#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَةُالھمزة ، اٰیت 1 تا 9
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ویل
لکل ھمزة
لمزة 1 الذی
جمع مالا وعددهٗ
2 یحسب ان مالهٗ
اخلدهٗ 3 کلّا لینبذن
فی الحطمة 4 وما ادرٰک
مالحطمة 5 ناراللہ الموقدة
6 التی تطلع علی الافئدة 7 انھا
علیھم مؤصدة 8 فی عمد ممددة 9
اے ہمارے رسول ! زمین کے ہر انسان کو آگاہ کر دیں کہ زمین میں سرمایہ
پرستانہ نظام کا وہ نمائندہ انسان ایک دن تو ضرور برباد ہو کر رہے گا جو
دُوسرے انسان کا مال ہتھانے کے لیۓ اُس کے خلاف بد زبانی کرتا ہے اور اُس
سے ہتھاۓ ہوۓ اُس حرام مال کو گن گن کر جمع کرتا ہے اور جمع کر کے بار بار
گنتا ہے تاکہ اُس کی چھینا جھپٹی کا وہ حرام مال کُچھ کم نہ ہو جاۓ کیونکہ
وہ اِس گمان میں مُبتلا رہتا ہے کہ اُس کا جمع کیا ہوا یہ مال ہی اُس کا
دافعِ بلّیات ہے لیکن اُس کا اَنجام یہ ہے کہ وہ اپنے اِس جُرم کی سزا سہنے
کے لیئے اُس آتشِ جہنم میں ڈالا جائے گا جو اُس کے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے
گی اور آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ وہ آتشِ جہنم کیا ہے اِس لیئے ہم آپ کو
بتاۓ دیتے ہیں کہ وہ دھکائی ہوئی ایک آگ ہے جو ہم نے بڑے بڑے ستون نما
پردوں میں بند کی ہوئی ہے اور جہنم کی یہ آگ اُن لوگوں کے لیئے جلائی جاتی
ہے جو دولت کے لیئے جیتے اور دولت کے لیئے مرتے ہیں اور مرنے کے بعد اُس آگ
میں پُہنچ جاتے ہیں جو لپک لپک کر اُن کو اپنے شعلوں میں لپیٹ لیتی ہے اور
وہ اپنی دولت کی جلائی ہوئی اسی آگ میں جل جل کر بھسم ہوتے رہتے ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کا پہلا لفظ { ویل } ہے جس کا حاصل معنٰی اُس انسان کی وہ بربادی
ہے جس انسان کی جو بربادی اُس کو ہلاکت تک لے جاتی ہے ، عربی قواعد و لُغت
کے اعتبار سے اِس ویل کی اَصل { ویک } ہے جس کا آخری حرف { ک } ضمیر حاظر
ہے جو صاحبِ خطاب کے اپنے اُس حاضر مُخاطب کو خطاب کے لیئے آتا ہے اور اہلِ
زبان جب اِس حرفِ خطاب کو حذف کرتے ہیں تو اُس حرفِ محذوف کی جگہ پر حرف {
حا } لگا کر اُس کو { ویح } یا پھر حرفِ { لام } لگا کر اُس کو { ویل }
بنادیتے ہیں ، اِس ویح اور ویل میں فرق یہ ہوتا ہے کہ اہلِ زبان ویح کا لفظ
اُس انسان کے لیئے بولتے ہیں جس انسان پر جو بربادی آتی ہے وہ انسان اُن کو
بظاہر اُس بربادی کا مُستحق نظر نہیں آتا اور اہلِ زبان ویل کا لفظ اُس
انسان کے حق میں بولتے ہیں جو انسان اُن اہلِ زبان کے اُن اہلِ نظر کو
بظاہر بھی اُس بربادی کا مُستحق نظر آتا ہے ، اِس سُورت کا دُوسرا وضاحت
طلب لفظ { ھمزة } اور تیسرا وضاحت طلب لفظ { لمزة } ہے اور یہ دونوں الفاظ
