|
|
عام طور پر اچھی نرم اور گول روٹی بنانا ایک ہنر ہوتا ہے
اور ایسی روٹی پکانے والی عورت کی بہت قدر سسرال میں سمجھی جاتی ہے جو گرما
گرم پھلکے بنا کر اپنے شوہر کو کھلائے- |
|
مگر سال 1974 میں پاکستانی گورنمنٹ نے جرمنی کے ماہرین
کی مدد سے ایک ایسا پلانٹ تیار کیا جو کہ گرما گرم پکی پکائی روٹیاں حفظان
صحت کے اصولوں کے مطابق بناتا تھا یہ پلانٹ ایک گھنٹے میں 6000 روٹیاں
بنانے کی صلاحیت رکھتا تھا- |
|
پکی پکائی روٹی کے پلانٹ
|
پکی پکائی روٹی کے پلانٹ ابتدائی طور پر لاہور میں اور
کراچی میں لگوائے گئے اور عوام میں اس کی کافی مشہوری بھی کی گئی- ایک جیسی
گرما گرم روٹیاں اس پلانٹ پر بنائی جاتی تھیں جن کو پیک کر کے مارکیٹ میں
پیش کر دیا جاتا تھا اور ان روٹیوں کو ڈبل روٹی کی طرح کسی بھی وقت گرم کر
کے کھایا جا سکتا تھا- |
|
عورتوں کے لیے ایک نعمت |
پکی پکائی روٹیوں کے اس پلانٹ میں چھوٹے چھوٹے سفید نان کے ملنے سے عورتوں
کی ایک بڑی مشکل حل ہو گئی اور بڑا پلانٹ ہونے کے سبب ان روٹیوں کی قیمت
بھی بازار کی روٹی والی ہی تھی جس کی وجہ سے عورتوں نے سکھ کا سانس لیا- |
|
|
|
پکی پکائی روٹیوں کے خلاف پروپیگنڈہ
|
جس طرح ہماری قوم آئيوڈين ملے نمک کو صحت کا دوست سمجھنے
کے بجائے دشمن سمجھتی ہے اور پولیو کی دوا کو بچوں کو نہیں پلاتی کہ ان کو
محسوس ہوتا ہے کہ یہ بیرون ملک کی سازش ہے اسی طرح ان لوگوں کی نظر میں پکی
پکائی روٹیوں کا پلانٹ جو جرمنی کی مدد سے لگایا گیا ہے- درحقیقت پاکستانی
عوام کی آبادی کم کرنے لیے لگایا گیا ہے- |
|
اس روٹی کو کھانے سے مردوں اور عورتوں میں بچے پیدا کرنے
کی صلاحیت میں کمی واقع ہوتی ہے لہٰذا اس بات کے بعد سے اس پلانٹ کی روٹیوں
کی فروخت میں تیزی سے کمی واقع ہونے لگی- یہاں تک کہ اس کے مالکان کو
مجبوراً یہ پلانٹ ہمیشہ کے لیے بند کرنا پڑا- |
|
|
|
اب آپ خود تصور کرسکتے ہیں کہ اگر یہ پلانٹ آج
بھی قائم ہوتے تو یقیناً آج صورتحال یکسر مختلف ہوتی کیونکہ خواتین گول
روٹی کے مسائل سے نہ صرف چھٹکارا حاصل کرچکی ہوتیں بلکہ ان کا ایک کام کا
بوجھ بھی کم ہوچکا ہوتا- |