آہ صدف نعیم

کبھی سوچا بھی ہے تم نے
یہ کتنا دکھ اٹھاتی ہیں
تمہاری زندگی کو کس طرح شاداں بناتی ہیں
تمہاری راہ کے کانٹے
یہ چن لیتی ہیں پلکوں سے
سفر آساں بناتی ہیں
سنور جائیں اگر
اک نسل کا ایماں بناتی ہیں
پھر ان معصوم کلیوں کو
یہی بصری
یہی سفیان بناتی ہیں
ذرا دھیرے سے تم چلنا
کہ یہ تو آبگینے ہیں !
خواتین معاشرے کا اہم حصہ اور گھروں کی رونق ہیں۔ وہ بیٹی ہوں، بہن ہوں ،بیوی ہوں یا ماں ہو ،رب العالمین نے انسانیت کی تخلیق و تعمیر ان کے سپرد کردی ہے۔وہ صنف_نازک ہوتے ہوئے بھی گراں بار ذمہ داریاں سنبھالتی ہیں ،ایسی ہی ایک مثال ہماری بہن صدف نعیم تھی جو ٹی وی چینل کی محنتی ،باہمت اور باصلاحیت رپورٹر تھی۔ چند روز قبل پی ٹی آئی لانگ مارچ کی کوریج کا ٹاسک اسے دیا گیا تھا ۔ گواہوں نے بتایا کہ اسے چینل کی طرف سے کوئی ٹرانسپورٹ نہیں دی گئ تھی اور وہ راستے میں مختلف میڈیا پرسنز سے لفٹ لے لے کر اسلام آباد پہنچی تھی۔ایک خاتون ہوتے ہوئے ،اتنے بڑے مجمع میں کام کرنا واقعی دشوار گزار مرحلہ ہے ۔وہ تھوڑی سی لائیو کوریج چاہتی تھی ،اس لئے اسے کنٹینر کے پیچھے بھاگنا پڑا۔ بھاگتے بھاگتے وہ دو میل کا فاصلہ طے کرچکی تھی جب اس نے کسی سیاسی رہنما سے درخواست کی کہ اسے کنٹینر پہ چڑھ کے لائیو کوریج کا موقع دیا جائے ،کیوں کہ وہ بہت تھک چکی تھی،مگر دکھ کی بات ہے کہ اس رہنما نے اس کے صنف_نازک ہونے کا ذرا لحاظ نہ کیا اور جواب یہ دیا کہ جہاں دو میل بھاگ چکی ہو، دو میل آگے اور بھاگ لو ! اور پھر وہ کنٹینر پر چڑھنے کی کوشش میں گر کے ،اسی کے نیچے آگئ !

صدف کی ساتھی رپورٹر اس کی بہت اچھی گواہی دیتی ہیں کہ وہ بہت تعاون کرنے والی ،اچھے اخلاق کی مالک تھی ،ایک نے اپنے انسٹا پہ لکھا کہ وہ بڑی بہنوں کی طرح اس کا خیال رکھتی تھی اور گھر سے اس کے لئے آلو کا پراٹھا بنا کے لاتی تھی۔ صدف کے دو بچے زیر تعلیم تھے اور وہ اپنے بچوں کی خاطر اس مشکل جاب کو دن رات نبھا رہی تھی۔ صدف کے شوہر کا تعلق بھی میڈیا سے ہے ،کسی وقت وہ کیمرہ مین تھے ،اب گھر میں فری لانسنگ کرتے ہیں۔ایسی نہ جانے کتنی ورکنگ ویمن ہیں جو اپنے گھر والوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے صبح سویرے گھر سے نکلتی ہیں ،کسی کے والدین بوڑھے ہیں یا بیمار ہیں جن کا علاج معالجہ کروانا ہے ،کسی کے بہن بھائی چھوٹے ہیں جنھیں پڑھانا ہے ،کسی کے شوہر کی تنخواہ اتنی قلیل ہے کہ گھر کا خرچہ نہیں چلتا ،کوئ بیوہ یا مطلقہ ہے جسے کوئ فنانشل سپورٹ نہیں ہے ،اسے اپنی بقا کی خاطر کچھ نہ کچھ خود ہی کرنا ہوتا ہے ،خدارا ان ورکنگ ویمن کا احساس کریں ،جن اداروں میں یہ ملازمت کرتی ہیں ،ان کو اپنی سگی بہن ،بیٹی سمجھ کر ان کو ہر ممکن سہولیات فراہم کریں۔ادارے گورنمنٹ کے ہوں یا پرائیویٹ ،انھیں درج ذیل سہولیات فراہم کی جائیں ۔

