#العلمAlilm سُورَةُالفیل ، اٰیات 1 تا 5 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
الم تر
کیف فعل ربک
باصحٰب الفیل 1
الم یجعل کیدھم فی
تضلیل 2 وارسلعلیھم
طیرا ابابیل 3ترمیھم
بحجارة من سجیل
فجعلھم کعصف
ماکول 5
اے ہمارے رسول ! کیا آپ نے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیا تھا کہ ہم نے
ہاتھیوں کے ساتھیوں کا کیا اَنجام کیا تھا اور کیا آپ نے اُس لشکر کش کے
حیلے اور ہمارے اُس حل کا مشاہدہ نہیں کیا تھا کہ جب اُس لشکر کش کا لشکر
پہاڑوں کی اوٹ میں چل رہا تھا تو ہم نے اُس لشکر کے سر پر گوشت خور پرندوں
کے جُھنڈ چلا دیئے تھے اور پھر آپ کی قوم نے اُن بلند پہاڑوں کی اُس بلندی
سے اُس لشکر پر ایسا پتھراؤ کیا تھا جس نے اُس لشکر کو جلے کٹے ہوۓ بوسیدہ
چارے کی طرح کاٹ کر بُھس بنا دیا تھا !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کی اٰیات بالا کا جو مفہومِ بالا ہم نے متنِ اٰیات کے تحت تحریر
کیا ہے وہ مفہوم اِس سُورت کا وہ مُکمل مقصدی مضمون ہے جس میں یمنی ہاتھیوں
کے یمنی ساتھیوں کے اُس حملہ آور لشکر کا ذکر کیا گیا ہے جس لشکر نے کعبة
اللہ کو مسمار کرنے کی غرض سے اپنے 60 ہزاری لشکر کے ساتھ کعبة اللہ پر وہ
بڑا حملہ کیا تھا جس بڑے حملے کے تمام حملہ آوروں کو اہلِ مکہ نے شہرِ مکہ
بلند پہاڑوں سے پتھر برسا برسا کر ایک جلے کٹے ہوۓ بوسیدہ بُھس کی طرح ایک
جلا کٹا ہوا بُھس بنا دیا تھا لیکن اِس سُورت کے اِس تاریخی مضمون پر اہلِ
روایت نے اپنی افسانوی روایات کے مُتعدد رَدّے چڑھا کر اِس کو اِس طرح
چُھپا دیا ہے کہ اُس زمانے کے بعد کے اہلِ تحقیق کے لیۓ اُس زمانے کے اُس
واقعے کے حقیقی خدو خال کو تلاش کرنا ایک کارِ دُشوار ہو کر رہ گیا ہے لیکن
ہم کوشش کریں گے کہ ہم اُن روایات کے اُس روایتی بکھیڑے سے بچ بچا کر اِس
سُورت کی اِن پانچ اٰیات کے لُغوی و معنوی مطالب کی مدد سے اِس واقعے کو
شاید کُچھ مُختصر ، شاید کُچھ آسان اور شاید کُچھ قابلِ فہم بناسکیں ، اِس
واقعے کے حوالے سے پہلا قُدرتی سوال اِس واقعے کے رُونما ہونے کا وہ وقت ہے
جس وقت کے بارے میں اہلِ روایت کی ایک جماعت کا ایک بیان یہ ہے کہ یہ واقعہ
سیدنا محمد علیہ السلام کی پیدائش سے 70 سال پہلے پیش آیا تھا ، اہلِ روایت
کی دُوسری جماعت کا دُوسرا خیال یہ ہے کہ یہ واقعہ آپ کی پیدائش سے 50 سال
پہلے پیش آیا تھا ، اہلِ روایت کی تیسری جماعت کا تیسرا گمان یہ ہے کہ یہ
واقعہ آپ ولادت سے 40 سال پیش آیا تھا ، اہلِ روایت کی چوتھی جماعت کا
چوتھا قول یہ ہے کہ یہ واقعہ آپ کی ولادت سے 23 سال پہلے رُونما ہوا تھا ،
جب کہ اِنہی اہلِ روایت کی ایک پانچویں جماعت کا پانچواں ارشاد یہ ہے کہ یہ
واقعہ آپ کی دُنیا میں تشریف آوری سے 15 سال پہلے پیش آیا تھا اور اِنہی
اہلِ روایت کی ایک چھٹی جماعت کا چھٹا فرمان یہ ہے کہ یہ واقعہ آپ کی دُنیا
میں تشریف آوری سے صرف 2 ماہ پہلے رُونما ہوا تھا لیکن اِن اہلِ روایات کی
اِن روایات کے بر عکس اِس سُورت کی پہلی اٰیت { الم تر کیف } اِس اَمر کی
شہادت دے رہی ہے کہ یہ واقعہ آپ کے اُس عہدِ بچپن یا عہدِ جوانی میں پیش
آیا تھا جس کی یادیں ابھی تک آپ کی یاداشت میں موجُود تھیں اسی لیئے اللہ
تعالٰی نے آپ سے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ کیا آپ نے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ
لیا تھا کہ ہم نے ہاتھیوں کے ساتھیوں کا کیا اَنجام کیا تھا ، اِس اٰیت میں
اللہ نے آپ سے جو اسفسار کیا ہے وہ استفسار انکاری ہے جس میں اُس بات کا
اقرار لازم ہوتا ہے جس بات کا اِس سوال میں ذکر کیا گیا ہوتا ہے کیونکہ وہ
