والدین کے ادب کے اثرات، چند واقعات کی روشنی میں


واقعہ 1

بنی اسرائیل کا ایک یتیم بچہ ہر کام اپنی والدہ سے پوچھ کر ان کی مرضی کے مطابق کیا کرتا تھا۔ اس نے ایک خوبصورت گائے پالی اور ہر وقت اس کی دیکھ بھال میں مصروف تھا۔ ایک مرتبہ ایک فرشتہ انسانی شکل میں اس بچے کے سامنے آیا اور گائے خریدنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ بچے نے قیمت پوچھی تو فرشتے نے بہت تھوڑی قیمت بتائی۔ جب بچے نے ماں کو اطلاع دی تو اس نے انکار کر دیا۔ فرشتہ ہر بار قیمت بڑھاتا رہا اور بچہ ہر بار اپنی اماں سے پوچھ کر جواب دیتا رہا۔ جب کئی مرتبہ ایسا ہوا تو بچے نے محسوس کیا کہ میری والدہ گائے بیچنے پر راضی نہیں ہیں لہٰذا اس نے فرشتے کو صاف انکار کر دیا کہ گائے کسی قیمت پر نہیں بیچی جاسکتی۔ فرشتے نے کہا کہ تم بڑے خوش بخت اور خوش نصیب ہو کہ ہر بات اپنی والدہ سے پوچھ کر کر تے ہو۔ عنقریب تمہارے پاس کچھ لوگ اس گائے کو خریدنے کے لئے آئیں گے تو تم اس گائے کی خوب بھاری قیمت لگانا۔

دوسری طرف بنی اسرائیل میں ایک آدمی کے قتل کا واقعہ پیش آیا اور انہیں جس گائے کی قربانی کا حکم ملا وہ اسی بچے کی گائے تھی۔ چنانچہ بنی اسرائیل کے لوگ جب اس بچے سے گائے خریدنے کیلئے آئے تو اس بچے نے کہا کہ اس گائے کی قیمت اس کے وزن کے برابر سونا ادا کرنے کے برابر ہے۔بنی اسرائیل کے لوگوں نے اتنی بھاری قیمت ادا کر کے گائے خرید لی۔ تفسیر عزیزی اور تفسیر معالم العرفان فی دروس القرآن میں لکھا ہے کہ اس بچے کو یہ دولت والدین کے ادب اور ان کی اطاعت کی وجہ سے ملی۔ تفسیر طبری میں بھی اسی طرح کا واقعہ منقول ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ والدین کی خدمت و ادب کا کچھ صلہ اس دنیا میں بھی دے دیا جاتا ہے۔

*واقعہ 2*

بنی اسرائیل کے تین آدمی اکٹھا سفر کر رہے تھے کہ اچانک موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔ تینوں نے بھاگ کر ایک قریبی پہاڑ کی غار میں پناہ لے لی۔ اسی دوران ایک چٹان اوپر سے گری جس سے غار کا منہ بند ہو گیا۔ غار کے اندر اندھیرا ہوگیا۔ سانس گھٹنے لگا حتیٰ کہ تینوں کو موت سامنے کھڑی نظر آرہی تھی۔ انہوں نے مشورہ کیا کہ کیوں نہ بارگاہ الہٰی میں اپنے اپنے نیک اعمال کا وسیلہ پیش کیا جائے۔ چنانچہ ان میں سے ایک نے کہا، اے پروردگار عالم !تو جانتا ہے کہ میرے والدین بوڑھے تھے، میں سارا دن بکریاں چراتا تھا اور شام کو گھر واپس آکر ان بکریوں کا دودھ اپنے والدین کو پلاتا تھا۔ ایک دن گھر واپس آنے میں تاخیر ہوگئی تو میں نے دیکھا کہ والدین سو چکے ہیں۔ اے اللہ !میں دودھ کا پیالہ ہاتھ میں لے کر انتظار کرتارہا کہ جب ان کی آنکھ کھلی تو دودھ پیش کروں گا۔ اسی حال میں میری ساری رات گزر گئی۔ رب کریم !اگر میرا یہ عمل آپ کی نظر میں مقبول ہے تو اس کی برکت سے چٹان کو دور فرما۔ چنانچہ چٹان اپنی جگہ سے سرک گئی اور غار کے منہ کا تیسرا حصہ کھل گیا۔ پھر دوسرے اور تیسرے نے دعا مانگی حتی کہ چٹان ہٹ گئی اور ان لوگوں کی جان میں جان آئی۔ (بخاری شریف: ج۱، ص 493)

