رشی اور گوتم کا اتحاد کیا گل کھلائے گا؟

کل یگ میں ست یگ کی ساری روایات الٹ جاتی ہیں ۔ مثلاً ست یگ میں رشی منی جنگل پربت میں دھنی رماتے تھے ۔ عوام میں آتے تو دھیان گیان کی باتیں بتاتے اور بھکشا(خیرات) پر گزارہ کرتے تھے لیکن کل یگ کا رشی قیادت و سیادت کی راہوں پر چل کر برطانیہ کے اقتدار پر فائز ہوگیا ہے ۔ ست یگ کے گوتم نے راج پاٹ کا تیاگ کرکے رہبانیت اختیار کرلی تھی تاکہ موکش (نجات) حاصل کرکے اورسماج کے دبے کچلے طبقہ کو غلامی زنجیروں سے چھڑائے لیکن کل یگ کے گوتم نے حکومت کے ساتھ ساز باز کرکے اتنی دولت کمالی کہ وہ نہ صرف ہندوستان کا بلکہ ایشیا کا سب سے امیر ترین سرمایہ دار بن گیا۔ دنیا بھر کے امیر لوگوں کی فہرست میں وہ دوسرے مقام پر ہے اور وہ دن دور نہیں جب وزیر اعظم نریندر مودی کے آشیرواد سے وہ سارے عالم کا امیر ترین انسان بن جائے کیونکہ مودی ہے تو ممکن ہے۔
رشی سونک نے برطانیہ کی وزارت عظمیٰ پر فائز ہونے کا عظیم کارنامہ انجام دیا لیکن حیرت کی بات یہ ہے اس کامیابی کے لیے وہ کن کن مراحل سے گزرے اس پر گفتگو کم اور ان کے آباو اجداد کون تھے ؟وہ کن آزمائشوں سے گزرے اس پر زیادہ بحث ہورہی ہے۔ اس کی بھی اپنی وجوہات ہیں ۔ ہوا یہ کہ رشی کے وزیر اعظم بننے پر سب سے پہلے ہندوستان کے لوگوں نے بجا طور پر خوشی منائی ۔ اس کے بعد پاکستان کے لوگوں نے بتایا کہ رشی کے دادا کو گوجزانوالہ کے رہنے والے تھے جو مملکت خداداد کا حصہ ہے۔ خیر جس وقت رشی کے دادا حیات تھے پاکستان کا وجود نہیں تھا اورہندوستان انگریزی سامراج کا ایک حصہ تھا۔ یہ سلسلہ یہیں رک جاتا اگر رشی کے دادا گوجرانوالہ سے سیدھے برطانیہ چلے جاتے لیکن ایسا بھی نہیں ہوا بلکہ انہوں کینیا میں بھی قیام کیا اس لحاظ سے ایک ملک کی دعویداری سامنے آگئی۔ رشی اگر برطانیہ میں ہی ٹکے رہتے تب بھی ٹھیک تھا مگر وہ درمیان میں امریکہ نکل گئے اس سے معاملہ مزید پیچیدہ ہوگیا اور بعید نہیں امریکہ بھی ان پر اپنا حق جما دے ؟

رشی سونک کا معمہ سلجھانے کی خاطر تفصیل میں جانا لازم ہے۔ ان کے دادا رام داس سونک 1935 میں کلرک کی نوکری کے لیے گوجرانوالہ چھوڑ کر کینیا چلے گئے تھے۔ اس زمانے میں کینیا بھی برطانوی نو آبادیات کا حصہ تھا اور وہاں پر تعمیر و ترقی کے برطانیہ کی حکومت ہندوستانیوں کی خدمات حاصل کرتی تھی ۔ اس وقت رشی کی پردادی دہلی میں مقیم تھیں ۔ 1937 میں جب رام داس کی معاشی حالت جب مستحکم ہوگئی تو انہوں نے اپنی اہلیہ سہاگ رانی کو گوجرانوالہ سے دہلی بھیج کر دونوں کو اپنے پاس نیروبی بلوا لیا ۔رام داس اور سہاگ رانی کے چھ بچوں میں تین بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔رشی سونک کے والد یشویر سونک نیروبی کے اندر 1949 میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنے والد کو روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے 1966 میں نقل مکانی کرکے برطانیہ کی جانب کوچ کیا۔