سوالیہ بات روزِ روشن کی طرح ایک ایسی عیاں بات ہوتی ہے کہ اُس کا انکار
کرنا کسی انسان کے لیئے مُمکن ہی نہیں ہوتا کیونکہ اگر کسی انسان سے عین
دوپہر کے وقت یہ پوچھا جاۓ کہ کیا آج سورج نہیں نکلا ہے تو وہ انسان لازماً
یہی جواب دے گا کہ سورج یقینا نکلا ہوا ہے لیکن عُلماۓ روایت کہتے ہیں کہ {
الم تر } کے جس واحد مذکر حاظر کے اِس صیغے میں اللہ نے جس ہستی سے یہ سوال
کیا ہے اِس سے اللہ تعالٰی کے رسولِ مقبول کی ہستی مُراد نہیں ہے بلکہ اِس
سے وہ لوگ مُراد ہیں جنہوں نے واقعہِ فیل کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور
اِس وحی کے نزول کے موقعے پر وہ زندہ تھے ، اِس سُورت کی دُوسری اٰیت میں
آنے والے لفظ { کید } سے قُرآن نے اُس یمنی لشکر کے اُس حربی حیلے کی نشان
دہی کی ہے کہ وہ لشکر مکے کی طرف رہنمائی کرنے والے ایک رہنما کی رہنمائی
میں ایک ایسے خفیہ اور پیچیدہ راستے سے مکے کی طرف بڑھ رہا تھا کہ جب تک وہ
لشکر اہلِ مکہ کے سر نہ پُہنچ جاتا تب تک اہلِ مکہ کو اِس لشکر کی آمد کی
خبر نہ ہو سکتی اور وہ لشکر اپنے زعم کے مطابق اَچانک ہی مکے میں پُہنچ کر
کعبہِ مکہ کو مِنہدم کردیتا لیکن اللہ تعالٰی نے اُس لشکر کے اِس زعمِ باطل
کو باطل بنانے کے لیئے اُس لشکر کے مکے میں داخل ہونے سے پہلے ہی فضاۓ
آسمانی میں اُڑنے والے اُن گوشت خور پرندوں کے غول ظاہر کر دیئے تھے جو
اپنی جبلت کے تحت جنگی لشکروں کے ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں تاکہ جب وہ لشکر
ایک دُوسرے کو مار گرائیں تو وہ اُن کے مُردہ جسموں کا گوشت نوچ نوچ کر
کھائیں اور مزید براں یہ کہ اہل روایت نے اُس لشکر کے سفری رستے کی جو
تفصیلات بیان کی ہیں اور جن خفیہ پہاڑی راستوں سے اُنہو نے اُس لشکر کو
گزار ہے اُن راستوں سے ہاتھی جیسے مست خرام جاندار کے گزرنے کی کوئی
گُنجائش ہی نہیں ہوتی لیکن اِس حقیقت کے باوجُود بھی اہلِ روایت نے اپنے
اُس افسانے میں اُن تیرہ یا نو ہاتھیوں کو بھی شامل کیا ہے اور اُن ہاتھیوں
کے لیڈر ہاتھی کو اُس اسمِ { محمود } کے قابلِ تعظیم نام سے متعارف کرایا
ہے جو اسمِ محمود اللہ تعالٰی کے رسولِ مقبول کا اسمِ صفت ہے حالا نکہ
قُرآن کی اٰیت میں اللہ نے { الفیل } کا ذکر نہیں کیا ہے بلکہ اُن { اصحٰب
الفیل } کا ذکر کیا ہے جو ہاتھیوں کو پالنے پوسنے کی وجہ سے ہاتھیوں والے
کہلاتے تھے اور جب وہ لوگ مکے کے قریب آۓ تھے تو اللہ نے وہ گوشت خور پرندے
فضا میں ظاہر کر دیئے تھے جن کو دیکھ کر اہلِ مکہ جان گۓ تھے کہ کوئی حملہ
آور لشکر مکے کی طرف بڑھ رہا ہے اور یہ جانتے ہی وہ مکے کے بلند پہاڑوں پر
چڑھ گئے تھے اور اُنہوں نے مکے کے اُن بلند پہاڑوں سے اُس حملہ آور لشکر پر
پتھراؤ کر کے اُس لشکر کا بُھرتہ بنا دیا تھا اور اللہ تعالٰی نے اپنے نبی
کو اِس اَمر کی تسلّی دینے کے لیۓ یہ واقعہ یاد دلایا تھا کہ آپ کا جو رب
یمن کے اُس لشکرِ جرار کو اپنی جس حکمت سے تباہ و برباد کر سکتا تو اُس کی
اُس حکمت کے سامنے اِن مُشرکینِ شہر و نواحِ شہر کی حیثیت تو ایک پرِ کاہ
کے برابر بھی نہیں ہے جو آپ کو آۓ روز دھمکیاں دیتے ہیں کیونکہ ایک روز آئے
گا کہ اِن کو بھی اللہ کی طرف سے اُسی طرح ناکام و نا مُراد بنا دیا جاۓ گا
جس طرح یمن کے اُس لشکر کو اللہ کی طرف سے ناکام و نامُراد بنا دیا گیا تھا
، اِس مضمون کے آخر میں ہم یہ بھی عرض کر دیں کہ اِس سُورت کی تفسیر میں ہم
نے اپنے جس فکری رُجحان کا اظہار کیا ہے ماضی قریب میں قُرآن کے ایک عظیم
محققین مولانا حمید الدین فراہی بھی اسی فکری رُجحان کے داعی و مناد تھے !!
|