|
جیک برابھم۔۔آسٹریلین بلیک جیک ۔۔ |
|
جیک برابھم۔۔آسٹریلین بلیک جیک (واحد ریسنگ ڈرائیور ہیں جنہوں نے فارمولا1 ورلڈ چیمپیئن شپ اپنی مینوفیکچر " برابھم ریسنگ کار" پر جیتی) سر جان آرتھر برابھم ایک آسٹریلوی ریسنگ ڈرائیور تھے جو 1959ء اور 1960ء میں مسلسل دو مرتبہ اور پھر 1966ء میں فارمولا 1 ورلڈ چیمپیئن رہے۔ اُنکو یہ اعزاز آج بھی حاصل ہے کہ وہ اپنی ہی بنائی ہوئی ریسنگ کار میں چیمپئین بننے والے واحد ڈرائیور بھی ہیں۔ جب 19 ِمئی 2014ء کو 88 سال کی عمر میں اُنکا انتقال ہوا تو اُسے پہلے تک وہ 1950ء کی دہائی کے آخری زندہ بچ جانے والے فارمولا1 عالمی چیمپئین تھے۔ جان آرتھر 'جیک' برابھم 2ِ اپریل 1926ء کو آسٹریلیا کے ہرسٹ وِل، نیو ساؤتھ ویلز میں پیدا ہوئے جو اُس وقت سڈنی سے باہر ایک باقاعدہ رہائشی ٹاؤن تھا۔ اُنکے والد کا نام سائرل تھامس برابھم تھاجو سبزی فروش تھے اوروالدہ کانام میڈورس میڈ فورڈ تھا۔ برابھم کے آباؤاجداد کا تعلق لندن سے بھی ظاہر کیا جاتا ہے۔بہرحال برابھم لایکاک روڈ، پینشورسٹ میں پلے بڑھے اور ہرسٹ وِل بوائز ہائی اسکول میں تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔اُس دور میں والد نے اپنے کاروبار کیلئے ٹرک اور کار رکھی ہوئی تھی۔ جسکی وجہ سے برابھم نے12سال کی عمر میں ہی ڈرائیونگ سیکھ لی۔15سال کی عمر میں اسکول چھوڑ کر دِن کے اوقات میں مقامی گیراج میں ملازمت اختیار کر لی اور متعلقہ تعلم حاصل کرنے کیلئے شام کو مکینیکل انجینئرنگ کورس میں داخلہ لے لیا۔ برابھم خاندانی طور پر کاروباری تھے لہذا جلد ہی اپنے والدین کے گھر کے پچھلے برآمدے کو اپنی ورکشاپ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے استعمال شُدہ موٹر سائیکلیں خرید کر مرمت کر کے فروخت کر نے کا کاروبار شروع کر دیا۔اس دوران 18سال کی عمر میں اُنھوں نے 19ِ مئی 1944 ء کو رائل آسٹریلین ایئر فورس (RAAF) میں شمولیت اختیار کرلی۔ اگرچہ وہ پائلٹ بننے کا خواہشمند تھے لیکن وہاں پہلے سے تربیت یافتہ ہوائی عملے کی تعداد زیادہ تھی لہذا فضائیہ نے اُنکی مکینیکل مہارت کی صلاحیت کو فلائٹ مکینک کے طور پر استعمال کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ دوسری جنگ عظیم کے دِنوں میں وہاں مکینیکل سٹاف کی کمی تھی۔ وہ اسٹیشن ولیم ٹاؤن میں مقیم رہے۔ 20ویں سالگرہ کے موقع پر 2ِ اپریل 1946ء کو برابھم کو فضائیہ کے معروف ایئر کرافٹ مین کے عہدے سے فارغ کر دیا گیا۔ برابھم ایک ایسے بلند نظر لڑکے تھے جنکوکسی خاص منزل کی تلاش تھی لہذا اُنھوں نے اس مرتبہ اپنے دادا کے گھر کے پیچھے زمین کے ایک پلاٹ پر اپنے چچا کی طرف سے بنائی گئی ورکشاپ میں اپنے آٹو موبائیل مکینک،مرمت اور سروس کے کاروبار کا آغاز کر دیا۔اُن دِنوں آسٹریلیا میں پاور فُل انجن کے ساتھ " میڈجٹ" چھوٹی ریسنگ گاڑیوں کے نام سے ریس بہت مقبول ہو رہی تھی۔ برابھم کے ایک دوست جانی شونبرگ نے اُنکی توجہ اُس طرف دِلوائی۔جس کے بعد اُنھوں نے اپنے دوست کیلئے ایسی کار میں جدت پیدا کرنے میں مدد کی تاکہ وہ ریس جیت سکے۔لیکن کچھ مدت بعد جب جانی شونبرگ نے اپنی بیوی کے کہنے پر ڈرائیونگ چھوڑ دی تو برابھم نے میڈجٹ ریسنگ کار سنبھال لی اورموٹر سپورٹ میں جلد ہی ایک ایسا نوجوان ڈرائیور متعارف ہو گیا جو اُس درجہ بندی کا ایک باقاعدہ فاتح بن گیا۔ خود سے تیار شدہ مڈجٹ کار میں اُنھوں نے لگاتار چار آسٹریلیائی چیمپئن شپ جیتیں اور 1953 ء میں برطانوی ساختہ برسٹول کوپر ریسنگ کار میں پہاڑی چڑھنے کی چیمپئن شپ بھی جیت لی۔برابھم کے والد نے اپنے بیٹے کی اس صلاحیت کو دیکھتے ہوئے اُنکی پھرپور رہنمائی کی اورریڈیکس فیول ایڈیٹیو کمپنی نے بھی اُنکی ریس کیلئے تشہیر کا ذمہ لیا۔آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے ریسنگ ٹریکس پر مقبولیت نے اُنھیں عُرفی نام"بلیک جیک" دیاجسکی تین اہم وجوہات تھیں:ایک اُنکے گھنے سیاہ بال،دوسراٹریک پرریسنگ کے دوران کار کو بے رحمی سے چلانا اور تیسرا ریسنگ کے نتائج پر خاموشی کی عادت۔ برابھم پائلٹ بننے چلے تھے اور بن گئے ریسنگ کار ڈرائیور۔اب اُنکی خواہش ہو ئی بڑے ریسنگ ایونٹ میں حصہ لینے کی جس کیلئے اُنھوں نے1955ء میں ریسنگ کے انٹرنیشنل سنٹر یورپ کا رُخ کیا۔اولین ریس کیلئے وہاں بھی کوپر کار خریدنے کو ترجیح دی اور کچھ شائقین کو ٹریک پر اپنی طرف توجہ دِلوانے میں کامیاب ہو گئے لیکن اصل راستہ تب کُھلا جب وہ برٹش کوپر کار کمپنی میں پُرزہ جات کی معلومات لینے گئے اور اُنکی ملاقات کمپنی کے مالکان چارلس کوپر اور بیٹے جون کوپر سے ہوئی۔ ایک معاہدے کے تحت ایک تو برابھم کوپرریسنگ ٹیم کے ممبر بن گئے اور دوسرا کوپر ریسنگ کا ر کی جدت کیلئے اُنکی فیکٹری میں اپنی مکینیکل خدمات دینے پر راضی ہو گئے۔جسکے نتائج بھی جلد ہی سامنے آنا شروع ہو گئے۔ ایک تو درمیانی انجن والی کاروں کے ڈیزائن اور جدت میں اُنکی رائے کو بھی اہمیت دینے کی وجہ سے کوپر کمپنی نے فارمولا1 اور انڈیاناپولیس 500 کار ریس میں اپنی ریسنگ کار متعارف کروادی اور دوسرا برابھم نے اُنکی ٹیم کا حصہ بن کر 1959ء اور 1960ء میں فارمولا 1 ورلڈ چیمپئن شپ بھی مسلسل جیت لی جو برابھم اور کوپر کمپنی دونوں کیلئے کسی اعزاز سے کم نہ تھا۔دِلچسپ یہ رہا کہ اسی دوران اُنھوں نے پائلٹ بننے کی تربیت بھی حاصل کرلی۔ پھر اپنا طیارہ خریدا اور لائسنس حاصل کرنے کے بعد اسے خود پائلٹ کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا۔ برابھم نے فارمولا 1 ورلڈ ڈرائیورز چیمپئن شپ کوپر کی انقلابی درمیانی انجن والی کاروں میں جیتی۔ جسکے بعد وہ ایک ورلڈ کلاس ریسنگ ڈرائیور بن چکے تھے اور اُنکے ذہن میں تھا کہ اُنکی کامیابیوں کے پیچھے اُنکی اپنی تکنیکی صلاحیت بھی کار فرماں ہے اس لیئے کیوں نہ اپنے برانڈ کی ریسنگ کارمتعارف کروائی جائے۔ لہذا اُنھوں نے 1962ء میں اپنے آسٹریلین ساتھی ا نجینئر رون ٹوراناک کے ساتھ اپنی" براھم مارک" کے ساتھ موٹر سپورٹ کمپنی قائم کر لی جو 1960ء کی دہائی میں دنیا میں ریسنگ کسٹمر ز کیلئے یسنگ کاروں کا سب سے بڑی کمپنی بن گئی۔ 1966ء کے فارمولا1 سیزن میں برابھم پہلے اور اب تک بھی واحد ریسنگ ڈرائیور ہیں جنہوں نے فارمولا1 ورلڈ چیمپیئن شپ اپنی مینوفیکچر " برابھم ریسنگ کار" پر جیتی۔ اُنھوں نے اپنے مد ِمقابل ڈرائیور جان سرٹیز اور ریسنگ کار فیراری کو شکست دی تھی۔ ورلڈ چیمپئین شپ میں یہ اُنکی یہ تیسری جیت بھی تھی۔یہ وہ دور تھا جب گراہم ہل، جم کلارک اور جیکی سٹیورٹ جیسے بڑے نام اُنکے مقابل تھے اور 1966ء کے مقابلے میں وہ تینوں بالترتیب پانچویں،چھٹے اور ساتویں نمبر پر آئے تھے۔ برابھم نے اپنے ریسنگ کار ڈبیو کا آغاز 1955ء برٹش گراں پری سے کیا اور1970ء جنوبی افریقی گراں پری میں آخری ریس جیت کر اگلے سال میکسیکن گراں پری میں حصہ لینے کے بعد 44سال کی عمر میں ریٹائر منٹ کا اعلان کر دیا۔ اس کے بعد وہ ریسنگ سے بالکل الگ ہو کر اپنی بیوی کی خواہش پر واپس آسٹریلیا آگئے کیونکہ اُنکی بیوی اُنکے ریسنگ کار چلانے پر "خوف زدہ" رہتی تھیں۔ بلکہ وہ اُنھیں اور اپنے بیٹوں کو لیکر آسٹریلیا بھی اسی لیئے واپس آئی تھیں کہ اُنکے بیٹے موٹر سپورٹ سے دُور رہیں۔ لیکن اُن کے تینوں بیٹے جیف برابھم،گیری برابھم اورڈیوڈ برابھم اپنی والدہ کے خواہش کے برعکس کار ریسنگ کے ہی مشہور ڈرائیورز بنے۔ جیک برابھم نے" بیٹی ایولین بیرس فورڈ" سے 1951 ء میں کٹومبا ٹاؤن، نیو ساؤتھ ویلز میں شادی کی۔ یہ شادی 43 سال قائم رہنے کے بعد 1994 میں ختم ہوگئی اور لیڈی بیٹی کا انتقال ستمبر 2013 ء میں ویزلی ہسپتال، برسبین، کوئنز لینڈ میں ہوا۔ برابھم نے طلاق کے بعد 1995ء میں دوسری شادی مارگریٹ ٹیلر سے کر لی اور انتقال کے وقت وہ اُسکی کے ساتھ بیٹھے ہو ئے ناشتہ کر رہے تھے۔ وہ ایک عرصہ سے جگر کے عارضہ میں مبتلا تھے۔ اُنکی آخری آرام گاہ چیچیسٹر، ویسٹ سسیکس، انگلینڈ میں ہے۔ برابھم نے ریٹائر منٹ کی زندگی بھی پھر پور گزاری۔اپنی کار کمپنی سے لیکر زراعتی فارم تک کاروباری عروج دیکھا۔کار ریسنگ سے متعلقہ ایونٹس میں شامل ہو تے رہے اور سب سے خاص دیگر قابل ذکر ڈرائیوروں کی صلاحیتوں کو مزید نکھارنے کیلئے مشورے دیتے۔ 1966ء میں برٹش کی طرف سے آفیسر آف دِی برٹش ایمپائرکا اعزاز اور آسٹریلین آف دِی ائیر کہلائے۔ 14 ریسس میں کامیابی اور3 بار ورلڈ چیپمئین شپ جیتنے پر 1979 ء میں نائٹ ہڈ حاصل کرنے والے پہلے فارمولا 1 ڈرائیور بنے۔اسکے علاوہ اعزازت اور آنرز کی ایک فہرست ہے۔ساتھ میں اُنکی کُتب بھی شائع ہوئیں: جیک برابھم ریسنگ بُک،وین دِی فلیگ ڈرپس اور دِی جیک برابھم اسٹوری۔
|