بزمِ تصوف راہ فقر تلاش حق روحانی مسافروں کے لبوں پر ہر
سانس کے ساتھ ایک سوال بار بار مچلتا ہے کہ میرا روحانی فیض کدھر ہے کس
بزرگ آستانے مزارپر جاؤں کونسی ریاضت مجاہدہ تزکیہ نفس کے کڑے مجاہدوں سے
گزروں کہ قطرہ سمندر میں مل کر امر ہو جائے اِس ایک سوال کے جواب کے لیے
جھوٹے فراڈی بابوں ملنگوں کے قدموں کی خاک کو چاٹنتا ہے اپنی دولت کے ساتھ
تن من دھن کو نچھاور کرتا ہے راہ تصوف کی پر اسرار وادیوں میں ننگے پاؤں
پھرتا ہے دن رات اِس کوشش میں ہو تا ہے کہ کونسی پل صراط عبور کروں کے فیض
کے سمندر میں جا کر غوطے لگاؤں اِس کو شش تلاش میں گھر بار دولت سب کچھ
چھوڑ کر جہاں تصوف میں دن رات دوڑتا ہے اندھوں کی طرح در در پر جا کر ماتھا
رگڑتا ہے میں بھی اُن خوش نصیبوں میں شامل ہوں جن کو رب تعالیٰ نے باطنی
اضطراب تشنگی کھوج عطا کی کہ میں اِس بے قراری اور تشنگی کو بجھانے کے لیے
کوچہ تصوف میں کو د پڑا ۔جوان تھا نوکری پیشہ ہونے کی وجہ سے کمائی بھی کر
رہا تھا اِس روحانی پیاس کو بجھانے کے لیے میں نے وطن عزیزکے چپے چپے پر
جاکر دستک دی کہ پتہ نہیں میری باطنی پیاس کہاں بجھے گی میرے باطن کے
اندھیرے کب نور کے اجالوں سے روشن ہو نگے پارے کی طرح دن رات مچلتی روح کو
لب قرار آئے گا کب میں منزل پاؤں گا کب باطن کے پردے سر کیں گے کب باطن کے
چھپے انمول خزانوں اور نورانی اجالوں سے متعارف ہو نگا کب…… کب…… کب…… یہ
سوال راہ حق کے مسافروں کی طرح دن رات مجھے بھی نشتر کی طرح کجوکے لگاتا
تڑپتی سلگتی بے قرار روح منزل منزل کرتی پھڑپھڑاتی تھی ریاضت مجاہدوں کے
اُن دنوں کو تاریک راتوں کو میں جانتا ہوں یا میرا رب پھر حق تعالی کے کرم
خاص سے شہنشاہ ِ کوہسار حضرت عبداللطیف کاظمی مشہدی المعروف اما م بری
سرکار ؒ کی نگاہ خاص مُجھ کوئلے پر پڑی نور کے چند ذرے عطا ہوئے تو میری بے
قرار بے چین تڑپتی روح کو تھوڑا قرار نصیب ہوا کثافت سے لطافت کا یہ ہو شر
با سفر میں نے اپنی کتاب ’’اسرار روحانیت ‘‘ میں بیان کرنے کی کو شش کی ہے
جو پچھلے کئی سالوں سے متلاشیان حق کے لیے مشعل راہ کا کام دے رہی ہے جس
سالک نے بھی اِس کتاب کو پڑھا تو وہ پکار اٹھا یہ تو میری آب بیتی یا تلاش
حق کا سفر ہے جب سے شہنشاہ کوہسار ؒ اور خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ کی
غلامی کی پٹی مُجھ غلام کے گلے میں پڑی ہے پھر خالق کائنات کے کرم خاص سے
خدمت خلق کا سفر شروع ہوا شہرت کا چراغ بھی روشن ہو تا چلا گیا جب حق تعالی
نے خدمت خلق کی ڈیوٹی عطا کی تو بہت سارے لوگوں نے میرے پاس آنا شروع کر
دیا اِن آنے والوں میں اکثریت تو دنیاوی مسائل مالی مسائل گھریلو مسائل رزق
کی بندش لڑکیوں کے رشتے نہ ہو نا اور سحری و آسیبی امراض کے مارے لوگ لیکن
اِن میں چند لوگ راہ حق کو چہ تصوف روحانی منازل طے کرنے کی خواہش بھی لے
کر آتے ہیں اِن سب کے ہونٹوں پر بھی وہی سوال مچلتا ہے کہ جناب میرا روحانی
فیض کدھر ہے یا آپ مجھے روحانی فیض کب دیں گے اِس روحانی فیض کے لیے میں
کونسا وظیفہ چلا مجاہدہ کروں کہ روحانی فیض مل جا ئے باطنی کھوج پیاس بُجھ