*ورکنگ ویمن کو ادارے کی طرف سے ٹرانسپورٹ دی جاۓ۔

*اگر وہ اپنے عہدے پر کام اتنا ہی کر رہی ہیں ،جتنا مرد کرتے ہیں تو ان کی تنخواہ بھی مرد کے برابر ہو۔

*خواتین ورکرز کو سیلری ٹائم پہ دی جاۓ، حدیث کے مطابق کہ مزدور کی اجرت پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دینی چاہئے ۔(صدف کی تنخواہ چھ ماہ سے رکی ہوئی تھی)

*صحافیات اور رپورٹرز کو اس طرح کے لانگ مارچ کی کوریج کے لئے الگ کنٹینر فراہم کیا جائے ،جس پارٹی کا بھی مارچ ہو ،وہ انتظام کرے۔

* خواتین کو میٹرنٹی لیو ،کم ازکم اڑھائی ماہ کی ضرور دی جاۓ، تاکہ وہ اس کٹھن مرحلے سے گزرنے کے بعد خود کو سنبھال سکیں۔

* معاشرے میں خواتین کی عزت و احترام کا کلچر بنایا جائے ۔والدین اور اساتذہ کو اس نہج پہ سوچنا چاہئے ،اپنی عملی مثال قائم کرکے دکھانی چاہئیے ۔

*صحافیات اور رپورٹرز کو مجمع میں کام سے پہلے اس کی پروفیشنل ٹریننگ دی جائے کہ جب زندگی خطرے میں ہو تو کام کا طریقہ کار کیا ہونا چاہئے ،انھیں سر پہ پہننے کے لئے ہیلمٹ ،بلٹ پروف جیکٹ اور اس طرح کا دیگر ضروری سامان بھی ادارے کی طرف سے دیا جاۓ۔

ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کو شروع سے ہی ایثار و قربانی کی تربیت دی جاتی ہے کہ بیٹا کھانا پکاؤ تو بھائی کے لئے بوٹی ضرور رکھ لینا ، شادی کے بعد سسرال اچھا نہ ملے تو اس کے راز کسی پہ مت کھولنا،لب سی لینا کہ اب تم اس گھر کی عزت ہو،کاش کوئی بیٹوں کو بھی تربیت دینے والا ہو کہ گھر سے باہر جو عورتیں نکلتی ہیں ،وہ کسی سخت مجبوری کے تحت نکلتی ہیں ،ان کے تقدس کا خیال رکھنا !
صدف کی شہادت کو رب العالمین اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے،اس کی انکوائری بھی لازم ہے کہ اسے دھکا کس نے دیا ؟ اس کا پوسٹ مارٹم کیوں نہیں کروایا گیا؟ لیکن ایسے سانحات سے بچنے کے لئے ایک پہلو پر مذید غور کرنا چاہئے کہ آخر وطن عزیز کی 90 فیصد آبادی معاشی مسائل سے دوچار کیوں ہے اور ہر سال قرضوں کا بوجھ کیوں بڑھتا چلا جارہا ہے ؟ عوام کے لئے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل کیوں ہوگیا ہے؟ کیا ہمیں اپنی معاشی پالیسیوں کا ازسرنو جائزہ نہیں لینا چاہئیے؟