اس وقت تک ہندوستان آزاد ہوچکا تھا مگر یشویر سونک برطانیہ کے شہر لیورپول جاکر وہاں کی یونیورسٹی میں طب کی تعلیم حاصل کی۔یشویر نے 1977 لیسٹرکی اوشا سے شادی کی، تین سال بعد دونوں کے یہاں ساؤتھمپٹن میں رشی سونک کی پیدائش ہوئی۔ رشی کے والدین ریٹائرمنٹ تک ادویات کا کاروبار کیا۔رشی نے ونچیسٹر کالج کے ایک نجی بورڈنگ سکول میں تعلیم حاصل کی ۔ اس دوران ساؤتھیمپٹن کے ایک مقامی ریستوران میں گرمیوں کی چھٹیوں کے دوران انہوں نے بطور ویٹر کام کیا۔ اس کے بعد اُنھوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں سیاسیات، فلسفے اور اقتصادیات میں فرسٹ کلاس ڈگری حاصل کرنے کے بعد کیلیفورنیا کی سٹین فورڈ یونیورسٹی سے ایم بی اے کیا جہاں ان کی ملاقات اکشیتا مورتی سے ہوئی وہ آگے چل کر رشتہ ازدواج میں بند گئے۔ اِنفوسس کے شریک بانی نارائن مورتی کی بیٹی اکشیتا سے شادی کے بعد رشی امریکہ منتقل ہوگئے اوروہاں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ برطانوی پیدائش کے باوجودرشی سونک نے امریکی قیام کے دوران گرین کارڈ حاصل کرلیا۔ ان کی زندگی کےدلچسپ سفر پر امیر مینائی کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
وہ پھول سر چڑھا جو چمن سے نکل گیا
عزت اسے ملی جو وطن سے نکل گیا

امریکہ کے ساتھ تعلق رشی کو کتنا عزیز ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ برطانوی سیاست میں داخل ہونے کے کئی برس بعد تک اس بات کو راز میں رکھا۔ حد تو یہ ہے کہ 6 برسوں تک رکن پارلیمنٹ رہنے کے باوجود انہوں نے گرین کارڈ واپس نہیں کیا ۔ یہاں تک کہ 19 ماہ وزیر خزانہ برطانیہ کے عہدہ پر فائز رہنے کے بعد جب یہ مسئلہ اُٹھایا گیا تب یہ انکشاف ہوا کہ وزیر خزانہ کی حیثیت سے دورۂ امریکہ کے موقع پر انہوں نے اپنا گرین کارڈ واپس کردیا ہے۔ برطانوی حزب اختلاف رشی سونک اور ان کی اہلیہ پر الزام لگاتاہے کہ ان دونوں نے ٹیکس چوری کی ہے۔ ویسے برطانیہ کی برسرِ اقتدار سیاسی جماعت کنزرویٹیو بھی بی جے پی کی مانند امیروں کے حامی ہے۔ یہ لوگ جب بھی اقتدار میں آتے ہیں دولت مندوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ رشی سونل اور وزیر اعظم نریندر مودی میں یہی قدر مشترک ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی کو اس بات پر فخر ہے کہ ان کی غیر معمولی قیادت میں پہلی بار برطانیہ کو پچھاڑ کر ہندوستان دنیا کی پانچویں سے بڑی معیشت بن گیا۔ بھگتوں کے مطابق اس کا سہرہ صرف اور صرف مودی جی کے سر بندھتا ہے۔معیشت کا جشن ابھی جاری تھا کہ مودی جی قریب ترین دوست گوتم اڈانی کو دنیا کے دوسرے امیر ترین سرمایہ دار ہونے کا اعزاز حاصل ہوگیا۔ یہ بھی وزیر اعظم کی کرم فرمائی کا نتیجہ تھا ورنہ مودی جی سے پہلے گوتم اڈانی کو کون جانتا تھا؟ پچھلے آٹھ سالوں میں اڈانی کے اثاثے میں جو بیس گنا یعنی دو ہزار فیصد کا اضافہ ہوا ہے اس کے لیے مودی جی کے علاوہ کون ذمہ دارہے؟ گوتم اڈانی کی کہانی بھی رشی سونک کی مانند دلچسپ ہے ۔ ان پر مودی جی احسانات کا سلسلہ بہت پرانا ہے۔ 2002 میں مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ بنے تو ملک کی پہلی بندرگاہ اڈانی کے نجی ہاتھوں میں گئی ۔ اس وقت مندرا بندرگاہ پروجکٹ کا کل سالانہ کاروبار 53 کروڈ51لاکھ روپیہ تھا اور منافع صرف دو کروڈپینتالیس لاکھ تھا ۔ اس کو وزیر اعلیٰ کے طور پر مودی جی نے 7.3 لاکھ کروڈ ڈالرتک پہنچوایا اور اب اڈانی دنیا کے دوسرا امیر ترین فرد ہے۔