*واقعہ 3*

ایک نوجوان اپنے والدین کا بڑا ادب کرتا تھا اور ہر وقت ان کی خدمت میں مشغول رہتا تھا۔ جب والدین کافی عمر رسیدہ ہو گئے تو اس کے بھائیوں نے مشورہ کیا کہ کیوں نہ اپنی جائیداد کو والدین کی زندگی ہی میں تقسیم کر لیا جائے تاکہ بعد میں کوئی جھگڑا نہ کھڑا ہو۔ اس نوجوان نے کہا کہ آپ جائیداد کو آپس میں تقسیم کر لیں اور اس کے بدلے مجھے اپنے والدین کی خدمت کا کام سپرد کردیں۔ دوسرے بھائیوں نے برضا و رغبت یہ کام اس بھائی کے سپر د کر دیا۔ یہ نوجوان سارا دن محنت مزدوری کرتا پھر گھر آکر بقیہ وقت اپنے والدین کی خدمت اور بیوی بچوں کی دیکھ بھال میں گزارتا۔ وقت گذرتا رہا حتیٰ کہ اس کے والدین نے داعیء اجل کو لبیک کہا۔

ایک مرتبہ یہ نوجوان رات کو سو رہا تھا کہ اس نے خواب میں دیکھا کہ کوئی کہنے والا اسے کہہ رہا ہے، اے نوجوان !تم نے اپنے والدین کا ادب کیا، انکو راضی و خوش رکھا، اس کے بدلے تمہیں انعام دیا جائے گا۔ جائو فلاں چٹان کے نیچے ایک دینار پڑا ہے وہ اٹھا لو۔ اس میں تمہارے لئے برکت رکھ دی گئی ہے۔ یہ نوجوان صبح کے وقت بیدار ہوا تو اس نے چٹان کے نیچے جا کر دیکھا تو اسے ایک دینار پڑا ہوا مل گیا۔ اس نے دینار اٹھا لیا اور خوشی خوشی گھر کی طرف روانہ ہوا۔ راستے میں ایک مچھلی فروش کی دوکان کے قریب سے گزرتے ہوئے اسے خیال آیا کہ اس دینار کے بدلے میں ایک بڑی سے مچھلی خرید لی جائے تاکہ بیوی بچے آج اس کے کباب بنا کر کھائیں۔ چنانچہ اس نے دینار کے بدلے ایک بڑی مچھلی خرید لی۔ جب گھر واپس آیا تو اس کی بیوی نے مچھلی کو پکانے کیلئے کاٹنا شروع کیا۔ پیٹ چاک کیا تو اس میں سے ایک بہت قیمتی ہیرا نکلا۔ نوجوان اس ہیرے کو دیکھ کر خوشی سے پھولا نہ سمایا۔ جب بازار جا کر اس ہیرے کو بیچا تو اتنی قیمت ملی کہ اس کی ساری زندگی کا خرچہ پورا ہو گیا۔

*واقعہ 4*

ایک بزرگ رات دن عبادت الٰہی میں مشغول رہتے تھے۔ ایک دفعہ ان کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے کسی دوست سے ملاقات کرنی چاہئے۔ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ ایک نوجوان اپنی بکریوں کو چرا رہا ہے اور کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے کہ یہ نوجوان اللہ کا دوست ہے تم اس سے ملاقات کر لو۔ وہ بزرگ بیدار ہوئے تو انہیں اس نوجوان سے ملاقات کی جستجو ہوئی۔ ایک دن انہوں نے دیکھا کہ وہ نوجوان اپنی بکریوں کاریوڑ لےکر راستے سے گذر رہا ہے۔ وہ بزرگ اس نوجوان سے مل کر بہت خوش ہوئے اور فرمانے لگے کہ میں چند دن آپ کے گھر مہمان بن کر رہنا چاہتا ہوں۔ نوجوان نے بھی خوشی کا اظہار کیا اور اس بزرگ کو اپنے گھر لے آیا۔ رات کے وقت دونوں آپس میں گفتگو کر رہے تھے کہ اس بزرگ نے نوجوان سے اپنے خواب کا تذکرہ کیا اور پوچھا کہ تمہارا کونساعمل اللہ تعالیٰ کواتنا پسند آیا ہے کہ تمہیں اس پروردگار نے اپنے دوستوں میں شامل کر لیا ہے؟ یہ سن کر وہ نوجوان آبدیدہ ہو گیا۔ پھر اس نے قریب کا کمرہ کھول کر دکھایا کہ اس میں دو مسخ شدہ چہروں والے انسان بندھے ہوئے تھے۔ وہ بزرگ حیرت زدہ رہ گئے اور پوچھنے لگے کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ نوجوان نے کہا کہ یہ میرے غافل اور گنہگار والدین ہیں۔ ایک مرتبہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی شان میں ایسی گستاخی کی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے چہروں کو مسخ کر دیا۔ میں سارا دن بکریوں کا ریوڑ چراتا ہوں اور جب واپس گھر آتا ہوں تو پہلے والدین کو کھانا کھلاتا ہوں بعد میں خود کھاتا ہوں۔ گو انہوں نے اپنے جرم کی سزا دنیا ہی میں پالی مگر میرا فرض بنتا ہے کہ ان کی خدمت کروں۔ آخر میرے تو والدین ہیں۔ وہ بزرگ حیران ہوئے اور انہوں نے نوجوان کو سینے سے لگا کر کہا کہ ہم نے ساری ساری رات عبادت کی اور ساراسارا دن روزہ رکھا مگر اس مقام تک نہ پہنچ سکے جس مقام پر آپ کو والدین کے ادب اور ان کی خدمت کی وجہ سے پہنچنا نصیب ہوا۔ (حقوق والدین)

