مستقبل کے پاکستان میں ہمیں بڑھتی ہوئی مہنگائی ،غربت اور
اشیاء خردونوش کی قلت کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے اگر اسکے لیے ہم نے
پہلے سے تیاری مکمل نہ کی ؟ ہمارے ہر ادارے اور صوبے کو چاہیے کہ وہ آنے
والے وقت کی ابھی سے منصوبہ بندی کرلیں جس طرح پنجاب کے وزیر اعلی چوہدری
پرویز الہی نے لاہور کی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر وژن 2025کا آغاز کردیا
اسی طرح ہمیں ہر شعبہ میں کسی نہ کسی وژن کا آغاز کردینا چاہیے ہماری پاس
زرعی زمین سکڑتی جارہی ہے مہنگائی اور غربت کی وجہ سے خاص کر مہنگی گندم کی
درآمد کی وجہ سے غریب آدمی کو دو وقت کی روٹی پوری کرنا مشکل ہوچکا ہے اب
تو وزیر اعظم بھی چین میں ہیں جہاں ٹیکنالوجی کی بھر مار ہے جس طرح انہوں
نے اپنے ریگستان آباد کرکے اجناس پیدا کی اور آج وہ ہر لحاظ سے ایک خوشحال
ملک ہے انکی زراعت میں جدت اور ٹیکنالوجی کو دیکھتے ہوئے اپنی ریتلی زمینوں
کی ترقی کے لیے چین سے تکنیکی مددکیوں نہیں لیتے اس پرآخر میں لکھوں گا
پہلے موبائل فون انڈسٹری کی بات کرنا چاہتا ہوں کہ جو کام عمران خان شروع
کرکے گیا تھا اسکا رزلٹ آنا شروع ہوچکا ہے پہلے موبائل فون کی مد میں ہم
کروڑوں روپے باہر بھجواتے تھے مگر اب پاکستان میں موبائل فونز کی مقامی
مینوفیکچرنگ کے باعث موبائل کی درآمد میں واضح کمی آئی ہے رواں سال کے پہلے
نو ماہ میں ایک کروڑ 67لاکھ کے ہینڈ سیٹ مقامی طور پر تیار کیے گئے جس میں
آئی ٹیل2.14 ملین موبائل ڈیوائسز اسمبل کر کے سرفہرست یہی وجہ ہے کہ پچھلے
ماہ 2022 میں کمرشل موبائلز کی درآمد میں کمی آئی ہے اگست 2022 میں 0.67
ملین کے مقابلے ستمبر 2022 میں 1.09 ملین موبائل اسمبل کیے گئے جس میں 62
فیصد تھااگر موبائلز کی درآمد کی بات کی جائے تو پاکستان نے 2022 کے پہلے
نو مہینوں میں 1.24 ملین موبائلز درآمد کیے جب کہ ستمبر 2022 میں 30,000
موبائل درآمد کیے گئے، اگست 2022 میں یہ تعداد 50,000 تھی اگر مجموعی طور
پر دیکھا جائے توموبائلز کی کمرشل امپورٹ میں بہت حد تک کمی آئی ہے اگر
سابق حکومتیں اپنے اپنے دور میں آئی ٹی کی طرف توجہ دیتی تو آج ہم بھی اس
ٹیکنالوجی میں خود مختار ہوتے ہمارے ہمسایہ ملک نے اس میدان میں اتنی ترقی
کرلی ہے کہ اس وقت وہ دنیا کو مال سپلائی کرنے کی فکر میں ہیں ہمیں اس وقت
آئی ٹی کے شعبہ میں آگے بڑھنا ہے دنیا میں آئے روز نئی نئی دریافتیں ہورہی
ہیں ترقی کا ایک سیلاب ہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہا اور ہم ابھی تک اپنی
ٹرینوں کا نظام درست نہیں کرسکے بڑے بڑے اداروں میں بیٹھے ہوئے بڑے بڑے
پروفیسر صاحبان لاکھوں روپے تنخواہیں لینے کے بعد کیا کچھ قوم کو دے رہے
ہیں ہمارا سارا نظام بانجھ ہوتا جارہا اور ہم کشکول اٹھائے فقیر بنے ہوئے
ہیں زرعی ملک ہوتے ہوئے روٹی کھانے کے لیے سستی گندم تو کبھی مہنگی گندم
باہر سے خریدنی پڑتی ہے کیونکہ ہم نے اپنے غیر آباد علاقوں پر کوئی توجہ ہی
نہیں دی پاکستان کا کل صحرائی رقبہ 12ہزارمربع کلومیٹر جہاں صرف پانی کے