اڈانی کےحوالے سے ملک کی شان میں جو اضافہ ہوا ہے اس کے لیے وزیر اعظم کا نام تاریخ کے صفحات پر آبِ زر سے لکھا جائے گا ۔ لوگ مودی جی اس کارنامہ کبھی بھی فراموش نہیں کرسکیں گے کہ ان کے دور حکومت میں دنیا ایک نمبر نہ سہی تو دوسرا سب سے امیر آدمی ہندوستانی بن گیا ۔ بعید نہیں کہ 2024 تک وزیر اعظم ان کو سرکاری پروجکٹس دے دے کر دنیا کاامیرترین آدمی بنوا دیں۔ ویسے اگلے انتخاب میں اگر وہ ناکام بھی ہوگئے تو اڈانی گروپ ان کی عیش و عشرت کا پورا خیال رکھے گا کیونکہ احسانمندی بھی تو کوئی چیز ہے؟ وزیر اعظم نریندر مودی کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ اپنے دورِ اقتدار میں انہوں نے ہندوستان کو بھکمری کی فہرست میں 55 سے 107 تک پہنچادیا لیکن اس تلخ حقیقت کی پردہ داری کے لیے گوتم اڈانی کے مالی اثاثوں کا 7.3 لاکھ کروڈ ڈالرسے 136.1لاکھ کروڈڈالر تک پہنچ جانا کافی ہے ۔ میڈیا کو بھوکی ننگی عوام سے زیادہ دلچسپی سرمایہ داروں کے احوال میں ہے کیونکہ انہیں اشتہار غریب لوگ نہیں بلکہ دولتمند گھرانے دیتے ہیں۔ اس لیے ان کی خوشنما خبریں شائع کی جاتی ہیں۔

یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ ایک طرف ملک میں ضروری اشیائے خوردنی کے داموں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے دوسری جانب سونے چاندی کے بھاو گر رہے ہیں۔ جشن ِ دیوالی کے دوران جس دن دودھ کا بھاو بڑھا اسی روز سونے کا بھاو 879 روپیہ فی دس گرام گھٹا۔ 10 ؍اکتوبر کو سونا 51,317 پر تھا مگر اچانک وہ گھٹ کر 50,438 پر آگیا۔ سونے کے علاوہ چاندی کے بھاو میں بھی 2,700 روپئے کی گراوٹ دیکھنے کو ملی یعنی چاندی کی قیمت 58,774 روپیہ فی کلو سے گھٹ کر56,042 روپیہ پر آگئی۔ اس کا فائدہ اٹھا کر سوناروں نے اس سال کروا چوتھ کے دن تین ہزار کروڈ کے زیور فروخت کردیئے۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ’ امیر کی حامی سرکار اور غریب کو مہنگائی کی مار‘۔

گوتم اڈانی کی غیر معمولی کامیابی کا راز یہ ہے کہ مرکزی حکومت نے جتنے بھی شعبوں کو خود کفیل بنانے کے لیے اقدامات کیے یا نجی ہاتھوں میں دیا اس کا سب سے زیادہ فائدہ اڈانی گروپ آف کمپنیر کو ملا مثلاً جب گرین انرجی کا چرچا ہوا تو سرکار کے آشیرواد سے اڈانی گرین اس میدان کی سب سے بڑی کمپنی بن گئی۔ اسی طرح جب ہوائی اڈوں کو نجی ہاتھوں میں دینا شروع کیا گیا تب بھی اڈانی نے میدان مارلیا۔ بدقسمتی سے حکومت کو کسان بل واپس لینا پڑ گیا ورنہ ملک میں اناج کی قیمت آسمان سے باتیں کررہی ہوتی اور گوتم اڈانی دنیا کے امیر انسان بن گئے ہوتے ۔ ایک طرف اڈانی گروپ کے اثاثوں میں اضافہ ہورہا ہے دوسری جانب اس پر قرض بھی بڑھتا جارہا ہے۔ پانچ سال قبل اس گروپ پر ایک لاکھ کروڈ کا قرض تھا جو اب بڑھ کر 2.2 لاکھ کروڈ ہوگیا ہے۔ اب ذرا تصور کریں کہ اگر نیرو مودی کی طرح گوتم اڈانی بھی خود کے دیوالیہ ہونے کا اعلان کرکے برطانیہ چلے جائیں تو رشی سونک انہیں گلے لگا لیں گے ۔ برطانیہ میں گوتم اڈانی کو مودی جی کا متبادل مل جائے گا مگر ہندوستان کی قومی معیشت کا کیا ہوگا ؟ اس صورت میں کل یگ کے رشی اور گوتم کا اتحاد وطن عزیز کے لیے عظیم تباہی سے کم نہیں ہوگا۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450036 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.