جائے اِن کی بے قراری سوال دیکھ کر مجھے اپنے تلاش حق کے دن یاد آجاتے ہیں
جب میں بھی در در پر جا کر خالی جھولی پھیلا دیتا تھا کہ میرے خالی دامن کو
فیض کے نور سے بھر دیں تلاش حق کے اِن طالبوں کا اگر ہم مطالعہ مشاہدہ کریں
تو یہ سارے ہی شارٹ کٹ کے چکر میں ہو تے ہیں کہ باباجی چٹکی بجائیں جن موکل
حاضر ہو جائے پھر یہ اِن قوتوں کو استعمال کر کے شہرت اور معاشرے پر
حکمرانی کر سکیں چند ایک اِن میں حقیقی تلاش حق کے مسافر ہو تے ہیں جو صرف
اور صرف خدا اور اُس کا قرب مانگتے ہیں جن کو حق تعالی سے حقیقی پیار ہو تا
ہے نہیں تو زیادہ تر وظیفے چلے کی تلاش میں ہو تے ہیں یہ اُن خوبیوں سے
واقف نہیں ہو تے جو اﷲ تعالی نے اِن کو عطا کی ہوتی ہے اگر آپ کسی بھی
انسان کا مطالعہ کریں تو آپ کو اُس میں کوئی نہ کوئی خاص منفرد خوبی نظر
آئے گی جو دوسرے میں نہیں ہوتی لیکن یہ اپنی خوبیوں سے بے خبر جانوروں کی
سی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں کامل مرشد کی صحبت میں جب یہ وقت گزارتے ہیں تو
اُس کی نگاہ اِن کے چھپے خزانے کو دریافت کرتے ہے پھر وہ اُس خوبی کے
استعمال سے روشناس کرتے ہیں کیونکہ اﷲ تعالی نے ہر شخص کو جو خاص خوبی عطا
کی ہوتی ہے جب انسان اُس خوبی کو خدمت خلق کے تحت استعمال یا بانٹنا شروع
کر تا ہے تو عشق حقیقی کے اصل سفر کا آغاز ہوتا ہے سخاوت یہ نہیں کہ آپ صرف
اپنی دولت لوگوں کی فلاح کے لیے خرچ کریں بلکہ سخاوت خدمت خلق یہ ہے کہ اﷲ
تعالی نے آپ کو جو خاص فن ہنر آرٹ خوبی دی ہے آپ اُس کو آگے لوگوں میں
بانٹنا شروع کر دیں اِس کا عملی نمونہ یا مظاہرہ میں نے مجذوب بابا یوسف کی
صحبت میں دیکھا باباجی زیادہ تر جذب و مستی میں غرق رہتے لیکن جب بھی ہوش
میں آتے حکمت و معرفت کے ایسے موتی بکھیرتے کہ روح باغ باغ ہو جاتی میں اُن
کی صحبت میں جب جاتا تو وہاں پر ایک دیہاتی شخص جو پہلے چور ڈاکو تھا لیکن
توبہ کے بعد ساری زندگی بابا جی کی خدمت اور غلامی میں گزاری اُس کو کمرکے
مہروں کو درست کرنا دبانا آتا تھا اگر کسی کو ناف پڑتی ہے تو وہ اُس مریض
کو لٹا کر اُس کی ناف درست کر دیتا گردن کے مہروں کو دبا کر درست کر کے
آرام بخش دیتا اب بہت سارے لوگ بابا یوسف کے پاس مہروں اور ناف کے آنا شروع
ہو گئے مرید دن رات ایسے لوگوں کی خدمت کرتا اگر کبھی بابا جی سے کوئی
وظیفہ پوچھتا تو باباجی فرماتے پُتر تم جو کام کر رہے ہو تمہار ایہی وظیفہ
چلا ہے وہ یہ خدمت کرتا رہا پھر ایک دن گیا تو وہ چور باباجی کے قدموں سے
لپٹا رو رہا تھا بابا جی میں اِس فیض کے قابل نہ تھا آپ نے مُجھ چور کو
مسیحا بنا دیا اب میں جس مریض پر صرف ہاتھ رکھتا ہوں وہ ٹھیک ہو جاتا ہے
اُس کا درد ختم ہو جاتا ہے میں تو کچھ پڑھتا بھی نہیں تو بابا جی بولے تم
کو حق تعالی نے جو کچھ دیا ہے وہ تم نے مخلوق کی خدمت میں بانٹنا شروع کیا
تو یہی تمہارا وظیفہ چلا تھا جو اب مکمل ہو گیا روحانی فیض اُسی کو ملتا ہے
جو اﷲ کی دی ہوئی خوبی کو خدمت خلق میں بانٹتا ہے ۔
|