|
|
جس طرح وقت کے ساتھ معاشرے میں تبدیلی واقع ہوتی ہے اسی
طرح ہمارے مزاج اور سوچ میں بھی تبدیلی واقع ہوتی ہے ہر انسان کو اپنے گزرے
ہوئے دور سے عشق ہوتا ہے اور اس کو اپنا پرانا وقت نئے کے مقابلے میں سب سے
زيادہ پسند ہوتا ہے۔ لیکن ہر دور کی ترجیحات مختلف ہوتی ہیں مگر کچھ بنیادی
اصول کبھی تبدیل نہیں ہوتے ہیں جیسے اخلاق، سچائی، تعلیم جیسے وصف ہر دور
میں قابل قدر سمجھے جاتے ہیں- |
|
حالیہ دور کے میزبان |
اگر یہ کہا جائے کہ گزشتہ دہائی میں میڈیا
کے شعبے میں ہونے والی ترقی سب سے تیز رفتار ترقی ہے تو کچھ غلط نہ ہو گا۔
حالیہ دور میں سوشل میڈيا کے آنے کے بعد میڈيا ایک مکمل کمرشل انڈسٹری کا
روپ دھار چکی ہے جس کے سبب اگرچہ بہت سارے لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر
ہوئے مگر اس کے ساتھ ساتھ کمرشلزم نے اس کی اخلاقیات کو بگاڑنے میں اہم
کردار ادا کیا جس کا اثر ہماری ٹی وی پروگرام میں بھی واضح طور پر نظر آتا
ہے- |
|
یہی وجہ ہے کہ مختلف ٹی وی شوز میں ایسے افراد میزبان کے
روپ میں پروگرام کی میزبانی کرتے نظر آتے ہیں جن کی شکل و اسٹائل تو ناظرین
کو بہت پسند ہوتا ہے مگر وہ جب بولنے کے لیے منہ کھولتے ہیں تو ان کی
فابلیت کے پول کھل جاتے ہیں۔ یہ میزبان کبھی تو عوام کو ٹاکی ٹکی جیسے بے
سروپا لفظوں پر نچاتے ہیں یا پھر فارمولا ون ریس سے لاعلمی کا اظہار کرتے
ہیں اور اس کے باوجود ان کی ریٹنگ ٹاپ پر جاتی ہے- لہٰذا وہ بار بار ایسی
حرکتیں کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں جو کہ ان کے پروگرام کی ٹی آر پی
بڑھا دے- |
|
ماضی کے پروگرام میزبان
|
جب ان موجودہ میزبانوں کا موازنہ پاکستان ٹیلی وژن کے
دور کے میزبانوں سے کرواتے ہیں جن کو ٹی آر پی یا ریٹنگ کا پریشر نہیں ہوتا
تھا ان میزبانوں کی تمام تر توجہ اپنی معلومات اور اپنے انداز کو بہتر
بنانے پر ہوتی تھی اس دور کے کچھ میزبانوں کا ذکر ہم آج آپ کی یاددہانی کے
لیے کریں گے- |
|
1: دلدار پرویز بھٹی |
پاکستان ٹیلی وژن کے اولین دور کے صف اول کے میزبانوں
میں دلدار پرویز بھٹی کا شمار ہوتا ہے جنہوں نے اپنے کیرئير کا آغاز ریڈيو
پاکستان سے کیا اور اس کے بعد مختلف ادوار میں ٹاکرا (پنجابی شو )یادش بخیر
، جواں فکر کوئز شو اور میلہ جیسے مشہور شوز کی میزبانی کی۔ دلدار پرویز
بھٹی ایم اے انگلش تھے مگر اس کے باوجود ان کی اردو زبان میں برجستگی ان کے
پروگرام کو خوبصورت ترین بناتی تھی- |
|
|
2: طارق عزیز |
دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں آپ کو طارق عزیز کا سلام
پہنچے۔ یہ جملہ تو سب ہی نے سنا ہوگا اس جملے کے خالق طارق عزیز جن کی شہرت
نیلام گھر کے مشہور و معروف شو کے سبب تھی- اگرچہ تعلیمی لحاظ سے وہ ایک
گریجوئٹ تھے مگر ان کا وسیع مطالعہ اور معلومات اپنے شو کے دوران ہر موضوع
پر بولنے کے لیے الفاظ کا ایسا خزانہ مہیا کرتی تھی جسکے سبب ان کا ہر
پروگرام لوگ سالوں تک بہت شوق اور دلچسپی سے دیکھتے تھے- |
|
|
3: انور مقصود |
اردو تہذیب کا حقیقی وارث اگر انور مقصود کو قرار دیا
جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ انتہائی ادبی گھرانے سے تعلق رکھنے والے انور
مقصود کے گھر میں ادبی افراد کا آنا جانا انہوں نے اپنے بچپن سے ہی دیکھا
جس کا اثر ان کی زبان اور شائستہ لہجے سے چھلکتا ہے- شوشا، سلور جوبلی، لوز
ٹاک جیسے پروگراموں میں انور مقصود کا خاصہ یہ تھا کہ وہ طنز بھی اتنے
خوبصورت اور نپے تلے انداز میں کرتے ہیں کہ جس سے لوگ نہ صرف بہت متاثر
ہوتے بلکہ بے ساختہ ان کی ذہانت اور شائستہ انداز کے معترف ہو جاتے- |
|
|
4: مستنصر حسین تارڑ |
چاچا جی کی باتیں مان کر صبح ناشتہ کر کے یا دانت صاف کر کے گھر والوں کو
سلام کر کے ہم میں سے بہت سے بچے آج ادھیڑ عمر کو جا پہنچے۔ مارننگ شو کا
تصور دینے کے بانی مستنصر حسین ایک مصنف ، ڈرامہ نگار، سیاح تھے- جنہوں نے
اپنے نرم اور خوبصورت انداز سے ایک طویل عرصے تک پاکستانی قوم کو اپنا
گرویدہ بنائے رکھا۔ ایک ہی شو میں بیک وقت بچوں، مردوں اور عورتوں سب کی
توجہ اپنے تک محدود رکھنے کے لیۓ انہوں نے کبھی شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہ
چھوڑا- |
|
|
5: عبید اللہ بیگ اور قریش پور |
پروگرام کسوٹی ایک ایسا پروگرام تھا جس نے عوام کی معلومات میں اضافے میں
بہت کردار ادا کیا اس پروگرام کی میزبانی کی ذمہ داری عبیداللہ بیگ کے سپرد
تھی جن کے ہمراہ قریش پور ہوتے تھے-
سنجیدہ مزاج کے افراد کے لیے یہ دلچسپی اور معلومات کے حصول کا ایک بہترین
ذریعہ تھا جس کو یہ دونوں حضرات بہت ہی خوبصورتی سے نبھاتے تھے - |
|
|
یاد رکھیں! کمرشل ہونے کا مطلب اپنی اقدار کو فراموش کرنا نہیں ہوتا ہے۔ اس
وجہ سے آج کے شوز کے میزبانوں کو بھی ان مثالوں سے سبق سیکھنا چاہیے- |