اسماۓ مبالغہ کے وہ صیغے ہیں جن کو اہلِ زبان عموما ایک دُوسرے کی جگہ پر
الفاظُ متبادل کے طور پر استعمال کرتے رہتے ہیں اور یہ دونوں اسما و الفاظ
اُس انسان کی اُس سزا کے لیۓ بولے جاتے ہیں جس انسان کی سزاۓ ویل کا اِس
سُورت کے حرفِ اَوّل میں ذکر ہوا ہے ، قُرآنِ کریم نے اِس حرفِ ویل کے ساتھ
جن 27 مقامات پر مُجرم انسانوں کے اِس جُرم کا ذکر کیا ہے اُن میں سے پہلا
مقام سُورَةُالبقرة کی اٰیت 79 ہے جس میں قُرآن نے اُن روایت کار اہلِ
روایت کی نشان دہی کی ہے جو اپنے ہاتھ سے ایک کتاب لکھتے ہیں اور پھر اُس
کتاب میں ظاہر کیئے ہوۓ اپنے اُن فاسد خیالات کو عالی شان بنانے کے لیئے
اللہ کی ذاتِ عالی طرف منسوب کر دیتے ہیں اور اُن کے اِس انتساب کا مقصد
اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیئے وہ مال جمع کرنا ہوتا ہے جو مال اُن کے مآل
کے طور پر اُن کو جہنم کی اُس آگ کا مُستحق بنا دیتا ہے اور اِس لفظِ ویل
کے استعمال کا آخری مقام اِس سُورت کا یہ مقام ہے جس میں اُن جھوٹے لوگوں
کی اُس بد زبانی کا ذکر کیا گیا جس بد زبانی کے ذریعے وہ جھوٹے لوگ دُوسرے
لوگوں کو اذیت دیتے ہیں اور اُن کی اُس بد زبانی کا مقصد بھی حصولِ مال و
جمعِ مال ہی ہوتا ہے ، اِس سُورت کی اِن پہلی تین اٰیات کے بعد جو چھ اٰیات
وارد ہوئی ہیں اُن چھ اٰیات میں ایک تو یومِ قیامت کے موقعے پر پہلے اُن
مُجرموں کے اِس جُرم کی اُن پر فردِ جُرم عائد کرنے کا بیان ہوا ہے اور بعد
ازاں اُن کو اُن کے جُرم کی ملنے والی اُس سزا کا ذکر ہوا ہے جس سزا کی
تفصیل آغاز کی اُن اٰیات کے آغاز میں بیان ہوئی ہے اور اُس تفصیل کی تفصیلِ
مزید کرتے ہوۓ مولانا مودودی تفہیم القرآن کے مُتعلقہ مقام پر لفظِ ھُمزة
اور لفظِ لُمذة کی بحث کو سمیٹتے ہوۓ ایک فیصلہ کُن انداز میں لکھتے ہیں کہ
{ دونوں الفاظ مل کر یہ معنی دیتے ہیں کہ اُس شخص کی عادت ہی بن گئی ہے کہ
وہ دُوسروں کی تحقیر و تذلیل کرتا ہے ، کسی کو دیکھ کر انگلیاں اٹھاتا اور
آنکھوں سے اشارے کرتا ہے ، کسی کے نسب پر طعن کرتا ہے ، کسی کی ذات میں
کیڑے نکالتا ہے ، کسی کے مُنہ در مُنہ چوٹیں کرتا ہے ، کسی کے پیٹھ پیچھے
اُس کی برائیاں کرتا ہے ، کہیں چغلیاں کھا کر اور لگائی بُجھائی کر کے
دوستوں کو لڑواتا اور کہیں بھائیوں میں پھوٹ ڈلواتا ہے ، لوگوں کے بُرے
بُرے نام رکھتا ہے ، اُن پر چوٹیں کرتا ہے اور اُن کو عیب لگاتا ہے } قُرآن
کے مُتعارف کرائے ہوۓ ایک بد زبان انسان کی بد زبان شخصیت پر مولانا مودودی
مرحوم کا یہ تجزیہ اتنا جامع و مانع ہے کہ اِس پر ایک لفظ کی کمی یا اضافے
کی ذرا بھر بھی گُنجائش نہیں ہے !!
|