دوسری حصے تک پہنچنے کے لئے اسی سڑک کو عبور کرنا روزانہ
کے حادثات کو جنم دے گا۔ سڑک پر چلنے والی گاڑیوں کے شور سے کلاس روم بھی
محفوظ نہیں رہیں گے۔ بھاری ٹریفک کا شور کلاسوں کو پرسکون نہیں رہنے دے گا۔
ایک لمبی لگاتار چلتی سڑک سے یونیورسٹی کے لئے سیکیورٹی کے شدید مسائل لاحق
ہونگے۔ اتنی بڑی سیکیورٹی مہیا کرنا یونیورسٹی کے وسائل سے ممکن ہی
نہیں۔مگر اس پر احتجاج کیوں ۔ دوستوں کو گلہ ہے کہ سنڈیکیٹ کی اجازت کے
بغیر یونیورسٹی کی زمین کوئی نہ لے سکتا ہے نہ دے سکتا مگر وی سی صاحب بڑی
سادگی سے حکومت کے سامنے ہتھیار ڈال آئے ہیں۔ گھگھو گھوڑے پنجاب میں وہ
سستے سے کھلونے ہوتے ہیں جن کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ موجودہ زیادہ تر وائس
چانسلر گھگھو گھوڑے ہی ہیں ان کا میرٹ ان کا حوالہ ہے اور حوالوں کے بل پر
آنے والے کمزور لوگ ہوتے ہیں۔ ان سے امید کیسی۔
متبادل کے طور پر یونیورسٹی کو جو جگہ دی جا رہی ہے وہ موجودہ جگہ سے سنا
ہے کہ فقط پانچ کلو میٹر دور ہے۔وہ نئی جگہ اس وقت بھی تجاوزات کی زد میں
ہے۔اس سے پہلے موجودہ زمین پر جو تجاوزات ہیں،ان کے خلاف یونیورسٹی کے
طلبا، اساتذہ اور ملازمیں مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں مگر وہ مسئلہ ابھی تک حل
نہیں ہوا کیونکہ ان قبضہ کرنے والوں میں بڑے بڑے بااثر لوگ شامل ہیں جنہیں
مات دینا ریاست کے لئے بھی مشکل ہو رہا ہے۔دوستوں کا خیال ہے کہ اس نئی
زمین کی صورت میں سی ڈی اے اب یونیورسٹی حکام کو ایک نئے امتحان میں ڈال دے
گا۔ اگر اگلے پانچ سات سال میں یونیورسٹی اس جگہ کا قبضہ لینے میں غلطی سے
کامیاب ہو بھی جائے تو وہاں جو شعبہ جات وجود میں آئیں گے ان شعبوں کے طلبا
کو ایڈمنسٹریشن کے شعبے میں کسی کام کے لئے ایک دن کی باقاعدہ چھٹی لینی
پڑے گی، راستے میں بھاری ٹریفک کی موجودگی میں پانچ کلو میٹر طے کرنا اپنی
جان سے کھیلنے کے مترادف ہو گا۔۔ اس کے علاوہ بھی تین حصوں میں بٹی
یونیورسٹی میں چھوٹے چھوٹے اتنے مسائل جنم لیں گے کہ اس وقت ان کا بیان
نہیں ہو سکتا۔
میں نے تو اپنے دوستوں کو مشورہ دیا ہے کہ بہتر ہے چپ سادھ لیں اس ملک میں
کچھ بھلا نہیں ہو سکتا۔آپ یونیورسٹی کے دو حصوں پر احتجاج کر رہے ہیں اور
امید سیاستدانوں سے رکھتے ہیں کہ آپ کی بات سن لیں گے۔ کوئی نہیں سنے گا۔
تعلیم کسی حکومت کی کبھی بھی ترجیح نہیں رہی۔سیاست اور سیاستدان بڑی مکروہ
چیزیں ہیں اور ہماری بیوروکریسی فقط مہروں پر مشتمل۔ سیاست دان صرف اپنے
مفادات دیکھتے ہیں۔ جائز ڈاکہ یعنی ایسا ڈاکہ جو ان کی حیثیت کے مطابق ہو
جائز سمجھتے ہیں یاد کریں ایسے ہی تھے وہ سیاستدان جنہوں نے اس ملک کو دو
لخت کر دیا تھا۔ میں اس وقت جوان تھا۔ بڑے نعرے لگائے۔ ناصر کاظمی لاہور کے
ریگل چوک پر روتا رہا کہ ’’قبر اقبال سے آ رہی ہے صدا یہ چمن مجھ کو آدھا
گوارا نہیں‘‘۔ لیکن کچھ نہیں ہوا۔لیکن میں شاید غلط ہوں اس لئے کہ چپ رہنا
بھی منافقت ہے ۔ آپ سچ کہتے رہیں۔ کسی سیاستدان، کسی بیوروکریٹ یا کسی
متعلقہ شخص کو آپ کی بات سن کر شرم آئے یا نہ آئے مگر آپ اﷲکی عدالت میں،
عوام کی عدالت میں اور سب سے بڑھ کر اپنے ضمیر کی عدالت میں یقیناً سرخرو
ہونگے۔ کوشش کرتے رہیں شاید کسی کو شرم آ جائے۔
|