کہانی ایک ناکام خواب کی: خیبرپختونخوا میں سکواش کورٹ منصوبے کا سچ
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
خیبرپختونخوا میں سکواش جیسے قومی فخر کے کھیل کو فروغ دینے کا خواب، جس کی بنیاد 2020 میں رکھی گئی تھی، آج پانچ سال بعد صرف کاغذی دعووں، ناقص منصوبہ بندی، اور عوامی پیسے کے ضیاع کی ایک افسوسناک مثال بن چکا ہے۔صوبائی اسپورٹس ڈائریکٹوریٹ کی جانب سے 2020 میں 8 جگہوں پر سکواش کورٹ بنانے کا منصوبے کا Èغازکیا گیا تھا اورپشاور کے8 مختلف تعلیمی اداروں اور علاقوں میں بین الاقوامی معیار کے سکواش کورٹ تعمیر کیے جائیں گے، تاکہ نوجوان کھلاڑیوں کو جدید سہولیات فراہم کی جا سکیں۔ اسی طرح کھلاڑیوں کو انکے تعلیمی اداروں سمیت مختلف جگہوں پر سکواش کی سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ قمرزمان سکواش کورٹ سمیت پی اے ایف سکواش کورٹ پر کھلاڑیوں کادبائو بھی کم ہوسکے اس منصوبے کا مقصد نچلی سطح پر سکواش کے فروغ، نیا ٹیلنٹ سامنے لانے اور جہانگیر خان و جان شیر خان جیسے لیجنڈز کے نقش قدم پر چلنے والوں کے لیے پلیٹ فارم مہیا کرنا تھا۔
ان8 مقامات پربننے والے کروڑوں کے منصوبے میں سکواش کورٹ کی تعمیر کے لیے جو مقامات چنے گئے، ان بے نظیر یونیورسٹی‘ سٹی نمبر ون اسکول ‘ گورنمنٹ کالج پشاور‘ نوے کلے آبائی گاؤں‘جناح کالج‘ فرنٹیئر کالج ‘ لیڈی گرفتھ کالج ‘اسلامیہ کالج پشاورکاغذوں پر یہ منصوبہ شاندار تھا، لیکن عملی صورت حال کچھ اور ہی نکلی۔کروڑوں روپے کی لاگت سے بننے والے ان سکواش کورٹس کی تعمیر میں تکنیکی ہم آہنگی اور شفافیت کا شدید فقدان رہا۔ ٹھیکہ کسی ایک کمپنی کو دیا گیا، مگر سول ورک کسی اور سے کروایا گیا، جبکہ انسٹالیشن کسی تیسرے فریق کے حوالے کی گئی۔ اس انتشار کا نتیجہ یہ نکلا کہ کام کا معیار ہر جگہ مختلف اور غیر معیاری نکلا۔آج بھی اگر ان اداروں کا دورہ کیا جائے تو بیشتر جگہوں پر ادھورا پینٹ، ٹوٹا ماربل، اور ویران کورٹ دکھائی دیتے ہیں۔
نوے کلے — جو پاکستان کے دو عظیم ترین سکواش کھلاڑیوں کا آبائی گاؤں ہے — وہاں کے اسکول میں بھی سکواش کورٹ بنایا گیا۔ مگر جب اسکول انتظامیہ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا:"ہم کورٹ نہیں چلا سکتے، نہ اے سی لگانے کی گنجائش ہے، نہ بجلی کے بل دینے کی سکت۔"یہ سوال پیدا ہوتا ہے: جب اداروں کے پاس آپریشنل بجٹ ہی نہیں، تو ان پر مہنگے منصوبے کیوں مسلط کیے گئے؟جبکہ اس جگہ پرکورٹ کی انسٹالیشن کرنے والے کمپنی سے بجلی کی بل کی مد میں ہزاروں روپے وصول کئے گئےہ
ڈائریکٹوریٹ آف اسپورٹس کی نگرانی میں بننے والے یہ تمام سکواش سبھی لاوارثی کا شکار ہے۔ نہ کوئی کوچ موجود ہے، نہ کوئی تربیتی سیشن، اور نہ ہی کوئی پالیسی کہ ان کورٹس کو فعال کیسے رکھا جائے گا۔ اس بارے میں بعض افراد کا موقف ہے کہ اب"فنڈز کی کمی ہے۔"اد رہے، جب یہ فنڈز خرچ کیے جا رہے تھے تب کوئی کمی رپورٹ نہیں کی گئی تھی۔یہی وجہ ہے کہپانچ سال بعدگزرنے کے بعد نتیجہ صفرہے اورکروڑوں روپے خرچ کرنے کے باوجودایک بھی نیا قومی کھلاڑی سامنے نہیں آیانہ ہی ایک بھی کورٹ باقاعدگی سے استعمال نہیں ہو رہا اسی طرح ان Èٹھ کورٹس میں کسی کورٹ میں مستقل کوچ یا ٹریننگ سسٹم موجود نہیںیعنی صفر کھلاڑی، صفر تربیت، اور صرف شکایات، دو نمبری اور خاموشی تاحال چھائی ہوئی ہیں ہ
ان حالات میں سوالات جو آج بھی جواب مانگتے ہیںان سکواش کورٹس کی منظوری کس نے دی؟ کیا ان کی فزیبلٹی رپورٹ تیار کی گئی تھی؟ اسکول اور کالج انتظامیہ سے مشورہ کیوں نہیں کیا گیا؟کنٹریکٹرز کے انتخاب میں شفافیت کہاں تھی؟ فنڈز کی نگرانی کس نے کی؟ اب ان کورٹس کا مستقبل کیا ہے؟اگر سکواش کو زندہ کرنا ہے…اگر واقعی حکومت یا اسپورٹس ڈائریکٹوریٹ پاکستان میں سکواش کو فروغ دینا چاہتے ہیں تو صرف عمارتیں بنانا کافی نہیں، بلکہ کوچنگ، بجٹ، سہولیات، اور پالیسی ضروری ہے۔ ورنہ یہ سکواش کورٹس صرف "پتھر کے ڈبے" بنے رہیں گے، اور ایک اور قومی موقع ضائع ہو جائے گا۔کروڑوں روپے عوامی ٹیکس سے خرچ ہوئے، مگر کوئی جواب دہ نہیں۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ عدالتیں، میڈیا اور عوام اس منصوبے کا احتساب کریں؟ #kikxnow #digitalcreator #sportsnews #mojo #mojosports #kpk #Kp #squash #courts #colleges #university #funds |