*واقعہ 5*

حضرت اویس قرنیؓ جلیل القدر تابعین میں سے تھے۔ انہوں نے نبی کریم ﷺ کا زمانہ تو پایا مگر دیدارِ جمال نبویﷺ سے مشرف نہ ہوسکے۔ ہر وقت اپنی والدہ کی خدمت میں مشغول رہتے تھے۔ ایک مرتبہ والدہ سے اجازت طلب کی کہ مدینہ منورہ حاضر ہو کر شرف صحبت حاصل کر سکوں۔ والدہ نے کہا کہ بیٹا جائو مگر جلدی واپس آجانا۔ حضرت اویس قرنی مدینہ منورہ حاضر ہوئے مگر نبی علیہ السلام کسی غزوہ کے لئے مدینہ سے باہر تشریف لے گئے تھے۔ والدہ کے حکم کی وجہ سے انتظار میں زیادہ نہ رک سکے اور واپس گھر چلے آئے۔ جب نبی کریمﷺ واپس تشریف لائے اور آپﷺ کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ قبیلہ قرن کا ایک نوجوان آپ کے دیدار کے لئے حاضر ہوا تھا مگر والدہ کے حکم کی وجہ سے واپس چلا گیا تو نبی علیہ السلام نے اپنا جبہ مبارک حضرت عمرؓ و حضرت علی ؓ کو دیا اور فرمایا کہ میری طرف سے یہ ہدیہ اویس قرنی کو پہنچا دینا اور اسے کہنا کہ یہ جبہ پہن کر میری گناہ گار امت کے لئے مغفرت کی دعا کرے۔ تذکرۃ الاولیاء میں ہے کہ وصالِ نبویﷺ کے بعدحضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ نے وہ جبہ اویس قرنیؓ کو پہنچا دیا۔

*واقعہ 6*

حضرت خواجہ ابوالحسن خرقانی ؒ کے ایک بھائی نہایت عبادت گزار تھے اور رات دن عبادت میں مشغول رہتے تھے جبکہ آپ کا بیشتر وقت والدین کی خدمت و اطاعت میں گزرتا تھا۔ ایک رات جب آپ کے بھائی ذکرو عبادت میں مشغول تھے تو ایک ندا سنی کہ کسی کہنے والے نے کہا ’’ ہم نے تمہارے بھائی کی مغفرت کی اور اس کی برکت سے تمہیں بھی بخش دیا ‘‘ یہ بھائی بڑے حیران ہوئے کہ ذکرو و عبادت میں تو میں ہر وقت مشغول رہتا ہوں مگر مجھے ابوالحسن کے طفیل بخش دیا گیا۔ ندا آئی کہ ہمیں تیری عبادت کی حاجت نہیں بلکہ محتاج ماں کی خدمت کرنے والے کی اطاعت ہمیں مطلوب ہے۔


 

Qazi Nadeem Ul Hassan
About the Author: Qazi Nadeem Ul Hassan Read More Articles by Qazi Nadeem Ul Hassan : 155 Articles with 164185 views Civil Engineer .. View More