انتظام کا مناسب نظام موجود ہو توہمارے صحرا فصل پیدا کرنے والے کھیتوں میں
تبدیل ہو سکتے ہیں اس سلسلہ میں پنجاب حکومت صحرائے چولستان میں پائپ
لائنوں کے ذریعے نہری پانی کی فراہمی کا منصوبہ شروع کرنے جارہی ہے جبکہ
سندھ اور بلوچستان کی حکومتیں اپنے غیر آباد علاقوں کو کارآمد بنانے کے لیے
کوئی سوچ نہیں رکھتی اگر ہمارے پاس پانی کے انتظام کا مناسب نظام موجود ہو
توپاکستان میں صحرا فصل پیدا کرنے والے کھیتوں میں تبدیل ہو سکتے ہیں پنجاب
حکومت صحرائے چولستان کے رہائشیوں کو ان کے سماجی معاشی حالات کو بہتر
بنانے کے ساتھ ساتھ انہیں پانی کی فراہم کرنے کا منصوبہ بھی بنا رہی ہے
جنوبی پنجاب میں واقع صحرائے چولستان جس کی لمبائی تقریبا 480 کلومیٹر اور
چوڑائی 32 سے 192 کلومیٹر ہے پوری دنیا میں ڈیزرٹس کو متعدد طریقوں سے
پیداواری زمینوں میں تبدیل کیا جاتا ہے جس میں کان کنی، نمکین پانی سے
لیتھیم نکالنا،کاشتکاری اور شمسی ونڈ انرجی فارمز کا قیام شامل ہے پاکستان
میں بھی ایسا ہی کیا جا سکتا ہے صحرائی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے
سماجی و اقتصادی استحکام کے لیے ضروری ہے کہ ان کی رہائش کا بندوبست ان کے
رہنے کی جگہ کی حدود میں ہی کیا جائے پاکستان کا کل صحرائی رقبہ تقریبا
30,000 کلومیٹر یا 12,000 مربع کلومیٹر ہے جن میں صحرائے تھل پنجاب ، سندھ
میں تھر کا صحرا، بلوچستان کا صحرائے خاران اور گلگت بلتستان کا سرد
صحراپاکستان کے مشہور ریگستان ہیں پاکستان مشرق وسطی کی اقوام سے معاونت لے
سکتا ہے جنہوں نے اپنے صحرواں کو پیداواری کھیتوں میں تبدیل کر دیا ہے
صحرائے نگیبا کوجدید ٹیکنالوجی کے استعمال کی بدولت پیداواری بنا دیا گیا
ہے اور فی ہیکٹر تقریبا 80 ٹن زرعی پیداوار حاصل کرتا ہے جس کی فصلیں گندم،
جو، انجیر، انگور، بادام، زیتون ہیں چین صحرائے گوبی کو زیادہ پیداوار والی
زمین میں تبدیل کرنے کی ایک اور کامیاب مثال ہے پاکستان میں ریگستانوں کو
صرف پانی کی فراہمی سے لوگوں اس قابل بن جائینگے کہ وہ اپنی بنجر زمینوں کا
بھرپور استعمال کر کے فصلیں اور سبزیاں پیدا کر سکیں تاکہ انسانوں اور
مویشیوں کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے پاکستان کے صحرائی علاقے کا 81 فیصد
سے زیادہ حصہ ریت کے ٹیلوں پر مشتمل ہے اور باقی جھاڑی والے فلیٹ اور ریت
کے جھونکے ہیں حکومت بارشوں میں وہاں کے مقامی لوگوں کوایسے تالاب بنانے
میں مدد کرے جہاں پانی ذخیرہ کیا جاسکے اور پھر ان تالابوں کے آس پاس
سبزیاں لگا کر پانی کے اخراج اور بخارات کو روکا جاسکتا ہے صحراوں کے
باشندوں کو مختلف فصلیں آگانے کے لیے بیج اور صاف پانی فراہم کرنا کوئی
اتنا مشکل کام نہیں چین کی طرح درختوں کی عظیم دیوار کے تصور اور پودوں کے
لیے پودوں کے پیسٹ کے استعمال پر بھی غور کیا جا سکتا ہے اور جن ملکوں نے
اپنے صحرواؤں کو گل و گلزار میں تبدیل کیا ہے ان سے رہنمائی اور مدد بھی لی
جاسکتی ہے ورنہ بھوک چند قدم کے فاصلے پر کھڑی ہے ۔
|